یوم پاکستان کی پریڈ کو امسال 23 کے بجائے 25 مارچ پر منتقل کرنے کا فیصلہ بہرحال سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی بہانے تنقید کا نشانہ بنا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پنجاب بالخصوص اسلام آباد اس وقت بھی کورونا کی وبا کی لپیٹ میں ہے، موسمی تبدیلی (بارش) کی پیش گوئی بھی تھی جب کہ پچھلے سال تو یوم پاکستان بالکل ہی سناٹے میں منایا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی 7 سال یعنی 2008 سے 2014 کے درمیان ملکی حالات خصوصا” افواج پاکستان پر حملوں میں شدت کی وجہ سے بھی پریڈ ملتوی کی گئی۔ اس پریڈ سے اہلِ پاکستان و دنیا بھر کے سامنے ہم اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ پوری شان و شوکت و جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم بچپن سے پی ٹی وی پر یہ پریڈ بہت شوق سے دیکھتے رہے ہیں اور آج اس کے ٹاپ ٹرینڈ پر بات کر رہے ہیں۔ یوم پاکستان پر تو ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈ بنے ساتھ ہی پریڈ والے دن بھی پریڈ کے کئی خوبصورت لمحات کے کلپس بھی وائرل رہے۔ ڈھیروں میں سے ایک نمایاں کلپ یوم پاکستان کی پریڈ میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور بلاشبہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں بسے ڈراما سیریل ارتغرل غازی کی تھیم میوزک بھی پیش کی گئی۔ ’ترک جاں نثاری بینڈ‘ نے عثمانی فوج کے اسٹائل کی فوجی بینڈ پریڈ کی اور مشہور ملی نغمہ ’دل دل پاکستان‘ گا کر اس کے بعد تکبیر کے نعرے اور ’یامحمد‘ کے نعروں نے ناظرین کے جذبوں کو بھی گرمایا گیا۔ یہی نہیں ترک ایف سولہ جنگی جہاز ’سولوترک‘ نے بھی اِس موقع پر خصوصی کرتب کا مظاہرہ کیا۔ اس پر الگ سے Soloturk ٹرینڈ بنایا گیا۔ ترکی کے روایتی لباس میں ملبوس ترک بھائیوں نے اپنے جذبات کے خوب صورت اظہار سے دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں کو بھی قریب کیا۔
پاک فضائیہ کے جوانوں نے جس خوب صورتی سے آسمان پر اپنی مہارت کے رنگ بکھیرے وہ بھی بہت خوب رہے۔ اسی پریڈ میں پاک فوج میں شامل خواتین افسران کی بھی ایک پریڈ ہوئی۔ اس پریڈ کی تصاویر و کلپس کو موقع پا کر عوام نے ’عورت مارچ‘ کے نام سے منسوب کر کے خوب شور مچایا۔ تصاویر سے ٹوئٹر پر واضح پیغام دیا گیا کہ ایسا ’عورت مارچ‘ ہمیں قبول ہے، یہی حقیقی ’عورت مارچ‘ ہے، اسے کہتے ہیں ’عورت مارچ‘ یہ وہ ’عورت مارچ‘ ہے جس پر ہمیں بطور پاکستانی فخر ہے، ہمیں ایسی وومن ایمپاورمنٹ پر بات کرنی چاہیے- سیلوٹ ہے ہمارے ونڈر وومن پر، یومِ پاکستان کے موقع پرپاکستان کی خواتین کا حقیقی کردار دکھانے پر مشکور ہیں- اس سے بہتر ’عورت مارچ‘ ہو ہی نہیں سکتا، یہ ہے ہمارا پاورفل امیج۔
بہرحال ویسے 25 مارچ ایک اور حوالے سے بھی ٹوئٹر پر ماضی کی اہم یادوں کے دریچے کھولتا نظر آیا جب 1992 میں پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ کرکٹ کے کروڑوں شائقین نے اُس تاریخی لمحہ کو بھرپور انداز سے شیئر کیا اور دو عنوان سے ٹرینڈ لسٹ میں شامل کرایا۔ اس میں ایک ٹرینڈ OnThisDay کا تھا جس میں اس دن سے متصل تمام واقعات کو لوگ شیئر کر کے دل چسپ تبصرے کرتے رہے مگر ان میں کھیل یعنی کرکٹ، فٹ بال، کار ریس، سر فہرست رہے۔
اس کے ساتھ ہی 2021 کا ایک اور دل خراش واقعہ سوشل میڈیا پر معصوم ’حریم‘ کےلیےانصاف مانگتا نظر آیا۔ کوہاٹ کی رہائشی معصوم بچی کو اغوا کر کے بے دردی سے قتل کے بعد نالے کے قریب لاش پھینک دی گئی۔ اس کے بعد اگلا تکلیف دہ معاملہ علاقے کے بڑے اسپتال میں ڈاکٹرز کے نہ ہونے کی وجہ سے شور کا سبب بنا۔ پریڈ کی وجہ سے شاید بہت زیادہ نوٹس تادم تحریر نہیں لیا گیا۔ علاقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں جمع ہوکر احتجاج بھی کیا۔ بچی کا باپ دو گھنٹوں تک ڈاکٹر کے انتظار میں اپنی معصوم بچی کو نیم مردہ حالت میں لیے احتجاج کرتا رہا۔ ریجنل پولیس آفیسر کوہاٹ اور ڈی پی او کوہاٹ نے بچی کی لاش ملنے کی جگہ کا تفتیشی دورہ بھی کیا۔ کوہاٹ کے دَسیوں مقامی سوشل میڈیا پیجز پراس واقعہ کی لمحہ بہ لمحہ کوریج شیئر ہوتی رہی۔ نماز جنازہ کا اجتماع بھی خاصا بڑا تھا اور اُس میں خاصے سخت الفاظ میں اس واقعے کی مذمت اور حکومت و فوج سمیت سب کو واضح پیغام دیا گیا کہ معصوم حریم فاطمہ کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔
سوشل میڈیا پر اطلاعات کے ضمن میں یہ بہرحال ایک اہم بات سامنے آئی ہے کہ ہر شہر ہر علاقے کے مقامی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حضرات نے کئی پیجز بنا لیے ہیں جن میں متعلقہ علاقے کی ہر ہر خبر، سرگرمی اور مارکیٹنگ موجود ہوتی ہے اور وہ اُسی سے اپنا روزگار چلاتے ہیں، اس سے یہ ضرور ہوتا ہے کہ کوئی بھی فرد متعلقہ واقعہ کی مزید معلومات تک بروقت پہنچ سکتا ہے۔ یہی چیزیں شیئر ہو کر مقامی سے قومی اور پھر بین الاقوامی توجہ پا لیتی ہیں۔ اب ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے جوچلتا پھرتا نیوز چینل بن چکا ہے جس کے نتیجے میں تیز ترین اطلاعات کا بہاؤ جاری ہے۔ معصوم بچوں کے اغوا اور قتل کسی طور قابو میں نہیں آ رہے، کچھ عرصہ شور مچتا ہے اس کے بعد پھر خاموشی نہیں بلکہ اتنے وقفے میں اگلا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ جن کی یہ کوشش ہے کہ وہ بچوں کو ’گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ‘ کی تربیت دیں وہ اغوا و قتل مطلب جبری واقعات پر خاموش ہیں۔ اس لیے اہم بات معاشرے کو پاکیزہ بنانا ہے۔ ہم اپنے اطراف میں انسانوں کو مختلف اِسکرین سے جڑا دیکھ رہے ہیں یہ مثبت علامت قطعاً نہیں ہے۔ ایک ٹک ٹاک سے جان نہیں چھوٹ رہی تو بیگو آگیا اُس سے مقابلے کے لیے اب اسنیک وڈیو ایپلی کیشن زہر گھولنے آگئی ہے۔ سرمایہ دارانہ غلبے نے انسان کو آسان ترین، کم ترین محنت سے زیادہ سے زیادہ حصولِ زر کی خاطر جس گندے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے، جان لیں کہ اُس کا نتیجہ ہمارے معصوم بچوں بچیوں کی دل خراش اموات کی صورت ہی سامنے آئے گا۔
انڈونیشیا کی ایک یونیورسٹی میں منعقدہ بین الاقوامی تحقیقی کانفرنس میں ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا گیا، اس کا عنوان تھا ’’بیگو لائیو۔ ابلاغیات میں اخلاقی انحطاط۔ ایک تنقیدی مطالعہ-‘‘ انڈونیشیا ہی کے دو محققین نے اس ایپلی کیشن کے مضر اثرات پر مقالہ پیش کر کے بتایا کہ مذکورہ ایپلی کیشن 2016 میں سنگاپوری کمپنی نے لانچ کی اور اس کا مقصد کاروباری تعلقات کو فروغ دے کر آن لائن کمیونٹی بنانا ظاہر کیا۔ مگر یہ صرف ایک فراڈ تھا۔ اصل مقصد نوجوان نسل کو مالی لالچ دے کر اپنی جانب متوجہ کرنا اور اس کے ذریعے حرام کمائی کو فروغ دینا سامنے آیا جس کے بدلے کم و بیش 400 ملین صارفین سے انتہائی اخلاق باختہ کام کروائے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ کیا انڈیا، کیا انڈونیشیا، کیا پاکستان سب اس کو بند کرانا چاہ رہے ہیں۔
مقالے میں انہوں نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’اخلاقیات ایک ایسی چیز ہے جسے کسی طور نہیں چھوڑا جا سکتا چاہے ہم ترقی کی کتنی بڑی لہر کا سامنا کریں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات کی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمیں اخلاقی اقدار اورانسانیت کو تکنیکی ترقی کے شور میں نہیں کھونا چاہیے۔ اخلاقیات کے ساتھ ٹیکنالوجی ہو تو وہ انسانی تہذیب کے لیے بیک فائر نہیں کرے گی۔ بیگو لائیو کی ایپلی کیشن اس بات کا سبق دے رہی ہے کہ مواصلاتی ٹیکنالوجی کو اخلاقیات ومعاشرتی روایات کے ہینڈل سے ہی کنٹرول ہونا چاہیے۔
بولنا آسان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بڑا دائرہ ہے، اسکرین سے دوری کے لیے ہمیں پہلے اپنے اوپر قابو پانا ہوگا اور شعوری طور پر صرف انتہائی ناگزیر حالت میں بچوں کے سامنے استعمال کیا جائے۔ والدین جتنا خود اسکرین سے دور ہوں گے وہی ایک سبب بنے گا بچوں کو روکنے کےلیے۔ یہ صرف صحت ہی نہیں بلکہ نفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس میں بچوں کو صرف تنبیہ سے ہی نہیں بلکہ مکالمہ کے ساتھ بھی اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ اس کی عادت خطرناک زہر ہے ماسوائے ضروری کام، جیسے کسی سے رابطہ کرنے، اہم بات نوٹ کرنے، حساب کتاب کرنے کے لیے۔
اخلاقیات کی بات چل ہی گئی ہے تو اس ہفتہ ٹوئٹر پر ایک اور اخلاقی جنازہ ٹرینڈ کی صورت نظر آیا ۔ وہ تھا سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف جنہوں نے ڈسکہ الیکشن کے بارے میں ایک فیصلہ دیا۔ فیصلہ تو دوبارہ پولنگ کے بارے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رہنے کا تھا مگر مسلم لیگ ن کے سماجی میڈیا ایکٹیوسٹ کو بہت تکلیف ہوئی اور وہ حدیں پار کر گئے۔ اسی طرح 23 مارچ کو جو حکومت نے سول ایوارڈ بانٹے اُن میں ہمیشہ کی طرح اداکاراؤں میں ’ریشم‘ اور دینی خدمات کے تناظر میں بیسٹ مسلم اسکالر ’مولانا طارق جمیل‘ پر خاصے تبصرے جاری رہے- علی ظفر اور مولانا طارق جمیل پر تو ٹرینڈ بھی بنے، جن میں سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ ’جمہوریت کا حسن اور مساوی حقوق: اداکارہ ریشم / گلوکار علی ظفر/ ہمایوں سعید نے ڈراموں فلموں میں اداکاری کرکے، ناچ گانا پرفارم کر کے لوگوں کو تفریح فراہم کی۔ مولانا طارق جمیل نے ناچ گانے سے منع کیا۔ عیش و عشرت اور شوبز سے دور رہنے کی تقریریں کیں۔ جمہوری حکومت کے نزدیک دونوں ہی نے اپنے اپنے شعبے میں “حسن کارکردگی” کا مظاہرہ کیا۔ صدارتی ایوارڈ دونوں کو دے دیا گیا۔ اسے کہتے ہیں جمہوریت کا حسن۔‘ ویسے اس سے قبل اداکارہ مہوش حیات کو ایوارڈملنے پر بھی یہی سب کچھ ہو چکا تھا۔
23 مارچ کو اہل پاکستان اپنے زندہ و جاوید نظریے پر فخر کا دن منا رہے تھے تو دوسری جانب امریکا میں ’AtheistDay‘ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کی صورت جلوہ گر دکھائی دیا، اس ٹرینڈ کے ذیل میں مسلمان تو کم ہی ملے البتہ کئی عیسائی ہی مذہب اور خدا کے وجود پر دلائل دیتے نظر آئے۔ اسی طرح امریکا میں اس ماہ دو بڑے خونریزی کے واقعات ہوئے، ایک میں تو ایشیائی نژاد کو ٹارگٹ دکھایا گیا جب کہ دوسرے میں مرنے والوں کی شناخت نہیں ظاہر کی گئی ،لیکن اُس پر احتجاج کرتے ہوئے RepublicansareKillingus کے نام سے ٹرینڈ چلایا گیا۔