’’ارے یہ کتنا خوب صورت بیگ ہے… خالہ! آپ نے کہاں سے لیا؟‘‘ ثانیہ نے پوچھا۔
’’لیا کیا مطلب…؟ خود بنایا ہے۔‘‘ خالہ نے پیار بھری نظروں سے پہلے ثانیہ اور پھر میز پر رکھے بیگ کو دیکھا۔
’’واہ … زبردست …‘‘ ثانیہ نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا، اور پھر ماریہ کو متوجہ کرکے یہ خبر سنائی۔
’’مجھے تم سے پہلے ہی معلوم ہے… خالہ نے اپنے سوٹ کے بچے ہوئے کپڑے سے بنایا ہے۔‘‘ ماریہ کے لہجے میں بے نیازی کے ساتھ ساتھ فخر جھلک رہا تھا… اپنے بڑے ہونے کا زعم جو تھا۔
’’جبھی مجھے یہ دیکھا دیکھا کپڑا لگ رہا ہے…‘‘ ثانیہ نے بھی مرعوب ہوئے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔ بریکنگ نیوز کا کریڈٹ تو بہرحال اس کے پاس ہی تھا۔ خالہ ان دونوں کی نوک جھونک سے مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں۔
’’ایسا سوٹ امی کے پاس بھی تھا،بڑی مامی نے دیا تھا… ہے نا امی!‘‘ ماریہ نے ماں سے پوچھا۔
’’ہاں میرا پستئی کلر کا تھا۔‘‘ امی نے جواب دیا۔
’’اور یہ کون سا کلر ہے؟ اردو میں بتائیں۔‘‘
’’فالسئی…‘‘ خالہ کا جواب تھا۔
’’واہ فالسے اور پستے! منہ میں پانی آگیا۔‘‘ ماریہ اور ثانیہ زور سے ہنس پڑیں۔
قہقہوں کی آواز سن کر علی بھی برابر کے کمرے سے آگیا۔
اس کو یہ بات تو دل چسپ لگی، مگر میچ زیادہ سنسنی خیز مرحلے میں تھا، لہٰذا وہ دوبارہ میچ دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
’’یہ سوٹ مجھے بہت پسند تھا کیوں کہ حج کے بعد پہنا تھا۔ اس لیے اس کے بچے ہوئے کپڑے کا بیگ بنا لیا… بس اندر فوم اور استر لگا دیا، اورہم رنگ بٹن لگا دیا۔‘‘ خالہ نے بیگ کی تفصیل بتائی۔
’’اور یہ لیس بھی کتنی ہم رنگ ہے۔‘‘ ثانیہ بول پڑی۔
’’یہ تمہارے موزے کی لیس ہے۔‘‘ خالہ نے انکشاف کیا۔
’’ہاں خالہ …‘‘ ثانیہ نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔ ’’جبھی مجھے اس سے اتنی اپنائیت لگ رہی ہے۔‘‘ ثانیہ نے بیگ کو اس طرح آنکھوں سے لگایا کہ اس کے ہونٹ لیس کو چھو رہے تھے۔
’’تم چھوٹی سی تھیں… سمندر کنارے گئے تھے، موزے خراب ہوگئے تو امی نے یہ لیس اُدھیڑ کر رکھ دی تھی… جب سے یہ سلائی کی ٹوکری میں رکھی ہوئی تھی تو میں نے اسے یہاں استعمال کرلیا۔‘‘
’’اللہ…! یہ اتنی پرانی ہے! میں تو سمجھی آپ نے رنگ ملا کر خریدی ہے۔‘‘ ماریہ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’کہتے ہیں بارہ سال بعد تو کوڑے کے بھی دن پھر جاتے ہیں۔‘‘
’’اسے کوڑا تو نہ کہیں… یہ میرے بچپن کی یادگار ہے۔‘‘ ثانیہ جذباتی لہجے میں بولی۔
’’خالہ آپ کی وجہ سے ثانیہ چپ ہے، ورنہ محترمہ اپنی چیز کے استعمال پر…‘‘ ماریہ کی بات پوری نہ ہوسکی۔
’’جی نہیں… مجھے غلط استعمال پر غصہ آتا ہے۔‘‘ ثانیہ نے زور سے کہا۔
’’بالکل ٹھیک چیز کو اٹھا کر پھینک دینا اور غلط استعمال کرنا دونوں ضیاع ہے، دیکھو اس ڈسپوز ایبل کلچر نے کیا حال کردیا ہے دنیا کا۔‘‘ خالہ اپنے موضوع پر واپس آگئیں۔