انسان کی ضروریات پوری ہوتی جائیں اور محض پوری ہوسکیں تو اسے متمول کہا جاسکتا ہے۔ جس آدمی کے پاس ضروریات سے زیادہ مال ہو، اسے امیر کہا جاسکتا ہے، اور جس کے پاس ضرورت سے کم ہو، اسے غریب ہی کہا جائے گا، بشرطیکہ لفظ ’’ضرورت‘‘ کی کوئی جامع تعریف ہوجائے۔ ایک انسان کے لیے آسائش اور سامانِ تعیش ضرورت بن کے رہ جاتے ہیں، اور دوسرے کے لیے رشتہ جاں اور تارِ حیات کی بقا سے زیادہ کوئی اہم ضرورت نہیں ہوتی۔ اس فرق کی وضاحت ناممکن ہے۔ انسان حریص ہے، انسان ناشکر گزار ہے، انسان ظالم ہے، انسان مسافر خانوں میں ہمیشہ آباد رہنا چاہتا ہے۔ قبرستان میں کھڑے ہوکر اپنے ہمیشہ رہنے کا بے بنیاد دعویٰ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس دنیا میں جو آیا، اسے واپس جانا پڑتا ہے۔ پھر دعویٰ کیا، قیام کیا اور ضرورت کیا! اگر ٹھیرنا مقدم ہو تو رخصت کی کیا ضرورت، اور اگر جانا ضرورت ہو تو ٹھیرنے کے پروگرام بے معنی ہیں۔ اگر ظاہری مرتبے قائم بھی رہ جائیں تو انسان اندر سے قائم نہیں رہتا۔ باہر سے خطرہ نہ ہو تو بدن کی چار دیواری اندر سے گلنا شروع ہوجاتی ہے۔ انسان اپنے بوجھ تلے آپ ہی دب کے رہ جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خواہشات کے پتھروں میں چنواتا رہتا ہے اور جب آخری پتھر اس کی سانس روکنے لگتا ہے تو پھر وہ شور مچاتا ہے کہ اے دنیا والو! کثرتِ خواہشات سے بچو، سہولت طلبیوں سے گریز کرو، مال کی محبت سے پرہیز کرو، کثرتِ مال بقول ارشادِ باری تعالیٰ تمہیں غافل کردے گی۔ حتیٰ کہ تم قبروں میں جا گرو گے اور پھر زندگی کو ازسرنو شروع کرنے کا کوئی موقع نہیں ہوگا، نہ آپ کو اس کی اجازت دی جائے گی۔
دولت جمع کرنے کی خواہش اور اسے گننے کا مشغلہ ہی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ یہی دوزخ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی جائز اور فطری ضروریات بھی ترک کردے۔ دولت مند یا غریب ہونا سمجھ میں تو آتا ہے اور یہ الفاظ ہم استعمال کرتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص امیر ہے، فلاں شخص غریب ہے۔ لیک اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ ایک شخص کیوں امیر ہے اور دوسرا شخص کیوں غریب ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات ہم امیر ہونے کے نسخے بناتے رہتے ہیں، لیکن ان نسخوں اور اصولوں کے باوجود ان پر عمل کرنے والے بے شمار انسانوں کے لیے نتیجہ برعکس نکلتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ محنت خوش حال ہوگی، لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ محنتیں بدحال ہیں، پریشان ہیں۔ بے شمار لوگ محنت کی چکی میں پسے جارہے ہیں اور کوئی چکی ان کے لیے آٹا نہیں پیستی۔ ہر اصول اپنی ضد میں مرتا جارہا ہے۔ شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ امیر ہونے کے لیے تمام اصولوں کے باوجود کوئی اصول نہیں، اور غریب ہونے کے لیے تمام احتیاطوں کے باوجود کوئی احتیاط کارگر نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی متمول ہو اور کچھ ہی دیر میں بغیر مال کے ضائع کیے اپنی حالت میں مکمل طور پر قائم رہ کر وہ غریب ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے گرد آپ سے کم درجے کے لوگ ہیں، تو آپ متمول ہیں، اور اگر آپ کے سامنے زیادہ متمول لوگ آجائیں تو آپ اپنے آپ میں غریب ہوجاتے ہیں بلکہ کمتر ہوجاتے ہیں اور احساسِ کمتری میں مبتلا کردیے جاتے ہیں۔ جب تک انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی طاقت ہے جو غریب کو غریب بناتی ہے اور امیر کو امیر۔۔۔ کون سی ذات ہے جو ایک بے جان سیپ میں موتیوں کو پالتی ہے۔۔۔ کون ہے جو زمین کے اندر سے خزانے نکالتا ہے، کون ہے جو آسمان سے مال برساتا ہے، کون سی طاقت ہے جو خوشیاں عطا فرماتی ہے اور کون سی تقدیر ہے جو مبتلائے غم ِدوراں کردیتی ہے۔ ہم جن لوگوں کے لیے، جن محبوبوں کے لیے مال اکٹھا کرتے ہیں اگر وہی نہ رہیں تو مال کس کام کا! مطلب یہ ہے کہ ہونا دراصل کسی کام کے لیے ہونا ہے۔ خالی ہونا نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو شخص صرف جمع کرتا ہے اور وہ پیسہ اس کے کام آتا ہے نہ کسی اور کے کام آتا ہے، وہ آدمی پرایا مال جمع کرتا ہے۔ وہ صرف نگران ہے، کسی اور کے مال کا۔ جس طرح ایک اژدہا کسی کے مال کی حفاظت کرتے کرتے عمر بسر کردیتا ہے، اور اگر انسان کی دولت لوگوں کے مصرف میں آنے کے لیے اکٹھی کی جائے تو واضح بات ہے کہ یہ دولت جمع نہ رہے گی، اور پھر انسان برابر ہوجائیں تو کوئی گلہ نہیں رہے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے، اگر جیب برابر ہوجائے تو ذہن برابر نہیں ہوگا۔ خیال برابر نہیں ہوگا اور حسن و جمال تو کبھی برابر نہیں ہوگا۔ ایک آدمی اپنی غریبی کے باوجود سراہا جاسکتا ہے، چاہا جاسکتا ہے، پسند کیا جاسکتا ہے۔۔۔ اور دوسرا آدمی دولت اور کثرت کے باوجود ناپسندیدہ شخصیت ہوسکتا ہے، ناپسند کیا جاسکتا ہے، بلکہ نفرت کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بڑے غور کی ہے کہ انسان امیر تو ہونا چاہتا ہے لیکن وہ امیروں سے نفرت کرتا ہے۔ جس طرح لوگ، تمام لوگ، حکمران بننا چاہتے ہیں لیکن بنے ہوئے حکمرانوں کے خلاف نفرت رکھتے ہیں۔ یہ کیسی بات ہے کہ ہم جس کو قابلِ نفرت سمجھتے ہیں، وہی بننا چاہتے ہیں۔(حرف حرف حقیقت)
nn