اسلام میں نسواں کے حقوق

312

طبقہ نسواں کا شمار ہمیشہ سے ہی معاشرے کے کمزور طبقوں میں ہوتا آرہا ہے۔قبل اسلام لڑکی کی پیدائش پر باپ کے چہرے پر کلونس چھانے اور شرمندہ ہونے کی گواہی خود قرآن میں موجودہے۔ مختلف ادوار میںعورت کو ہمیشہ سے ہی کمزور سمجھ کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا،کبھی شوہر کی چتا میں زندہ جلا کر اپنے رسم و رواج کی بھینٹ چڑھایا گیااورکبھی شوہر کے ہاتھوں مار پیٹ کا شکار بنتی رہی مگر ہمارے دین اسلام نے عورت و مرد اور معاشرے کے لیے مکمل نظام مرتب کیا۔ سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس موضوع پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر جگہ عورت و مرد میں مساوات کا ذکرملتا ہے۔ آیے اسلام کی روشنی میں عورت کے رتبے کا جائزہ لیتے ہیں۔
عورت کی عزت اور ازواج کے ساتھ حسن سلوک
عورت کو ہمارے اسلام نے خاص قدرومنزلت عطا کی ہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایاکہ دنیا ساری متاع ہے مگر اس سب کی سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے۔ (مفہوم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کے ساتھ ایثار و قربانی، تعلیم و تربیت، نرمی، محبت، درگزر اور حسن سلوک کا اسوہ چھوڑا۔ انہوں نے اپنے ازواج مطہرات کے ساتھ ہمیشہ سے ہی عدل و انصاف کا سلوک رکھا۔ تمام ازواج کے پاس جانے کے لیے باریاں مقرر کی ۔آپ ؐ اپنے معاملات کے لیے ازواج سے مشاورات بھی کرتے۔اللہ کے نبیؐ نے تمام زندگی اپنی ازواج مطہرات،بیٹیوں اور خاندان کے دیگر عورتوں سے نہایت عزت اور نرمی والا سلوک روا رکھا۔
بہن کے ساتھ حسن سلوک:
ہمارے دین اسلام میں بہن کو بھائیوں کے لیے باعث عزت قرار دیا۔بہن کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا۔بہنوں کی عزت بھائیوں پر فرض اور بہنوں کو بھائیوں کی عزت کا خیال کرنے پر زور دیا۔
والدہ کے ساتھ حسن سلوک:
عورت‘ جسے قبل اسلام زندہ دفنا دیا کردیا جاتا تھا، اسلام نے ماں کے روپ میں اس عورت کے قدموں تلے کے جنت تلاش کرنے کی تاکید کی۔
دیگر مسلمان عورتوں کے ساتھ حسن سلوک:
آپؐ نے دیگر مسلم خواتین کے ساتھ مختلف مواقع پر حوصلہ افزائی، حُسن سلوک اور نرم رویہ اختیار کیا۔ عورتوں کو اپنے طرز عمل سے عزت و شرف کا حق دار بنایا۔ آپؐ نے عورتوں کو اچھے کاموں اور باتوں پر ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔
غیر مسلم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک:
آپؐ جب بھی نماز ادا کرنے مسجد جاتے توایک یہودی عورت اپنی دیوار سے آپ پر کچرا پھینکتی مگر آپؐ نے اس پر کبھی غصے کا اظہار نہ کیا۔ روزانہ وہ آپ کے ساتھ یہی سلوک کرتی۔ ایک دن آپؐ پر کچرا نہیں آیا تو آپ نے اپنے ایک صحابیؓ کو بلایا اور اس عورت کا حال دریافت کرنے کا حکم دیا۔ حال دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ عورت کی طبیعت ناساز ہے۔ اس پر آپؐ اس عورت کی خیریت اور عیادت کے لیے اس کے گھر گئے جس پر وہ عورت بہت شرمندہ ہوئی اور آپ کے اخلاق سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئی۔
بیٹی کے ساتھ حسن سلوک:
آپؐ نے اپنی بیٹیوں کو رحمت جانا اور ان سے ہمیشہ محبت اورشفقت سے پیش آتے۔آپؐ نے بیٹی کی پیدائش کو باعث فخر جانا۔آپؐ نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور بہترین پرورش، حسن سلوک اور محبت سے پیش آنے کی تاکید کی۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ اُس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘
عورت کو قدرت کی طرف سے بہت طاقت ملی ہے۔ عورت مضبوط چٹان کی مانند ہوتی ہے ۔ وہ کبھی بیٹی کا، بہن کا، بیوی کا اور کبھی ماں کا کردار ادا کرتی ہے‘ اپنی تمام صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔ عورت کو جبری گھر میں قیدی بنا کر رکھنا اس پر ظلم ہے۔ اُسے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا مکمل حق ہے۔ اس کے اندر وہ تمام صلاحتیں ہیں جو ایک مکمل اور باشعور معاشرے کی تشکیل کے لیے اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ راست پر لا ئے‘آمین!
nn

حصہ