سود

جناب نے اپنے خط میں یہ بھی فرمایا ہے ’’اُس زمانے کے لوگوں کی نگاہ میں قرض ہر طرح کا قرض ہی تھا‘ خواہ نادار لے یا مال دار‘ خواہ ذاتی ضروریات کے لیے یا کاروباری ضرویات کے لیے۔ کیا جناب موخر الذکر حصہ کی حمایت میں کوئی حوالہ دے سکتے ہیں؟ کئی سو سال سے تجارتی سود تمام دنیا میں رائج ہے اور لوگوں کو اس کی عادت سی ہوگئی ہے۔ اسی لیے ان کے لیے یہ مشکل ہو گیا ہے کہ اس بات کا تصور کر سکیں کہ ایک ایسا زمانہ بھی تھا جب تک کہ تجارتی سود ناپید تھا حالانکہ تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تجارت کی اغراض سے سود کا لین دین کم از کم مغربی ملکوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت رائج نہیںتھا۔
میں جناب کو بار بار تکلیف دے رہا ہوں۔ اس کی تین وجوہ ہیں ایک یہ کہ عملاً لاکھوں مسلمان تجارتی سود لیتے یا دیتے ہیں کیوں کہ اگر ان کو تجارت قائم رکھنی ہے‘ جس میں روز بہ روز مقابلہ تیز تر ہوتا جاتا ہے‘ تو ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ جناب نے اس بات کو نہیں مانا اور متبادل طریقے تجویز بھی فرمائے ہیں۔ لیکن میں بصد ادب عرض کروں گا کہ ہم لوگوں کی موجودہ ذہنی اور اخلاقی معیار جس کی آپ کو اپنے ہم مذہبوں سے توقع ہے ایک نبی چاہتا ہے اور ہمارے مذہب میں دوسرے نبی گنجائش ہی نہیں۔ اس لیے مجھ ناچیز کے خیال میں ہمارے علمائے کرام کو چاہیے کہ مذہب کے تمدنی و معاشرتی معاملات میں ضرورت سے زیادہ سختی نہ برتیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان یرید اﷲ بکم الیسر ولا یرید بکم العسرکو یاد رکھیں۔ مزید برآں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس چیز کو قانون منع کرےاس کا نقصان اس کے فائدہ سے زیادہ ہنا چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا ہے واثمھما اکبر من نفعہما تجارتی سود بعض حالات میں بعض لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اکثر اوقات فائدہ مند ہی ہے اور اس کا نفع اس کے نقصان سے بہت زیادہ ہے اس لیے اس کی مناہی نہ ہونے چاہیے۔
دوسرے آج کل فوجی ضروریات کے لیے اس قدر روپیہ کی ضرورت پڑتی ہے کہ بوقتِ جنگ قرض کے بغیر چارہ نہیں یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔
تیسری وجہ ذاتی ہے میں سرکاری نوکری کے دوران میں جنرل پروایڈنٹ کے لیے روپیہ اپنی مرضی سے کٹواتا رہا۔ اس پر مجھے ایک کافی رقم سود کی ملی ہے جو میں نے نکال کر علیحدہ رکھ لی ہے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا یہ سود ممنوع ہے یا جائز۔ کیا جناب میری رہنمائی فرمائیںگے؟ اگر ممنوع ہے تو اس رقم کو اب کس کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟ کیا حاجت مندوں کی امداد پر اسے خرچ کرنا جائزہ ہوگا؟ اس رقم کی حرمت وعلت معلوم کرنے کے لیے مجھے جو سعی کرنی پڑی اس میں‘ میں نے سود پر جتنی کتابیں ملیں پڑھ ڈالیں لیکن چند نکتے صاف نہ ہو سکے اور ان کو آپ کے سامنے حل کے لیے پیش کرنے کی جرأت کر چکا ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے اس تکلیف دہی کے لیے معاف فرمائیں گے۔ اطمینانِ قلب چاہتا ہوں‘ لیکن اس خط کے جواب کے بعد جناب کو مزید تکلیف نہ دوں گا۔
جواب: بے شک میں نے یہ لکھا تھا‘ اور اب بھی یہی کہتا ہوں کہ قرض پر جس نوعیت کی زیادتی کو عرب میں الربوٰ کہا جاتا تھا‘ قرآن میں اسی کو حرام کیا گیا ہے لیکن آپ اس بات کو جس معنی میں لے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ قرض کی جو قسمیں عرب میں اس وقت رائج تھیں صرف انہی میں قرآن نے اصل سے زیادہ لینے کو حرام کیا ہے حالانکہ میں نے اور تمام فقہائے اسلام نے بالاتفاق قرض کی نوعیت کا نہیں بلکہ زیادتی کی نوعیت کا استنباط کیا ہے۔
اس کو میں ایک مثال سے واضح کروں گا۔ عرب میں زمانہ نزول قرآن کے وقت اصطلاحاً خمر صرف انگور کی شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دوسری قسم کی شرابیں جو اس زمانے میں بنتی تھیں‘ ان پر مجازاً یہ لفظ بول دیا جاتا تھا۔ بہرحال جب قرآن میں اس کی حرمت کا حکم آیا تو کسی نے بھی اس کا یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ حکمِ تحریم صرف اس قسم کی شرابوں کے لیے‘ جو عرب میں اس وقت رائج تھیں‘ مخصوص ہے‘ بلکہ یہ سمجھا گیا کہ ان سب میں جو ایک صفت مشترک یعنی نشہ آور ہونے کی صفت پائی جاتی ہے‘ اصل حرمت اسی کی ہے اور وہ جس قسم کی نوشیدنی یا خرودنی چیز میں پائی جائے وہ اس حکم کے تحت آتی ہے۔
اسی طرح عرب میں قرض کے معاملات کی بھی چند صورتیں رائج تھیں۔ ان سب میں یہ بات مشترک تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا اور اسی کا نام اہلِ عرب ربوٰ رکھتے تھے۔ قرآن میں جب ربوٰ کی حرمت کا حکم آیا تو کسی نے اس کا یہ مطلب نہ لیا کہ یہ حکم انہی اقسامِ قرض سے متعلق ہے جو عرب میں اس وقت رائج تھیں‘ بلکہ شروع سے آج تک کے تمام فقہا نے اس کا یہی مطلب لیا ہے کہ ہر وہ زیادتی ممنوع ہے جو اصل رقم قرض پر بطور شرط عائد کی جائے قطع نظر اس سے کہ قرض کسی نوعیت کا ہو۔ اس بات کی طرف خود قرآن میں ارشاد کر دیا گیا ہے ’’اور اگر تم توبہ کر لو تو اپنے راس المال لینے کے حق دار ہو۔‘‘ (البقرہ: آیت 279)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راس المال سے زیادہ لینا ہی ربوٰ ہے اور اسی کو قرآن حرام کر رہا ہے۔ اگر قرض کی بعض خاص صورتوں ہی میں یہ زیادتی حرام کرنی مقصود ہوتی تو اشارے کنائے ہی میں یہ مقصد ظاہر کر دیا جاتا مثلاً یہی کہہ دیا جاتا کہ حاجت مند کو قرض دے کر زیادہ نہ وصول کرو۔
آپ حاجت مند کی شرط قران میں نہیں پاتے بلکہ باہر سے لاتے ہیں اور یہ شرط بڑھانے کے لیے جو دلیل آپ پیش کرتے ہیں اس سے بہت بڑی اصولی قباحت یہ واقع ہوتی ہے کہ ایک سود ہی نہیں‘ قرآن کے سارے احکام ان حالات و معاملات کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں جو عرب میں اس کے نزول کے وقت پائے جاتے تھے۔ نیز یہ استدلال کرکے آپ ایک بڑا رسک بھی لیتے ہیں۔ آپ کے پاس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اسی زمانے میں کوئی شخص قرض لے کر تجارت نہیں کرتا تھا نہ اس امر کا کوئی ثبوت ہے کہ دورانِ تجارت میں بھی کوئی تاجر کبھی دوسرے تاجر یا ساہوکار سے قرض نہ لیا تھا۔ یہ دونوں باتیں آپ نے صرف دور متوسط کے یورپ سے متعلق اس عام تاریخی بیان سے نکال لی ہیں کہ اس زمانے میں تجارت نجی سرمایہ سے یہ مضاربت پر ہوا کرتی تھی اور تجارتی سود کا رواج بہت بعد میں ہوا ہے حالانکہ اس طرح کے تاریخی بیانات جو ایک عمومی کیفیت پیش کرتے ہیں‘ کبھی اس امر کا ثبوت نہیں ہو سکتے کہ اس زمانے میں کوئی دوسری صورت واقع نہ ہوتی تھی۔
میں نے جو پچھلے خط میں عرض کیا تھا کہ اس زمانے کے لوگ ہر قسم کے قرض کو ہی سمجھتے تھے خواہ نادار لے یا مال دار اور خواہ ذاتی ضروریات کے لیے‘ یہ میرا قیاس ہے اور اس بنیاد پر ہے کہ میری نگاہ سے قدیم زمانے کی تحریروں میں کبھی قرض کی اقسام قرض لینے والے کی حالت یا غرض کے لحاظ سے نہیں گزریں حالانکہ انسان ہر زمانے میں قرض مختلف اغراض کے لیے لیتا رہا ہے اور قرض لینا صرف نادار لوگوں تک کبھی محدد نہیں رہا ہے۔
اس جگہ میرے لیے یہ بحث کرنا غیر ضروری ہے کہ نفع آور اغراض کے لیے بھی قرض پر سود لینا کیوں حرام ہونا چاہیے‘ اس کے متعلق اس سے پہلے اپنے دلائل میں بیان کر چکا ہوں۔
میری رائے میں پراویڈنٹ فنڈ پر جو سودی رقم آپ کو ملی ہے اسے آپ اپنی ذات پر خرچ نہ کریں‘ اگر آپ کو اس کے حرام ہونے کا یقین نہیں ہے‘ تب بھی یہ رقم مشکوک تو ہے۔ آپ جیسا نیک دل آدمی ایک ایسی چیز سے کیوں فائدہ اٹھائے جس کے پاک ہونے کایقین نہ ہو‘ خصوصاً جب کہ آپ اس کے محتاج بھی نہیں ہیں۔ بہتر یہ ہو کہ آپ اس سے ایک ایسے فنڈ کی ابتدا کریں جو حاجت مند لوگوں کو بلا سود قرض دے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دوسرے بہت سے لوگ بھی‘ جن کو اس طرح کی سودی رقمیں ملی ہیں یا آئندہ ملیں گی۔ اس فنڈ میں اپنی رقمیں بہ خوشی داخل کر دیں گے اور ایک اچھا خاصا سرمایہ اس کام کے لیے جمع ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن شعبان رمضان 1376ھ جون 1957ء)
سوال: ماہ جون کے ترجمان القرآن میں جناب نے میرے سوال متعلق تجارتی سود اپنے جواب کو نقل فرمایا ہے جس سے مجھے جسارت ہوئی ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے جناب کو مزید تکلیف نہ دینے کا وعدہ کیا تھا‘ آپ سے تھوڑی سی وضاحت کی درخواست کروں گا۔
-1 آپ نے تحریر فرمایا ہے ’’اسی طرح عرب میں قرض کے معاملات کی بھی چند صورتیں رائج تھیں‘ ان سب میں یہ بات مشترک تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا اور اسی کا نام اہل عرب ’’ربوٰ‘‘ رکھتے تھے۔‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ جناب نے بھی رائج الوقت اقسام قرض سے ہی زیادتی کی نوعیت کا استنباط کیا ہے اور یہی میری کوشش رہی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ جاہلیت کے عرب میں قرض کی جو صورتیں رائج تھیں ان سب کو اکٹھا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان سب میں کیا جزو مشترک تھا۔ جناب کے نزدیک جو بات مشترک تھی وہ یہ تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا۔ میری عرض ہے کہ ایک اور بات بھی مشترک تھی اور وہ یہ کہ مدیون کی حاجت مندی کی وجہ سے اس پر ناجائز شرائط عائد کی جاسکتی تھیں یا باالفاظ دیگر اس پر جبر و ظلم کا احتمال تھا۔ قرض کی جتنی مثالیں آپ نے اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں لکھی ہیں ان سب میں یہ احتمال موجود ہے اس لیے یہ جزو مشترک بھی ’’ربوٰ‘‘ کی تعریف میں شامل ہونا چاہیے اور اس کو شامل کیے بغیر ربوٰ کی تعریف نامکمل رہ جائے گی احتمال جبر و ظلم‘ سب حاجت مندانہ قرضوں کا خاصا ہے اور شاید یہی وجہ تحریم ربوٰ ہو لیکن اگریہ ثابت ہو جائے کہ اس زمانہ میں عرب منفعت بخش کاموں کے لیے بھی سود پر روپیہ قرض لیتے تھے تو میرا نظریہ غلط ہو جائے گا چونکہ میری اپنی کوشش جاہلیت کے عربوں میں اس قسم کے قرض کاکھوج لگانے میں ناکام رہی ہے اس لیے میں نے جناب کو تکلیف دی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ جناب اپنی تحقیق کی بنا پر فرما سکیں گے کہ آیا منفعت بخش قرض کا بھی ان دنوں عربوں میں رواج تھا کہ نہیں؟ جناب نے قرض کی جو مختلف صورتیں نقل فرمائی ہیں ان میں صرف ایک ہے جس کا تجارت سے کچھ تعلق معلوم ہوتا ہے یعنی وہ جو قتادہ نے بیان فرمائی ہے کہ ’’ایک شخص ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔‘‘ غور فرمایئے کہ یہ زیادتی کس وقت عائد کی جاتی تھی؟ جب کہ قرض دار وقت مقررہ پر قیمت ادا کرنے سے عاجز ہو چکا ہوتا تھا اور قرض خواب اپنی من مانی شرائط اس سے منوا سکتا تھا۔ یعنی جبر و ظلم کا احتمال موجود تھا۔
-3 جناب نے خمر کی مثال دی ہے اور فرمایا ہے کہ حکم تحریم کا کسی نے یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ حکم صرف اس قسم کی شراب یا ان اقسام کی شرابوں کے لیے‘ جو عرب میں اس وقت رائج تھیں‘ مخصوص ہے۔ بلکہ یہ سمجھا گیا کہ ان سب میں جو ایک صفت مشترک‘ یعنی نشہ آور ہونے کی صفت پائی جاتی ہے‘ اصل حرمت اسی کی ہے۔ میری عرض ہے کہ اسی طرح ہمیں ’’ربوٰ‘‘ کی ضرر رساں صفتِ مشترک معلوم کرنی چاہیے اصل حرمت اس کی ہوگی اور سود کی جو صورتیں اس ضرر سے مبرا ہوں ان کو ’’ربوٰ‘‘ کے تحت نہ لانا چاہیے۔
-4 سورۂ بقرہ کی آیت وان تبتم فلکم روس اموالکم سے جناب نے استدلال فرمایاہے کہ راس المال سے زیادہ لینا ہی ربوٰ ہے کیوں کہ اگر قرض کی بعض خاص صورتوں ہی میں یہ زیادتی حرام کرنی مقصود ہوتی تو اشارے ہی میں یہ مقصد ظاہر کر دیا جاتا۔ مثلاً یہ کہ حاجت مند کو قرض دے کر زیادہ نہ وصول کرو۔ اس آیت کو اس کے ماسبق سے ملا کر پڑھیے تو پورا حکم یہ ہے:
’’یا ایھا الذین امنوا اتقوا اﷲ دذرو امابقی من الربوٓا ان کنتم مومنینo فان لم تضلوا فاذ نوا بحرب من اﷲ و رسولہ وان تبتم فلکم روس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون۔
یہ احکام اس (ربوٰ) بڑھوتری کو چھوڑنے کے لیے تھے جو اس وقت قرض خواہوں کو ملنے والی تھی اس لیے لازماً اس کا تعلق ان اقسام قرض سے تھا جو اس وقت رائج تھیں اور راس المال کا حکم بھی انہی اقسامِ قرض سے تعلق رکھتا ہے۔
(جاری ہے)