بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟

1333

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچے ہی بڑے ہوکر ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ جس طرح اگر کسی عمارت کی بنیاد مضبوط اور پائیدار ہو تو وہ ہر قسم کے تغیرات کو برداشت کرنے کے بعد اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے، بالکل اسی طرح اگر بچوں کی تربیت بھی بہترین خطوط پر کی جائے تو وہ مضبوط کردار کے مالک بنیں گے۔ پھر زمانے کے طاغوتی تغیرات ان کے اخلاق و ایمان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا دل و دماغ بالکل سادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ماہرین نے تربیت کی بہترین عمر بچپن کو ہی قرار دیا ہے۔ بچوں کی تربیت کی ذمے دار والدین، معلم اور معاشرہ ہوتے ہیں۔
والدین کا کردار بچوں کی تربیت میں سب سے پہلا، بنیادی اور اہم ترین ہوتا ہے۔ والدین ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں۔ بزرگوں کا فرمانا ہے کہ بچہ سات سال تک ماں باپ کا غلام ہوتا ہے۔ وہ وہی سیکھتا ہے جو اس کے والدین اسے سکھانا چاہتے ہیں۔ سات سے چودہ سال کی عمر میں ان کا مشیر بن جاتا ہے، یعنی وہ ان سے سیکھتا بھی ہے اور وقتاً فوقتاً انہیں اپنی رائے بھی دیتا ہے۔ پھر چودہ سال کی عمر کے بعد تربیت کا ثمر سامنے آتا ہے، کہ اچھی تربیت ہوئی ہے یا بری؟ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ والدین کس ڈھنگ پر بچوں کی تربیت کریں؟ تو اس کا جواب ہمیں اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے بچوں کو تین چیزیں سکھاؤ: اللہ تعالیٰ سے محبت، مجھ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت، قرآن سے محبت۔‘‘
بچوں کے دلوں میں ان چیزوں کی محبت ڈالنے کا سب سے بہترین وقت ان کا بچپن ہی ہے۔ جب ان کے دلوں میں اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی محبت ہوگی تو وہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی لازمی کوشش بھی کریں گے۔ یہی محبت انہیں دن بدن سنوارے گی اور وہ دنیا و آخرت میں کامیابیاں و کامرانیاں پائیں گے۔ کئی بچوں کو والدین سے سوالات کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ان کی یہ عادت فضول گوئی سمجھ کر انہیں چپ نہ کروائیں بلکہ ممکنہ تسلی بخش جواب دیں۔ اگر آپ اس وقت بہت مصروف ہیں تو وقتی طور پر معذرت کرلیں لیکن بعد میں ان کی طرف ضرور رجوع کریں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ سوالات کرنے والے بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا بچہ پڑھائی میں کند ذہن ہے تو پریشان نہ ہوں۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مختلف صلاحیتیں تقسیم کر رکھی ہیں۔ اگر کسی کو لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو دوسرے کو بولنے کی دی ہوگی۔ اگر ایک بچہ پڑھنے میں کند ذہن ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ پریکٹیکل میں تیز ہو۔ والدین کو ماہرِ نفسیات کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہوگی۔ بچوں کی نفسیات ورجحانات کو سمجھنا ہوگا پھر اس کے مطابق اُن سے کام لینا ہوگا۔ کند ذہن بچوں کی صلاحیتیں بھی وقت کے ساتھ کھل سکتی ہیں۔ اگر وہ ایک شعبۂ زندگی میں کامیاب نہیں ہوئے تو دوسرے میں کامیاب ترین ہوسکتے ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی نماز کا پابند بنادیں۔ رشتے داروں سے محبت کرنا سکھائیں۔ انہیں کم عمری سے ہی تعزیت، تیمار داری، برداشت، انکسار، تواضع اور تحمل سکھائیں۔ کیونکہ آج کا سیکھا وہ کل کو آپ پر بھی آزمائیں گے۔ انہیں حلال و حرام کی تمیز سکھائیں۔ جب بچے13یا 14 سال کی عمر میں داخل ہوجائیں تو والدین انہیں سورہ احزاب، سورہ یوسف، سورہ نور کی تفسیر اچھی طرح سے سمجھا دیں، تاکہ انہیں معاشرتی قواعد کے ساتھ ساتھ اپنی عفت و پاک دامنی اور زبان کی حفاظت کرنا سمجھ میں آجائے۔
بچوں کی تربیت میں دوسرا اہم ترین کردار معلم کا ہوتا ہے۔ بچے والدین کی گود سے نکل کر معلم کے پاس جاتے ہیں۔ وہ صرف معلم کی تعلیم سے نہیں بلکہ اس کے ذاتی کردار سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ہماری اسلامی تعلیم میں معلم کو ماں یا باپ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اسے جتنا بڑا درجہ دیا گیا ہے اُس پر تربیت کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی عائد ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا احساس آہستہ آہستہ مادیت کی چکاچوند میں ماند پڑرہا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باہمی محبت و احترام کا تعلق کمزور ہورہا ہے۔ استاد باپ کا درجہ رکھتا ہے، تو جہاں ایک طرف شاگرد کو اس کا ادب و احترام، عزت و محبت کی تلقین کی گئی ہے، وہیں استاد کو بھی باپ والی شفقت و احساس رکھنے کی تاکید ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’اگر میرے شاگردوں پر مکھی بھی بیٹھ جائے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ امام شافعیؒ کی زمانۂ طالب علمی میں مالی حالت کمزور تھی۔ جب حصولِ علم کے لیے مدینہ تشریف لائے تو رہائش و طعام کا مسئلہ تھا، تو ان کے استادِ محترم امام مالکؒ نے اس سارے عرصے میں انہیں اپنا مہمان بنائے رکھا۔ جب مدینہ میں علمی سفر مکمل کرکے حصولِ علم کے لیے کوفہ تشریف لائے تو وہاں استاد امام محمدؒ نے ان کی کفالت کی۔ اگر یہ دونوں عظیم و محترم استاد امام شافعیؒ کی سرپرستی نہ کرتے تو عالمِ اسلام کو اتنا عظیم المرتبت امام، امام شافعی کیسے میسر آتا؟ اسی طرح امام یوسفؒ کے والد دھوبی تھے۔ وہ غریب تھے اور چاہتے تھے کہ امام یوسفؒ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے ان کے کام میں معاونت کریں۔ لیکن امام ابوحنیفہؒ جو اُن کے استاد تھے، انہوں نے اُن کے تمام اخراجات برداشت کیے، مالی معاونت کی تاکہ ذہین یوسفؒ صرف یک سو ہوکر علم حاصل کریں۔ اور پھر گزرتے وقت نے دکھایا کہ یہی لائق و فائق بچہ مسلمانوں کا امام بنا۔
بچوں کی تربیت میں تیسرا اہم عنصر معاشرہ ہے۔ معاشرے میں بنیادی رکن والدین اور پھر قریبی عزیزواقارب ہوتے ہیں۔ ایک بچہ تربیتی لحاظ سے صرف اپنے والدین کی ذمہ داری نہیں، بلکہ استاد، رشتے داروں، آس پڑوس، گلی محلے کے تمام لوگوں پر کسی نہ کسی صورت میں یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بچوں کی اخلاقیات میں بگاڑ تب سے زیادہ آیا ہے جب سے ہم نے دوسروں سے اپنے بچے کی تربیت کا حق چھین لیا ہے۔ یا پھر اپنے بچوں کو ہی صرف اپنا سمجھا ہے اور دوسروں کے بچوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں یہ سوچ کر کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کسی کے معاملے میں دخل اندازی کرنے کی؟ یا پھر یہ سوچ کہ میرا بچہ جو مرضی کرے، کسی کو اس سے کیا؟ یاد رکھیں جب بگاڑ کی وبا پھیلتی ہے تو یہ اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب ماحول تعفن زدہ ہوگا تو پھر ہمیں اس تعفن سے اپنے بچے کو بچانا مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ صرف اپنے گھر کی طرف نہیں بلکہ اردگرد کے بچوں پر بھی توجہ دیں۔ اپنے گلی محلے کا ماحول ویسا بنانے کی کوشش کریں جیسا ہم اپنے بچے کے لیے پسند کرتے ہیں۔ ہم کو روزِ قیامت صرف اپنے بچے کے بارے میں حساب نہیں دینا، بلکہ اردگرد کے لوگوں کی تربیت کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ بچے ہمارے اپنے ہیں یا دوسروں کے، سب ہمارا مستقبل ہیں۔ آئیے عہد کریں کہ ہم بچوں پر توجہ دے کر اپنا مستقبل روشن، مستحکم، محفوظ و مامون بنائیں گے۔

حصہ