ہدایت

359

ماریہ ابھی رمضان کا سودا لکھ رہی تھی کہ امی کی آواز آئی ’’بیٹا! کھانے کا سوڈا ضرور لکھ دینا، پکوڑوں کے لیے سودے کے پرچے میں۔‘‘ امی نے ماریہ سے کہا اور باورچی خانے کی طرف روانہ ہوگئیں۔
’’سلمیٰ یہ سودے کا پرچہ مکمل ہوگیا ہے؟ اب دے آؤں جنرل اسٹور میں؟‘‘ سلمیٰ کے شوہر نے اس سے کہا۔
’’ ابھی ٹھیر جائیں، تھوڑا سا سودا لکھنا رہ گیا ہے۔‘‘
’’بیٹا ماریہ اس میں چاٹ مصالحہ کی چیزیں تو جلدی جلدی لکھ دو۔‘‘ ماریہ کی امی نے پیار سے ماریہ سے کہا۔
’’جی اچھا…‘‘ ماریہ نے کہا اور لکھنے لگی۔
’’لکھو: ثابت دھنیا، سونف، ثابت سرخ مرچیں،کالا نمک، سفید زیرہ…‘‘ ماریہ نے جلدی جلدی لکھ کر سودے کا پرچہ اپنے ابو جان کو تھما دیا جو اسی انتظار میں کھڑے تھے۔
ماریہ کی امی یہ سوچ کر کہ کام کی زیادتی ہے اور وقت کم، جلدی جلدی کاموں کو نمٹانے لگیں۔ ان کے ذہن میں کاموں کی ایک طویل فہرست تھی۔ فریج کی صفائی، کپڑے دھونا، لہسن، ادرک پیس کر رکھنا، کباب، سموسے، رول بنا کر رکھنا، املی کی چٹنی اور ماش کی دال کے بڑے وغیرہ بنانا… ابھی وہ ذہن میں کاموں کی لمبی چوڑی فہرست بنا ہی رہی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی۔
’’جی کون…؟‘‘ سلمیٰ نے فون ریسیو کیا۔
’’میں عظمیٰ بول رہی ہوں…‘‘
’’ہاں… ہاں عظمیٰ خیریت… کیسے یاد کیا؟‘‘
’’ہاں خیریت ہے، کل استقبالِ رمضان کا پروگرام رکھا ہے، سوچا تمہیں بھی کہہ دوں۔‘‘
’’ارے عظمیٰ میں کیسے آئوں گی… چاروں طرف کام ہی کام رکھے ہیں، میرا آنا تو ناممکن ہے۔‘‘
’’سلمیٰ کیا کہہ رہی ہو تم…! میرے گھر کوئی تقریب ہو اور تم اس میں نہ آئو، یہ کیسے ہوسکتا ہے…! دیکھو اگر ایسا کیا تو کان کھول کر سن لو میری تمہاری دوستی ختم… ہم کورونا کی ساری احتیاط کا خیال رکھیں گے۔‘‘
’’ارے… ارے… یہ کیا کہہ رہی ہو تم…؟ تم تو واقعی ناراض ہوگئیں۔ اچھا دیکھو میں ضرور آؤں گی، ٹھیک… اب تو خوش ہو نا…؟‘‘
سلمیٰ سے عظمیٰ کی ناراضی نہ دیکھی گئی اورجھٹ وہ تیار ہوگئی اس کے گھر ’’استقبالِ رمضان‘‘ کے پروگرام میں جانے کے لیے۔
’’ٹھیک ہے اب تم نے خوش کیا نا، ورنہ…‘‘
’’نہیں… نہیں، چلو میں ضرور آنے کی کوشش کروں گی…‘‘ اور پھر دوسرے دن سلمیٰ عظمیٰ کے گھر پہنچ گئی۔
درسِ قرآن جاری تھا… تمام خواتین محویت سے درس سننے میں مصروف تھیں۔ ’’بہنو! بڑی برکتوں، رحمتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے، اس کا استقبال ہمیں شاندار طریقے سے کرنا چاہیے جس طرح ہم اپنے گھر میں آنے والے مہمان کا کرتے ہیں، اس کی پسند و ناپسند کا خیال کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے کسی بھی طرزعمل سے مہمان کو تکلیف نہ ہو، اور اپنے ظاہر و باطن سب کی صفائی کرتے ہیں۔ رمضان المبارک جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا دوزخ سے نجات ہے، اس میں زیادہ سے زیادہ رحمتیں سمیٹنی ہیں، اپنی بخشش کروانی ہے اور ایسے تمام چھوٹے بڑے کام کرنے ہیں جن سے ہمیں دوزخ سے رہائی نصیب ہو، اور جنت کا حصول ہو۔ اس ماہِ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوا۔ قرآن پاک کو اس ماہ میں اوّلیت دیں اور اس کو نہ صرف ناظرہ سے پڑھیں بلکہ اس کا ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھیں۔ اس کو سمجھ کر پڑھیں گے تو ہم قرآن کا حق بھی ادا کرسکیں گے۔ قرآن کو اوّلیت دیں۔‘‘
سلمیٰ سوچنے لگی کہ میں نے نہ جانے کن کن کاموں کو اپنی فہرست میں اوّلیت دی ہوئی ہے، اور نہیں دی تو قرآن پاک کو نہیں دی۔ اس کا دل غم سے بھر گیا، وہ بے چین و مضطرب ہوگئی اور سوچنے لگی ’’میں نے اپنی تمام پچھلی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق تو گزاری نہیں، پتا نہیں میرا اللہ کے ہاں کیا حشر ہوگا؟ میں ضرور قرآن پاک کو اپنے تمام کاموں میں سرفہرست رکھوں گی۔‘‘ سلمیٰ نے دل ہی دل میں کہا… اور پھر اسے یاد آیا اس کے محلے میں پچھلے سال دورہ قرآن بھی تو ہوا تھا یکم سے 20 رمضان المبارک تک… اور میں اپنے کاموں میں ایسی جکڑی ہوئی تھی کہ اس عظیم نعمت سے محروم رہ گئی تھی، کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔
’’نہیں…نہیں اب ایسا نہیں ہوگا…‘‘ اس کا ضمیر ملامت کرنے لگا۔ روزے کا مقصد تو ہماری بہن ’’تقویٰ‘‘ بتا رہی تھیں، میں اس کے حصول کے لیے ضرور کوشش کروں گی۔ اب جو ہوا سو ہوا، اللہ مجھے معاف کرے، آمین۔
اور پھر سلمیٰ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ یہ رمضان پچھلے رمضان سے بہتر انداز میں گزاروں گی۔ یہ سوچ کر وہ اپنے دل میں بے انتہا خوشی محسوس کررہی تھی کہ رب نے مجھے استقبالِ رمضان پروگرام کے ذریعے ہدایت دی۔ اور وہ مسرت و شادمانی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہوگئی۔

حصہ