علامہ اقبال
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کوہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن
میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
٭٭٭
حبیب جالب
درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے
یہ کس نگر کو روانہ ہوئے ہیں گھر والے
کہانیاں جو سناتے تھے عہد رفتہ کی
نشاں وہ گردش ایام نے مٹا ڈالے
میں شہر شہر پھرا ہوں اسی تمنا میں
کسی کو اپنا کہوں کوئی مجھ کو اپنا لے
صدا نہ دے کسی مہتاب کو اندھیروں میں
لگا نہ دے یہ زمانہ زبان پر تالے
کوئی کرن ہے یہاں تو کوئی کرن ہے وہاں
دل و نگاہ نے کس درجہ روگ ہیں پالے
ہمیں پہ ان کی نظر ہے ہمیں پہ ان کا کرم
یہ اور بات یہاں اور بھی ہیں دل والے
کچھ اور تجھ پہ کھلیں گی حقیقتیں جالبؔ
جو ہو سکے تو کسی کا فریب بھی کھا لے
ندا فاضلی
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
٭٭٭
انور مسعود
میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں
کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں
اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند
اور وہ پہلی سی سکت بھی نہیں پتواروں میں
آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے توبہ
جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں
آج تہذیب کے تیور بھی ہیں کاروں جیسے
دفن ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں
اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں مرے
جنس گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں
تہمتیں حضرت انساں پہ نہ دھرئیے انورؔ
دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں
٭٭٭
اجمل سراج
دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا
دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا
کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے
دستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا
دنیا کی بے رخی کا گلہ کر رہے تھے لوگ
ہم کو ترا تپاک مگر یاد آ گیا
پھر تیرگئی راہ گزر یاد آ گئی
پھر وہ چراغ راہ گزر یاد آ گیا
اجملؔ سراج ہم اسے بھول ہوئے تو ہیں
کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آ گیا
٭٭٭
اشعار
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
عبید اللہ علیم
٭٭٭
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
شکیل بدایونی
٭٭٭
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا
آرزو لکھنوی
٭٭٭
جاتی ہے دور بات نکل کر زبان سے
پھرتا نہیں وہ تیر جو نکلا کمان سے
منیرؔ شکوہ آبادی
nn
خواجہ رضی حید
کبھی مکاں میں کبھی رہ گزر میں رہتے تھے
یہ روز و شب تو ہمیشہ نظر میں رہتے تھے
ہوا کی راہ میں اڑتی تھی زندگی اپنی
مثال موج کبھی ہم بھنور میں رہتے تھے
محبتوں میں بہت دل دھڑکتا رہتا تھا
عجیب لوگ دل معتبر میں رہتے تھے
ہمیں بھی شوق تھا کچھ تتلیاں پکڑنے کا
تمام رنگ مگر چشم تر میں رہتے تھے
خزاں سے پہلے یہاں کا عجیب موسم تھا
ثمر کی طرح پرندے شجر میں رہتے تھے
گریز پائی کا شکوہ کریں تو کس سے کریں
سفر میں رہ کے بھی ہم لوگ گھر میں رہتے تھے
ہوا کے ساتھ زمانہ بدل گیا ہے رضی
ہمیں تھے وہ جو کبھی اس نظر میں رہتے تھے
٭٭٭
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
جگر مراد آبادی
٭٭٭
سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی
بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں
صبا اکبرآبادی
٭٭٭
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
بہادر شاہ ظفر
٭٭٭
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
جون ایلیا
٭٭٭
راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے
آدمی بن جاؤں گا کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد
بیخود دہلوی
٭٭٭
جانور آدمی فرشتہ خدا
آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں
الطاف حسین حالی
٭٭٭
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
صبا اکبرآبادی
٭٭٭
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
شہزاد احمد
٭٭٭
میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر
آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر
اسعد بدایونی
٭٭٭
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
آنس معین
٭٭٭
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
امیر مینائی
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
شکیل بدایونی
٭٭٭
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
شکیل بدایونی
٭٭٭
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
جون ایلیا
٭٭٭
فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
احمد فراز
٭٭٭
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
ندا فاضلی
٭٭٭
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
جاں نثاراختر
٭٭٭
جگر مراد آبادی
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں
یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں
تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں
مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں
عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی
دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں
سب جس کو اسیری کہتے ہیں وہ تو ہے امیری ہی لیکن
وہ کون سی آزادی ہے یہاں جو آپ خود اپنا دام نہیں
٭٭٭
سلیم احمد
دکھ دے یا رسوائی دے
غم کو مرے گہرائی دے
اپنے لمس کو زندہ کر
ہاتھوں کو بینائی دے
مجھ سے کوئی ایسی بات
بن بولے جو سنائی دے
جتنا آنکھ سے کم دیکھوں
اتنی دور دکھائی دے
اس شدت سے ظاہر ہو
اندھوں کو بھی سجھائی دے
افق افق گھر آنگن ہے
آنگن پار رسائی دے