قسط نمبر 10
پورے ترکی میں ہم نے جہاں بھی کھانا کھایا چند چیزیں مشترک پائیں، ایک تو کھانے کی وافر مقدار، دوسری عمدہ پیش کش، تیسری رنگ برنگی سلاد، چوتھی مایونیز ملی چٹنیاں۔ ان کے کھانوں میں زیتون کا تیل، پنیر اور لیموں کا استعمال بہ کثرت ملا۔ اُن کی روٹی پنیر، زیتون اور میدے کی بنی ہوتی مختلف اشکال کی، مگر ذائقے میں یکساں چھوٹے گولوں کی شکل میں یا گول لمبے انداز کی۔ ہماری طرح کی روٹی نان نما ہمیں صرف قدیم استنبول کے علاقے میں ایک روایتی قدیم ریسٹورنٹ میں ملی جس کے آس پاس آیا صوفیہ، نیلی مسجد اور توپ کاپی محل واقع ہیں۔ اکثر کھانوں میں تقریباً نو، دس انچ کی سالم مخصوص قسم کی اسٹیم فرائی مچھلی بھی پیش کی گئی۔ ترکی غذا کا ایک لازمی جزو باقاعدہ کھانے سے پہلے تقریباً ہر جگہ پیش کیا جانے والا ’’سوپ“ تھا، جو مسور کی پانی والی دال سے ملتا جلتا، مختلف ذائقوں مگر یکساں شکلوں کا تھا۔ حسبِ طلب چکن روسٹ، باربی کیو، ترکی کے مشہور کباب یقیناً اپنی لذت میں بے مثال، کھائے۔ ایک اور چیز چاولوں کا ملغوبہ۔ تقریباً ابلے ہوئے، بغیر مرچ مسالحے کے، مگر کہیں کہیں سبزی اور چکن کے معمولی سے اجزاء کی آمیزش کے ساتھ، ہر کھانے کے ساتھ آئس کریم کے ایک اسکوپ جتنے ضرور دیے گئے۔
کھانا ایک فرد کے لیے ہماری طلب اور ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتا۔ اکثر ہم دونوں میاں بیوی ایک ہی سرونگ پر اکتفا کرتے، اور اگر کبھی دو سرونگز لے بھی لیتے تو اکثر کھانا اردگرد موجود موٹی بلیوں کو پیش کرنا مناسب سمجھتے۔ جوس اور کالی ترکی چائے بھی اکثر جگہ لازمی جزوِ طعام تھی۔
رمادہ پلازہ ہوٹل کے ڈائننگ روم میں ایک شب ہم دونوں میاں بیوی کو ایک ہی پلیٹ میں کھاتا دیکھ کر ہال میں بیٹھی ایک یورپی سیاح خاتون پاکستانی اور اسلامی معاشرے کی اس خوب صورت ازدواجی ہم آہنگی کے منظر سے محوِ حیرت ہوگئی اور چمچ ہاتھ میں پکڑے دیر تک ہماری طرف حسرت و تعجب سے محوِ نظارہ رہی۔ میری اچانک نظر پڑنے سے وہ گڑبڑا سی گئی۔
پہلی روشن صبح میں ہوٹل سے باہر کی دنیا کا جائزہ لیا تو صاف سڑکیں، پختہ عمارتیں، دکانیں، تفریحی پارک ہر جگہ نظر آئے۔ سڑک پر پاکستانی ہاکروں کی طرح آوازیں لگا کر صبح کا ناشتا اور ترکی بریڈ فروخت کرتا بچہ پاکستانی چھوٹوں کی یاد دلا گیا، جو چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خاندانی مالی حالات و ضروریات کے زیر اثر گلیوں، بازاروں، ورکشاپوں، ہوٹلوں اور کارخانوں میں معمولی معاوضے کے عوض نوکری کرتے، اپنا بچپن اور شعور کی ہر منزل گم کر بیٹھتے ہیں۔ ممکن ہے ترکی خاندانوں کا ایک یہ بھی معاشی پہلو ہو۔ مگر ہمیں بالعموم ترکی خوددار اور خوشحال ہی ملے۔
ہوٹل کے باہر سڑک کی دوسری جانب ایک دکان پر لگے بورڈ نے متوجہ کرلیا۔ عربی میں لکھے اس بورڈ کے ذریعے عربی سکھانے کے ادارے کا اعلان تھا۔ خوشی ہوئی کہ اُس ملک میں جہاں لادینیت اور جدیدیت کے نام پر عربی زبان لکھنا، بولنا ممنوع ایسا ہوا کہ ترکی زبان میں موجود عربی و فارسی کے الفاظ، محاورات، تراکیب و مشتقات کو جرم قرار دیا گیا۔ وہاں ایک صدی گزرنے کے بعد بالآخر عربیت کو واپس آنے کا راستہ مل رہا ہے۔ ممکن ہے اِس کا محرک اقتصادی و معاشی ضروریات ہوں، تاہم اہلِ ترکی کی اسلام دوستی اور محبت کی دبی ہوئی چنگاریوں کی راکھ جھڑنے کی اُمید رکھی جاسکتی ہے۔ شاید اسلامیت کی جانب یہ پہلا قدم ہو، جو 2023ء میں بے اختیاری اور غلامی کے سو سالہ لوزان معاہدے کے اختتام کا منتظر ہو، کہ اس کے بعد ٹوٹے ہوئے رشتوں کو تیز رفتاری سے جوڑا جاسکے۔
تیار ہونے کے لیے جانے سے پہلے ہوٹل کے ڈائننگ ہال سے رات کی طرح انواع و اقسام کے ’’ناشتائیہ‘‘ کھانوں کے ہجوم میں سادہ سے ناشتے کا انتخاب کیا۔ فارغ ہوکر کمرے میں پہنچے، تیار ہوئے اور ’’کپڑے بدل کر جائوں کہاں‘‘ غزل کے بول گنگناتے انطالیہ کی سیر کے لیے ہوٹل کی لابی میں آبیٹھے۔ آہستہ آہستہ سارے رفقائے سفر بھی آنے لگے۔ سب کے تروتازہ اور شاداب، پُررونق چہروں پر پُرسکون شب گزاری کی داستان زبانِ حال سے عیاں و آشکار تھی۔ ہر شخص مجسم تصویر تھا۔ ’’تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ‘‘۔ کل سب تھکے ماندے اور باہم اجنبی۔۔ آج سب چُست و توانا اور پُرجوش۔ مشتاقانِ دید سرزمینِ انطالیہ۔ بنے سنورے، ہلکے پھلکے، سامان اور لوازمات کی فکر سے آزاد۔ ہنستے مسکراتے، چہکتے چہکاتے بسوں کے جانبِ منزلِ اوّل روانگی کے منتظر۔
ہوٹل کے باہر ٹیکسی والے ہمیں گھیرنے کی کوشش کرتے، مگر ہم جانتے تھے کہ ترکی میں پرائیویٹ ٹیکسی خاصی مہنگی ہے، جبکہ ‘‘اُوبر‘‘ وغیرہ نسبتاً سستی۔ اگرچہ ہمیں سارے سفر میں اس کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ شاندار مرسڈیز بسیں ہمہ وقت ہمارے اجتماعی سفر کے لیے موجود رہتیں۔ ہم نے بس نمبر ’’ون‘‘ میں اپنی دو سیٹیں قابو کرلی تھیں۔ اور سارے سفر میں وہی ہمارا سفری ٹھکانہ ہوئیں۔
ہوٹل کے باہر بین الاقوامی رواج کے مطابق مختلف ممالک کے جھنڈوں میں پاکستانی پرچم نہ پاکر میں نے ہوٹل کے منیجر سے انگریزی میں اِس ’’بے رخی‘‘ کا سبب پوچھا، تو وہ بس اتنی ہی انگریزی بول اور بتا سکا کہ میں تو منیجر ہوں، مجھے اس کا سبب نہیں معلوم۔ بہرحال ہمیں یقین تو بعد میں ہوا، مگر یہاں اندازہ ہوگیا کہ پاکستان سے ترکیوں کی محبت محض ایک فسانہ ہے۔ حقیقت سے اِس خبر اور توقع کا کوئی تعلق نہیں۔ سارے ترکی میں ہمیں نہ کوئی پاکستانی پرچم دکھائی دیا اور نہ اردو کا کوئی ایک بھی لفظ۔ حالانکہ ہماری اردو کا نام ہی ترکی زبان سے ماخوذ اور عربی و فارسی سے محبت کا غماز ہے اردو کا تشخصِ لسانی و ذخیرئہ لفظی۔ خیال آیا کہ ممکن ہے یہ پہلا تاثر ہو ہمارا پاکستان سے ترکوں کے تعلق کے بارے میں۔ ہوسکتا ہے آگے چل کر اس تاثر کا ازالہ ہوجائے، مگر وائے حسرت کہ یہ تاثر مزید پختہ و قوی ہی ہوا۔ اور میں نہ جان سکا کہ آخر اس کا سبب کیا ہے! ہماری قومی شہرت و شناخت، رویہ یا سیاسی و سفارتی اسباب، یا پھر ترکی کے اپنے اندرونی حالات۔ حالانکہ ہم پاکستانی تو بڑی ایمانی قوت کے ساتھ اسلامی فرض سمجھ کر ترکی ڈراموں، اداکاروں کے اس قدر فریفتہ ہوگئے کہ خود کو اُن کے رنگ ڈھنگ، لباس، زبان اور ادائوں میں ڈھال لیا، حتیٰ کہ کاروبار کو بھی ترکی کرداروں سے موسوم کردیا۔
انطالیہ میں پہلی منزل
انطالیہ میں ہماری پہلی منزل وہی تھی، جو سنِ عیسوی ایک سو تیس (130ء) میں رومی بادشاہ کی آمد پر اُس کی پہلی منزل تھی۔ ’’HARDIAN GATE‘‘ ایک قلعہ کا صدر دروازہ جو اُس کی آمد اور فتح کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔ تقریباً اکیس سو سال پُرانی سرمئی سنگلاخ پتھروں سے تعمیر کردہ تین محراب نما آٹھ میٹر اونچے، سنگلاخ پتھروں والے فرش اور اُترتی چڑھتی سیڑھیوں والی اس شاندار عمارت کو جو ایک بڑے قلعے کی واحد باقیات ہے، ایک آئرش شخص نے 1817ء میں دریافت کیا۔ اس کے باہر گرے پتھر کی بڑی بڑی بلاک نما اینٹوں کی فصیل کی دیوار کا بس سو دو سو فٹ کا حصہ ہی باقی ہے۔ روایت ہے کہ 13 ویں صدی عیسوی میں سلجوقی بادشاہ کیقباد نے اس دروازے اور فصیل کو دوبارہ تعمیر کرایا اور محفوظ بنایا۔ اس کی ایک دیوار پر ابھی تک عربی عبارات کندہ ہیں جو بآسانی پڑھی جاسکتی ہیں۔
یہ علاقہ جہاں HARDIAN GATE واقع تھا، ’’KALEICI‘‘ کے نام سے موسوم قدیم شہر ہے، جو قدرے تنگ گلیوں پر مشتمل، مگر ساری کی ساری دلکش اور پُربہار، سرسبز و شاداب، بڑے بڑے پودوں سے بھری ہوئی اور راستوں کو مزید تنگ کررہی ہیں، مگر خوشگوار تاثر قائم کرتی اور دل و جاں کو معطر و پُربہار بناتی ہیں۔ اس کے دونوں جانب قدیم محلات نما بڑے بڑے گھر، ہوٹل، شراب خانے موجود ہیں اور سڑک یعنی راستوں پر کرسیاں میز یںڈال کر اپنے کاروبار سجائے ہوئے ہیں۔ یہاں قدیم سکوں، نوادرات اور مختلف تہذیبوں کے ظروف و آلات کی دکانیں، قالین، کپڑوں، سووینیرز کی ویسی ہی دکانیں ہیں، جیسی پاکستان کے کسی تاریخی مقام یا صوفیہ کے درباروں، خانقاہوں کے باہر موجود ہوتی ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان دکانوں میں فوڈ اور آئس کریم بیچنے والوں کی بھی ہے، جو اپنے مخصوص مزاج کے سبب دنیا بھر کے سیاحوں میں مقبول ہیں۔ اس آئس کریم کا مزا شوگر کی بیماری کے باوجود احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ کر ہم نے بھی چکھا، کہ بندہ لاکھوں روپے خرچ اور ہزاروں میل کا سفر کرکے ’’ترکی‘‘ آئے بھی اور ترکی نمی دانم، ترکی زبان سے ناواقفیت کی طرح اس کے ذائقوں سے بھی محروم رہے، یہ تو ناممکن تھا۔ مگر سچی بات ہے ہمیں ترکی آئس کریم کا مزا آیا نہ آئس کریم والے سفید رنگت اور سفید بالوں والے خوبصورت بزرگ نے ہمارے ساتھ کوئی شرارت کی۔ شاید ہماری عمریا شکل و صورت یا ہیئت کذائی کا لحاظ کر گئے۔
انطالیہ کا قدیم شہر
ہارڈن گیٹ سے گزر کر انطالیہ کے قدیم شہر کی گلیوں، بازاروں سے مسحور ہوتے اور پریوں کے شہر میں پریاں تلاش کرتے ہم آگے بڑھتے رہے۔ ہلکی سرسبز پہاڑی پر قائم قدیم شہر انطالیہ کی پہچان ہے۔ چلتے چلتے جب تھک گئے تو یک دم ساحلِ سمندر کا خوبصورت نظارہ آنکھوں کو خیرہ کرگیا۔ پہاڑی کے ایک وسیع ٹکڑے کو ہموار کرکے، جنگلہ لگا کر سمندر کا نظارہ کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بلاشبہ یہ بہت خوبصورت منظر تھا، مگر ہم اپنے ہوٹل کی بالکونی سے ایسے کئی مناظر دیکھ چکے تھے، لہٰذا یہاں ’’ہائیڈرالک ٹاور‘‘ کو قریب سے دیکھنے کے بعد اور ٹھنڈی ساحلی ہوائوں اور سنہری دھوپ کے ماحول میں ترکی کی (میرے خیال میں) بدمزا آئس کریم کے تقسیم کار ترک دکاندار کے مخصوص اور معروف شرارتی نخروں اور ادائوں کا مزا لینے کے بعد کعبہ و کلیسا کی کشش اور کشاکش سے خود کو بچاتے واپس سایہ فصیل یعنی ’’باب فتح‘‘ ہارڈن گیٹ پر واپس آکر ساتھیوں کا انتظار کرنے لگے اور جدید ترکی کے مناظر اور ترکوں کے مشاغل دیکھنے لگے۔
’’کعبہ کی کشش“ سے مُراد وہ معصوم ترک دکاندار تھے جو جوس اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کررہے تھے۔ اور ’’کلیسا‘‘ کی کشش سے مُراد وہ شراب خانے تھے جو بلوریں جاموں اور رنگ برنگی قسم قسم کی ’’امہات الخبائث‘‘ یعنی شرابوں سے بھرے اور رِندوں کے مخصوص انداز و کیفیات کا بھرپور سامان کیے بیٹھے تھے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ایک تو ہمارا ایمان پکا تھا، دوسرے محافظ ِایمان زوجہ محترمہ ساتھ تھیں، تیسرے ہم بھی اس ’’خبیث‘‘ کے قطعاً ناآشنا تھے، اور چوتھے یہ کہ جنت کی ’’شراب طہور‘‘ کے متمنی اور دعاگو، جس میں بے ہودگی، نہ خرابیِ عقل و فکر، نہ گناہ کی طرف پیش قدمی اور نہ ہی امراضِ خبیثہ کا امکان۔ اور ایسی ’’شراب طہور‘‘ کے تمنائی جس پر مُشک و عنبر کی مہریں لگی ہوں۔ پاکیزہ، قیمتی اور مرغوب و طاہر… اور ہم اُس کی طلب، جستجو اور تمنا کے راستوں کے مسافر۔
قونیہ سے سوگوت کی جانب:
سوگوت‘ سوغوط دونوں طرح اس کا نام لکھا جاتا ہے۔ ترکی میں Sogut ترکی طرزِ تحریر کئی اعتبار سے منفرد بھی ہے اور مشکل بھی۔ بظاہر انگریزی یا فرانسیسی طرز تحریرمگر اس میں اوپر‘ نیچے نقطوں اور مدّ ( ٓ) کے ذریعے مختلف مفاہیم پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہم تو کچھ نہ سمجھ سکے‘ البتہ یہ ضرور جان لیا کہ کبھی ترکی رسم الخط عربی و فارسی کے اندازِ تحریر کا تابع تھا۔ تقریباً سو سال پہلے کمال اتاترک کے انقلاِ قومیت نے اس خط کو ایک نئی شناخت دی اور آفرین ہے ترک قوم پر کہ ان کا سارا تمدنی‘ معاشرتی اور قومی کاروبارِ حیات دیگر زبانوں سے بے اعتناعی اور ترکی زبان کے ہمہ جہت اختیار و نفاذ کے گرد گھومتا ہے۔ ان کی ہر پراڈکٹ پر خواہ وہ بسکت ہو‘ چاکلیٹ کا ڈبہ یا جوس کا پیکت۔ شاہراہوں کے علامتی نشان ہوں یا دکانوں کے سائن بورڈز ہر جگہ ترکی غالب بلکہ حاوی ہے۔ کہیں کہیں بہت دبے دبے انداز میں انگریزی کے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے استنبول ائرپورٹ کے داخلی و خارجی راستوں پر اِکا دکا انگریزی الفاظ‘ ترکش ائر لائن‘ ہوٹلز یا مینو کارڈز۔ ترکی ہی ترکی۔ انہیں ’’بے زبانی‘‘ کا کچھ ذکر آگے چل کر آئے گا۔
سوگوت کی واحد پہچان:
سوگوت ترکی کے ’’مرمرہ‘‘ ریجن کے صوبہ ’’بلیجک‘‘ کا ایک ضلع ہے جو شمال مغرب میں واقع ہے۔ آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم‘ مگر اہمیت کے اعتبار سے سارے ترکی کے مقامات پر فائق۔ یہاں سلطنتِ عثمانیہ کے بانیٔ عثمان اوّل کے والد ارطغرل غازی کا مدن ہے۔ اسی شہر کو عثمان سلطنت کا پہلا دارالخلافہ قرار دیا جاتا ہے۔ ارطغرل غازی کو ترکی کا بڑا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور وہ زعیمِ ملت جس نے رومی اقتدار و تسلط کے بعد ترکی تاریخ اور تہذیب کو نئی شناخت دی اور تاریخ کا پہیہ پلٹ کر عثمانیوں کے زیر اثر کر دکھایا‘ انقلاب کے اسی سفر میں ترکی قوم اسلام سے مربوط ہوئی کہ مرکزِ خلافت اسلامی سے اس کے سیاسی‘ ثقافتی‘ تمدنی‘ تہذیبی اور فکری روابط مستحکم ہوئے اور بالآخر خلافتِ عثمانیہ کی صورت امت کی وحدت و سرپرستی کا نشان بنی۔
(جاری ہے)
ترک قوم کے ہیرو۔ ارطغرل غازی کا مزار:
ارطغرل غازیؒ کا مزر ایک وسیع احاطے میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے دروازے زائرین کے لیے بند ہیں۔ ایک کھڑکی سے انر کے پُر جلال و جمال مناظر دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس مزار کے اندر حسبِ روایت ایک خوب صورت مرقد گہرے سبز رنگ کے سنہری کڑھائی سے سجے ہوئے کپڑے سے ڈکھی ہوئی ہے جس کے اطراف میں ترکی کا قومی اور کاٹی قبیلے کا روایتی جھنڈا دیگر چھ پرچموں کے ساتھ موجود ہے اور قبر کے پہلو میں گیارہ ڈبیوں میں محفوظ مگر کھلی ہوئی اور دکھائی دیتی ان گیارہ علاقوں کی مٹی ہے جو ارطغرل نے فتح کیے۔ قبر کے سرہانے ایک بڑی کلاہ سفید رنگ کی صاحبِ قبر کی عظمت کی دلیل کے طور پر موجود ہے۔ بہ قول نامور محقق پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللہ دائودی‘ جنہوں نے ترکی کی یونیورسٹی سے علمِ حدیث میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ ترکی میں صاحبِ مزار کی علمی وجاہت اور شخصی ثقاہت ووقعت کے مطابق دستار قبر کے سرہانے رکھی جاتی ہے۔
اس احاطے میں ارطغرل اور سلیمان اوّل کے امرائے مملکت‘ اعزا و اقربا‘ شہزادوں‘ بیٹوں اور خواتین کی قبریں بھی موجود ہیں۔ ارطغرل غازی کے مزار کے بالکل باہر اس کی ملکہ حلیمہ سلطان اور والدہ کی قبریں بھی موجود ہیں اور یہ سب اس مخصوص انداز اور طرزِ تعمیر کی حامل ہیں جن کا ذکر قونیہ کے مزارات کی تفصیل کے موقع پر ہو چکا۔ یہاں حلیمہ خاتون کے نام سے منسوب ایک مسجد بھی موجود ہے جہاں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے البتہ مسجد کے واش روم استعمال کرنے کے دو لیرا ادا کرنا پڑتے ہیں‘ ایسا اس سفر میں بورما کی قدیم تاریخی نیلی مسجد کے غسل خانوں میں بھی دکھائی دیا۔ وہاں تو صاف لگتا تھا کہ شاید حکام کی نظروں سے بچتے ہوئے ایسا کیا گیا تھا۔ ہم پاکستانی یہاں متعلقہ شخص کو چکر دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وسیع احاطے میں ارطغرل کی روحانی اور فکری رہنما شیخ ایوب علی (Eoeb Ali) کا مزار بھی تھا۔
سوگوت کی ایک اور خاص بات قریب ہی KAI قبیلہ کا ایک مکمل سیٹ موجود تھا جہاں ارطغرل ڈراما کے مکمل کاسٹیومز‘ تلواریں‘ خنجر‘ ٹوپیاں‘ انگوٹھیاں اور دیگر جنگی ساز و سامان برائے استعمال و فروخت موجود تھا۔ ایک شخص مکمل شاہی لباس پہنے دعوتِ نظارہ دیتا پھر رہا تھا اور بلند آواز میں ارطغرل ڈرامے کا علامتی میوزک دل پر دستک دے رہا تھا۔ ہمارے شرکائے سفر خواتین اور نوجوانوں بلکہ بزرگوں نے بھی اپنے اپنے جثے کے مطابق لباس پہن کر‘ تلواریں سجا کر خود کو ارطغرل اور حلیمہ سلمان کے روپ میں بدلا اور تاریخ کا نہ سہی کیمرے کے صفحوں پر خود کو امر کر لیا۔ بیگم صاحبہ نے سیٹ پر کئی تصویریں بنوائیں اور میں نے اُدھار کی ایک کائی ٹوپی میں خود کو ارطغرل سے قریب کیا۔ جناب اقرارالحسن نے اپنے بیٹے ’’پہلاج‘‘ کے لیے اس کے سائز کا کائی لباس اور تلوار خریدے اور دیگر لوگوں نے بھی۔
سوگوت میں ایک لمبا وقفہ گزارنے کے بعد ہم قونیہ سے بورصا کے درمیان 520 کلو میٹر اور سات گھنٹے کے سفر کے دوسرے مرحلے کے لیے روانہ ہوئے۔ ’’بورصا‘‘ جہاں رات ہم نی قیام کرنا تھا اور اگلی صبح شہر کی دو بڑی مسجد ’’کلاک ٹاور‘ دور سمندر کے کنارے استنبول کے منظر سے لطف اندوز ہونا تھا۔
سوگوت سے نکلنے سے پہلے یہ تازہ ترین خبر بھی سماعت فرمائیں کہ ہم ’’سوگوت‘‘ میں نومبر 2020ء میں موجود تھے اور اُن دنوں اس مزار کے قرب و جوار میں ننانوے ٹن سونا مدفون تھا جس کی مالیت چھ ارب ڈالر سے زائد ہے اور یہ ہامرے وہاں سے واپس آنے کے بعد دریافت ہوا اور حکومتِ ترکی نے دسمبر 2020 میں اس کی دریافت کا سرکاری اعلان کیا۔ ہمیں امید واثق ہے کہ یہ ہماری ’’برکتوں‘‘ کا نتیجہ تھا‘ ترک قوم کو اس کی معیشت کے استحکام کی یہ منزل مبارک ہو۔ بزرگوں کا محض روحانی فیض ہی نہیں‘ مادّی فیوض و برکات کی تلاش کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں تو ’’نذرانوں‘‘ کے ڈبوں سے ماہانہ کروڑوں روپے کے نقد مادّی فیوض و برکاتِ بزرگان سے کون ناواقف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ بھاری رقوم کسی قومی و ملکی مفاد میں استعمال ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اگر انہیں درست استعمال کر لیا جائے تو قوم معاشی الجھنوں اور بیرونی قرضوں سے با آسانی نجات پالے۔
نمازِ جمعہ:
سوگوت اور بورصا کی سفر کے دوران ایک خوب صورت قصبے کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے رکے۔ مسجد مناسب حد تک بڑی اور ترک مساجد کے مخصوص طرزِ تعمیر کی حامل تھی۔ ترکی کی تقریباً تمام قدیم و جدید مساجد ایک ہی انداز کی ہیں۔ گولائی مائل پہلودار ایک گنبد اور پتلے لمبے دو مینار اور ان پر سبز رنگ جب کہ اس کی نوکیلی چوٹی گولڈن یا سلور۔ جدید مساجد کے رنگ تازہ و چمک دار اور قدیم مساجد کے مدہم رنگ۔ جس مسجد کے میناروںکے رنگ جس قدر مدہم‘ اسی قدر وہ قدیم۔ جس دیہی مسجد میں ہم نے نماز پڑھی وہ زمین سے خاصی بلندی پر تھی جب کہ نیچے ایک وسیع قطعۂ ارضی مسجد کے ساتھ منسلک تھا مگر نہ وہاں فرش‘ نہ گھاس۔ کچھ لوگ وہاں بھی جائے نماز بچھائے بیٹھے تھے۔ شاید کورونا سے بچتے ہوئے۔ مسجد کے نچلے حصے میں خواتین کی جائے نماز تھی‘ مگر شائد وہاں سوائے ہمارے قافلے کی چند خواتین کے‘ قصبے کی کوئی خاتون نہیں تھی۔ پوری مسجد میں نمازیوں کی اندازاً تعداس پچاس کے لگ بھگ ہوگی۔ مسجد میں اور تقریباً ہر مسجد میں ترکی کا سرخ پرچم ضرور آویزاں تھا۔ پاکستان میں محراب میں خطبہ کا منبر رکھا جارتا ہے جب کہ ترکی کی ہر مسجد میں دائیں جانب دس بارہ قدم اوپر چڑھ کر منبر پر بنی ہوئی چھتری تلے امام صاحب نمازیوں کی طرف رُخ کرکے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات سے لگتا ہے کہ یہ سرکاری خطبہ ہے جو پڑھا جارہا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ تمام ائمہ و خطباء اور مؤذنین حکومت کے ملازم ہیں اور کسی فرقے‘ مسلک کا نہ کوئی قبضہ ہے نہ خصوصیو امتیازی پہچان اور نہ مساجد میں اس کا اظہار۔
امام صاحب نے لکڑی کے بنے ہوئے ایک کم اونچائی والے چوبی پٹڑے پر‘ جو محراب میں رکھا ہوا تھا اور اس پر جائے نماز موجود تھی‘ کھڑے ہو کر یعنی تمام نمازیوں اور عمومی صفوں سے اونچا ہو کر جماعت کروائی اور جامعت سے پہلے تمام نمازیوں کو ماسک لگانے پر مجبور کیا اور اس وقت تک نماز نہ شروع کی جب تک سب لوگوں نے ماسک نہ پہن لیے۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہوئی کہ عربی خطبہ کے دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ اور فرشتوں کے درود بھیجنے اور اہل ایمان کو اس کے حکم کے کی آیت کے بعد مسجد میں موجود تمام نمازیوں نے باآواز بلند درود شریف پڑھا جب کہ ہمارے یہاں برصغیر اور پاکستان میں دورانخطب خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اگر درود پڑھا بھی جاتا ہے تو دل میں۔ نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں بیٹھے رہنا بھی ترکوں کا معمول ہے۔
ترکی کے سارے سفر کے دوران ہمیں گداگر کہیں نظر نہ آئے سوائے اس مسجد کے باہر۔ یہاں ایک بچہ رومال پھیلائے پاکستانی بھکاریوں کی طرح نمازیوں سے بھیک اکٹھا کرنے میں مصروف تھا۔ کسی پاکستانی ’’حاتم طائی‘‘ نے پاکستانی پچاس روپے کے نوٹ کے ذریعے احسانِ عظیم کر رکھا تھا۔ آگے چلے تو ایک بوڑھی خاتون فارسی ملی ترکی میں طالبِ خیرات ہوئی۔ ہم نے اسے حسب توفیق ’’لیرا‘‘ پیش کرکے دعائیں سمیٹیں جس مین اس بڑھیا نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اچھے اور ممنونیت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کا یہ ردعمل یقینا پاکستان سے محبت کا عکاس بھی ہوگا مگر ہمین اس میں ’’لیرا‘‘ کے بڑے اور خاتون کے خلافِ توقع نوٹ کا دخل محسوس ہوا۔ بورصا کی گرینڈ مسجد کے باہر ایک بچے نے جوتے پالش کروانے پر اصرار کیا‘ ہم نے اسے چند لیرا پیش کیے تو اس نے بڑی خودداری سے انکار کر دیا۔
ترکی مساجد میں مخصوص جگہ:
ترکی کی بڑی مساجد گرینڈ مسجد بورصا اور ایاصوفیہ۔ استنبول میں ایک خاص بات یہ نظر آئی کہ اس میں کم و بیش چاپس افراد کے لیے مرکزی محراب کے سامنے دو ایک صفیں چھوڑ کر ایک ڈیڑھ فٹ لکڑی کی جالی کے ذریعے جگہ مخصوص کی گئی تھی۔ حتماً یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ جگہ اعیانِ سلطنت کے لیے ہے یا قدیم حکمرانوں کے لیے یا پھر امرا و روسائے قوم کے لیے۔
(جاری ہے)
باغات کا شہر بورصا:
عثمانی خلفاء‘ مجاہدوں اور غازیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم 6 نومبر کی شب بورصا پہنچے اور گولڈ میجسٹی ہوٹل میں ٹھہرے۔ ترکی کا چوتھا بڑا شہر اور شمال مغربی صوبے ’’بورصا‘‘ کا دارالخلافہ ’’اولوداغ‘‘ نامی پہاڑ کے درمیان میں ایک انتہائی برفانی مقام جہاں کی تفریحی گاہیں‘ کیبل کار‘ بوٹافیکلی گارڈن اور کئی زرخیز میدان سیاحوں کی کشش کا باعث ہیں۔ بارہ‘ تیرہ لاکھ آبادی کے اس شہر کو YESIL BORSA یعنی ’’سبز بورسہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کا ایک چھوٹا سا کلاک ٹاور بھی مشہور اور قابل دید سمجھا جاتا ہے۔ اگر ترک فیصل آباد کا گھنٹہ گھر اور اس کے اردگرد آٹھ بازاروں کی چہل پہل دیکھ لیں تو اس کلاک ٹاور کو ممکن ہے کوئی اور نام دے دیں۔ یہ کلاک ٹاور فیصل آباد کے کلاک ٹاور کے سیاسی استعارے ’’گھنٹہ گھر‘‘ کا مصداق ہرگز نہیں۔ یہ شہر جہاں اپنی شدید برف باری کے حوالے سے معروف ہے وہیں اس کی برفانی تفریحی گاہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ شہر دنیا کے مختلف ممالک کے بیس شہرون کا ’’جڑواں‘‘ قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک پاکستان کا شہر ’’ملتان‘‘ بھی ہے۔ نہجانے ان دونوں میں کیا مماثلت ہے جس کی بنا پر اسے ’’جڑواں‘‘قرار دیا گیا۔ بورصا میں برف ختم نہیں ہوتی اور ملتان میں گرمیوں میں پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے برف ملتی نہیں۔ پھر پڑھتا معتدل آب و ہوا‘ سرسبز و پُر بہار ’’بورصا‘‘ کہاں اور ملتان کے گرد گور کہاں۔ یہ شہر 1326ء میں سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت بھی رہا۔
بورصا: عثمان غازی‘ الجزائری اور امام خمینی:
بورصا شہر کو سلطنت عثمانیہ غازی نے اپنی زندگی میں فتح کرنے کا خواب دکھا‘ مگر بوجوہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا اس کے بیٹے ’’اورحان غازی‘‘ نے اپنے باپ کے خواب کو تعبیر آشنا بنایا اس کی تاریخی اہمیت میں اضافہ الجزائر کے حریت پسند رہنما عبدالقادر الجزائری کے اس شہر میں 1852 تا 1855 تین سالہ قیام نے کیا اور اسے مزید معتبر و وقیع بنایا۔ عصرِ حاضر کے عظیم اسلامی ایرانی انقلاب کے سرخیل امام خمینی کے قیام نے جنہوں نے اپنی پہلی جلا وطنی کے دور میں 1963 میں ’’بورصا‘‘ کو اپنے قیام کے لیے منتخب کیا۔ اگرچہ بورصا میں ان دونوں حریت پسند راہنمائوں کی آمد اور قیام کا کوئی نشان نہ ملا سوائے تاریخی صفحات کے۔
بورصا شہر کا باعثِ دید:
’’بورصا‘‘ شہر میں ہم نے ایک تو ’’کلاک ٹاور‘‘ دیکھا‘ دوسرا ترکی کا سب سے بڑا سلک بازار Kzakhan اور یہ دونوں سرِراہ دیکھنے کو ملے جب ہم ’’بورصا‘‘ میں اپنی اصل منزل ’’عثمان غازی‘‘ اور اس کے بیٹے ’’اورحان غازی‘‘ کے مزارات کی زیارت اور بلندیٔ درجات کی دعا اور ان کی جرأت‘ بہادری اور اسلام دوستی کو سلام کرنے پہنچے۔ پاکستان سے ترکی کے طویل سفر کا یہی مقصود و مدعا تھا ہمارا۔
جرأتوں کے امین عثمان و روحانی غازی:
عثمان غازی کے بانی عثمان غازی اور ان کے بیٹے اورحان غازی کی پہلو بہ پہلو مگر الگ الگ قبور ’’بورصا‘‘ کی اصل یادگار اور پہچان ہیں۔ دنیا بھر کے سیاح بڑی عقیدت‘ احترام اور اشتیاق سے ایک خوب صورت اور وسیع باغ اور شہر کے مرکزی مقام پر موجود ان زعمائے امت کو سلام پیش کرتے اور ان کی جرأت‘ ہمت اور شجاعت کی داستانوں سے آگاہ ہوتے اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چند قبریں اور بھی موجود ہیں۔ یہاں باہر دو پہرے دار مخصوص کائی لباس میں موجود ہمہ وقت چوکس و ہوشیار کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں بھی اپنے نظام الاوقات کے مطابق مخصوص فوجی انداز میں گارڈ کی تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ایک خاص بات یہ کہ مزار میں ایک مخصوص چبوترے پر چوبیس گھنٹے تلاوت قرآنِ مجید کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں کی جانے والی تلاوت ارطغرل غازی کے مزر بھی گونجتی سنائی دی۔ یہ منظر کچھ اور مزاراتِ مقدسہ میں بھی دکھائی دیا۔
بورصا کی سمجد آیا صوفیہ:
بورصا میں ایک گرینڈ مسجد‘ جسے ترکی میں ’’اولو جامع‘‘ (ULU CAMI) کہتے ہیں۔ اولین عثمانی طرز کی شاہ کار مسجد طویل عرصے تک مکہ کی ’’المسجد الحرام‘‘ کے بعد دنیا کی بڑی مسجد شمار کی جاتی رہی۔ ایسے سلطان بایذیر بلورم نے 1399ء میں جنگ نکلوپولیس میں فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا۔ بلاشبہ ایک خوب صورت‘ مضبوط‘ مخصوص طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ اسے بورصا کی ’’آیا صوفیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری اور بڑی پہچان اور وہ شہرت اپنے وقت کے عظیم کیلی گرافرز کے 192 شہرہ آفاق اور بے مثل و منفرد خطاطی کے شہ پارے ہیں جو اس مسجد کی دیواروں پر جا بجا نصب ہیں جن میں الاسماء الحسنی اور اسمائے رسولؐ تقریباً سب ہی مختلف انداز‘ خط اور سائز میں لکھے گئے ہیں۔ روایت ہے کہ اس مسجد میںایک ایسا متبرک مقام بھی ہے جہاں حصرت خضر علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی۔ ہم نے بھیاس جگہ دو نوافل ادا کیے اور بارگاہِ ایزدی مین دعائوں کا شرف حاصل کیا۔
کعبہ کا دروازہ اور حجرِاسود کا ٹکڑا:
یہ بھی روایت ہے کہ اس مسجد میں کعبہ مشرفہ کا پانچ سو سالہ قدیم دروازہ بھی موجود ہے جو سلیم اوّل نے تحفتاً پیش کیا اور کعبہ مقدسہ میں نصب حجرِاسود کا ایک ٹکڑا بھی موجود ہے جو کعبہ سے چوری ہونے والے حجراسود کا ایک ٹکڑا ہے۔ افسوس کہ ہم ان دونوں تبرکات کی زیارت نہ کرسکے۔ اس مسجد کے بیس گنبد اور دو طویل مینار بھی اس کی پہچان ہین۔ ہمیں اپنے سفرِ ترکی مں دیکھی جانے والی مساجد مین سے یہ واحد مسجد نظر آئی جس میں ’’چندہ بکس‘‘ بھی موجود تھا۔ اپنا حصہ ڈالنے کی سعادت بھی ہمارا مقدر ٹھہری۔
گرین مسجد:
ایک اور خوب صورت اور بڑی مسجد شہر کی بلند ترین پہاڑی پر واقع ہے‘ جسے سلطان مہمت نے 1419ء میں تعمیر کیا۔ یہ مسجد سبز رنگ کی دل کش ٹائلز اور خوب صورت کیلی گرافی سے مزین ہے۔ تقریباً ہر بری مسجد کے باہر وسیع احاطے میں سبزہ‘ پھول اور درخت نظر آئے اور باہر شاپنگ مالز۔ یہاں سرکاری امامو مؤذن سے مختصر ملاقات ہوئی۔ عربی کے چند جملوں میں مختصر تبادلۂ خیال ہی ہو سکا‘ مؤذن صاحب کورونا کے خطرات کے کچھ زیادہ ہی شکار تھے اور محتاط بھی۔ اس مسجد کے باہر بہت اونچی جگہ پر ایک اور خوب صورت‘ پُر شکوہ مقبرہ تھا‘ جہاں کسی بڑے عالم دین اور دیگر افراد کی قبریں موجود تھیں۔ ہم ان کی شناخت نہ جان سکے کہ سیڑھیاں چڑھ کر بے حال ہو چکے تھے‘ بہرحال دعا کی اور تصویر بنائی۔
آئی برڈ ویو:
ایک اور پہاڑی پر ایک خوب صورت منظر بھی ہمارا حاصلِ سفر تھا‘ ایک وسیع‘ خوب صورت احاطہ جو چند سال پہلے 2010ء میں تعمیر کیا گیا‘ جہاں سے استنبول کے مشاقانِ دید کو ’’بورصا‘‘ سے استنبول کا طائرانہ نظارہ کرایا جاتا ہے۔ جنگلے کے ساتھ کھڑے ہو کر نظر جھکائیں تو بورصا کا خوب صورت شہر اور نظر دوڑائیں تو دور سمندر پار استنبول کے دل فریب مناظر۔ بلاشبہ ہمارا اشتیاق بھی دو چند ہوگیا اور استنبول کی جانب کھنچنے لگے۔
استنبول کے مسافر:
ایک آنکھ سے ’’بورصا‘‘ شہر اور دوسری سے ’’استنبول‘‘ شہر دیکھنے کے بعد استنبول کا اشتیاق فزوں تر تھا۔ مگر ابھی استنبول کے وصل میں دو منزلیں حائل تھیں ایک ’’منیرہ‘‘ اور دوسرا 600 سال پرانا گائوں Cumalikiziki۔
’’منیرہ‘‘ ایک جدید شاپنگ مال ہے جہاں سے ہمیں ’’ٹرکش ڈیلائٹس‘‘ اور دیگر اشیا کی خریداری کی ترغیب دی گئی تھی‘ یہاں مختلف اقسام کی روایتی اور غیر روایتی مٹھائیاں جو ترکی کی مشہور و مقبول سوغات ہیں‘ ہمیں دو سوئٹس زیادہ پسند آئیں ایک مختلف ذائقوں‘ رنگت ار فلیورز کی جیلی نما مٹھائی اور دوسری مختلف پھلوں کو خشک کرکے محفوظ کی گئی۔ عربین ڈیلائٹس جنہیں ترکی ذائقہ اور انداز دیا گیا تھا‘ بھی موجود تھیں اور بے شمار اقسام۔ یہ مٹھائیاں خاصی مہنگی تھیں۔ ان کے علاوہ زعفران کی اقسام‘مختلف جڑی بوٹیاں‘ مختلف امراض کے لیے۔ کافی کے ثابت دانے اور تازہ پسنی ہوئی کافی‘ کاسمیٹکس کا سامان‘ سوونیئرز‘ خوشبوئیات وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ پیکنگ پرکشش اور محفوظ مگر زون میں شامل۔ ایک خاص چیز وہاںمختلف قسم کے ’’صابن‘‘ تھے۔ ترکی صابن خاصے اچھی کوالٹی اور اقسام کے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ پیک شدہ اور پیکنگ کے بغیر۔ ہمیں ان کے فضائل کا علم نہ تھا اور نہ ہی ضرورت البتہ بس میں بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ گائیڈ مسٹر والکن نے ’’ڈونکی سوپ‘‘ کی خاصی مقدار خریدی جو آئلی اسکن کے لیے مفید ہے۔ پاکستانیوں نے ڈونکی سوپ جو گدھی کے دودھ سے بنایا جاتا ہے‘ کے حوالے سے مسٹر والکن کو خوب زِچ کیا۔
’’منیرہ‘‘ نے ہمارے تیس ہزار روپے خرچ کروا دیے۔ جو ہم نے لیرا اور ڈالرز میں ادا کیے۔ یورو کی کرنسی ڈالر سے زیادہ مقبول ہے اور سیاحوںکو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آتے ہوئے ’’یورو‘‘ ساتھ لائیں کہ اس کا اچھا ریٹ ’’لیرا‘‘ میں مل جاتا ہے اور واپس جاتے ہوئے لیرے ساتھ لائیں‘ جو پاکستان میں منافع بخش قیمت میں فروخت ہوسکیں گے۔ ’’منیرہ‘‘ والوں سے ہم ’’ترکی نمی دانم‘‘ اور وہ انگریزی سے الرجک ہونے کے باعث کوئی بارگینگ نہ کرسکے اور نہ مانگی قیمت ادا کرنے پر مجبور رہے۔ ’’ظالموں‘‘ نے رسید بھی نہ تھی کہ استنبول میں موازانہ کرکے اپنے ’’لٹنے‘‘ کا جائزہ لے سکتے۔اچھا ہی ہوا‘ ہم لٹے تو سہی‘ مگر اس کے ’’بوجھ‘‘ اور ’’درد‘‘ سے پاک ہی رہے۔
600 سال پرانا گائوں:
راستے کی دوسری ’’منزل‘‘ چودھویں صدی عیسوی میں قائم کیا جانے والا چھ سو سال پرانا گائوں تھا۔ برسرِ شارہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم اور گلیاں‘ مکانات اور دیگر اماکن اپنی اصل حالت میں موجود عالمی ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج (آثارِ قدیمہ) میں شامل ہے جس کے گھروں میں تیار ہونے والا پاستا‘ خشک مٹھائیاں اور تازہ پھل جو مقامی باغات اور فارمز سے حاصل کیے جاتے ہیں‘ بہت مقبول ہیں۔
صاف‘ سرسبز و شاداب‘ پھل دار درختوں سے بھرا ہوا یہ گائوں جدت و قدامت کا حسین امتزاج تھا۔ ہم سے اونچائی پر تو نہ چڑھا گیا‘ مگر جو دیکھا اور سنا اس گائوں کو خاصے کی چیز سمجھا۔ گائوں کے شروع میں قدیم انداز کا بازار‘ چھوٹی کھوکھے نما مگر ترتیب سے بنائی گئی دکانیں اور ان میں قدیم روایات و ثقافت کی عکاس چیزیں‘ سوونیئر اور یادگاری کے لیے برائے فروخت موجود تھیں۔ ترکی کے قدیم روایتی لباس کھلی گھیرے والی شلواریں اور رنگ برنگی روایتی کھلی قمیضمیں اور سروں پر مخصوص انداز سے اسکارف لپیٹے بوڑھی خوارتین ان دکانوں پر بہت معمولی قیمت پر یہ چیزیں بیچتی نظر آئیں۔ گائوں میں جدید دکانیں بھی نظر آئیں۔ آنے والے گاڑیوں پر سوار ہو کر آتے‘ گاڑی کا چکر لگاتے اور قدامت کے انداز میں جدت کو تلاش کرتے‘ مناظر و ماحول سے لطف اٹھاتے۔ راستے میں مختلف مقامی پھلوں سے پانی ملے جوس بیچنے والے بھی بجابجا نظر آئے۔ اونچائی کی بیزاری اور رکاوٹ نیہمیں نہ کچھ خریدنے دیا نہ جوس سے لطف اٹھانے دیا۔
جانبِ منزل:
بورصا کے اندر اور باہر خاصا وقت گزر گیا‘ منتظمین نے اعلان کر رکھا تھا کہ ہم ’’بورصا‘‘ سے اپنی بسوں سمیت بحری جہاز کے ذریعے شام ڈھلے استنبول کا سفر کریں گے۔ یقینا ایک یادگار اور خوش گوار انوکھا سفر ہوتا۔ مگر ہم بورصا اور ’’منیرہ‘‘ کے ایسے اسیر ہوئے کہ استنبول کی جانب زمین راستے کا انتخاب کرنا پڑا جویقینا طویل بھی تھا اور قدرے بور بھی۔
رات کے اندھیروں میں استنبول پہنچے‘ بس اس کی روشنیوں میں اس کی جدت اور قدامت کے ساتھ حسنِ تمام کی جھلک ہی دیکھ سکے۔ رات کا کھانا مقامی ریستوران میں کھایا اور ہوٹل Clarion Golden Norn میں جا ٹھہرے‘ جو اجک اونچی پہاڑی پر تھا‘ مگر اس کے فضائل و اردگرد کے سحر سے اگلی صبح باخبر ہوئے۔
(جار ی ہے)