نایاب ہیں ہم ، کم یاب نہ ہوں۔۔۔

318

پروفیسر شکیل فاروقی صاحب کے انتقالِ پرملال کی خبر ملی۔ ساتھ ہی پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ صاحب کے سانحہ ارتحال کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ایک دن میں ایک درس گاہ سے وابستہ دو اساتذہ دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ بلاشبہ ان اساتذہ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے سے تعزیت کرتے اور ان نابغہ روزگار ہستیوں کی خوبیاں بیان کرکے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔ شعبہ معاشیات اور جرنلزم (اُس وقت اس شعبے کا نام ماس کمیونیکیشن نہیں تھا) ایک ہی بلڈنگ میں واقع تھے۔ سو اکثر پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ صاحب کو راہداری سے گزرتے یا آڈیٹوریم میں کسی پروگرام میں سننے کا اتفاق ہوا۔ ہماری جو ساتھی جرنلزم کے شعبے سے وابستہ تھیں اُن سے ڈاکٹر صاحب کا ذکر اس انداز سے سنتے کہ رشک آتا کہ وہ شاگرد کتنے خوش نصیب ہیں جن کو استاد کی شکل میں مینٹور نصیب ہوجائے۔ وہ شعبے کے چیئرمین تھے۔ اپنے دیگر ہم منصبوں کے برعکس ان کے کمرے کے باہر اکثر طلبہ و طالبات کے جمگھٹے دیکھے۔ ان کی شہرت ایک اصول پسند اور دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے استاد کی تھی۔ بہت رنج ہوتا ہے اساتذہ کی دائیں اور بائیں بازو میں تفریق کرتے ہوئے۔ سن 1980ء کی دہائی میں سرخ اور سبز کے نعرے تعلیمی اداروں میں عروج پر تھے۔ طلبہ سیاست بھی نظریات کی بنیاد پر تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ دائیں بازو سے وابستگی کی بڑی قیمت چکانا پڑتی تھی۔ ایسے میں خود کو دائیں بازو کی شناخت سے وابستہ کرنا خود ایک مجاہدہ تھا۔ دائیں بازو سے وابستہ طلبہ و طالبات کی حمایت اچھے اچھے دل گردہ رکھنے والوں کے بس کا کام نہ تھا۔ پروفیسر متین شرافت و تہذیب کا استعارہ تھے۔
ان دونوں صاحبان کی رحلت۔۔۔۔ سوشل میڈیا پر اس کی شرق و غرب میں گونج۔۔۔ میں سوچنے لگی ایسا کیا ہوتا ہے کسی فرد میں کہ اُس کی جدائی کو زمانہ محسوس کرے؟ تب مجھے اچانک سن 1980ء کی دہائی کا شعبہ جینیات کا آڈیٹوریم بھی یاد آگیا۔ اُس دن شعبہ جینیات میں یونیورسٹی کے شعبہ جات کے مابین مقابلہ بیت بازی تھا۔ اُس وقت کراچی یونیورسٹی علمی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ میری 1980ء کی دہائی کی ڈائریوں میں کئی ہندوستانی شعراء کے کلام رقم ہیں۔ انڈیا سے شاعر آتے تو شعبہ جات کے سبزہ زاروں پر بھی مشاعرے رنگ جماتے تھے۔ یہ تعلیمی ادارے کاغذ کی ڈگریاں چھاپنے کے کارخانے نہیں ہوتے۔ یہاں انسان سازی ہوتی ہے۔۔۔ یہ ”مادرِ علمی“ ہوتے ہیں۔ کیا ادب کے بغیر بھی کوئی علم معتبر ہوسکتا ہے؟ ہاں! اُس روز مقابلہ بیت بازی کی میزبانی شکیل فاروقی صاحب کے پاس تھی۔ میرا نام پکارتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کا تعلق شعبہ اقتصادیات سے ہے۔ جب مقابلے کے ونر اعلان کیا تو پھر میرے نام کے ساتھ شعبہ اقتصادیات کہا۔ میں نے پروگرام کے اختتام پر اُن سے کہا کہ ”میرے شعبے کو اقتصادیات نہیں معاشیات کہتے ہیں“۔ بولے ”کیا فرق ہے اقتصادیات اور معاشیات میں؟“ میں نے کہا ”یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات ہی معروف ہے“۔ بولے “اچھا آئندہ خیال رکھوں گا“۔ اُس وقت وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے جنرل سیکرٹری تھے، مابعد ہم نے انھیں طلبہ یونین کا صدر دیکھا۔ دیکھنے والوں نے انھیں اسی مادرِ علمی میں انجمن اساتذہ کا صدر بھی دیکھا۔ وہ پُراعتماد شخصیت اس دور کا معتبر حوالہ ہے۔ کوئی جاننا چاہے کہ طلبہ یونین کے کیا فائدے ہیں تو پاکستان کی تاریخ میں طلبہ قائدین کا کردار دیکھے۔ زمانہ طالب علمی کی تربیت سے وہ معاشرے کے لیے کس قدر مفید انسان بنے۔ ان کی صدارت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کا آخری دور تھا۔ یونیورسٹی کی تاریخ کا سنہری دور۔۔۔ اس کے بعد یونین پر پابندی لگ گئی، جو آج تک لگی ہوئی ہے۔ اس پابندی کے نقصانات آئندہ کتنی نسلوں کو اٹھانا پڑیں گے اس کا شاید کوئی ابھی اندازہ نہیں کرسکتا۔ یونین اصل میں مستقبل کی کردار سازی کرتی تھی۔۔ لڑکپن میں جینے کا ڈھنگ سکھاتی تھی۔۔ بازو توانا کرتی تھی کہ انہی بازؤئوں کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے۔طلبہ سیاست نرسری ہوتی ہے قوم کے شعور کی۔ اصل شعور تو اُس وقت ہی پروان چڑھتا ہے۔ آج نہ صرف ملکی سیاست بلکہ ریاستی اداروں کے معتبر نام اُسی دور کی طلبہ یونین کے تیار کردہ افراد ہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیشوں نے ناپسندیدہ عناصر کو تعلیمی اداروں کی سیاست میں داخل کیا۔ ان غنڈہ عناصر کو ڈھال بناتے ہوئے طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ اگر طلبہ تنظیموں نے حدود کو پامال کیا تھا تو اصول و ضوابط بنائے جاتے، ان کو توڑنے پر سزا دی جاتی، ادارے سے اخراج کیا جاتا۔ لیکن ایک سازش کے تحت طلبہ یونین ہی کو زمیں بوس کردیا گیا۔ وہ فیکٹری جو ریاست کے ایوانوں کے لیے پراڈکٹ تیار کرتی تھی آپ کو وہ پیداوار مطلوب ہی نہ تھی۔ نہ ریاست سے فولاد سازی کی فیکٹری (اسٹیل مل) سنبھالی گئی، نہ انسان سازی کی فیکٹری۔ آج ہم سیاست کا جو حال دیکھ رہے ہیں، جن اخلاقی قدروں کی پامالی کا رونا رو رہے ہیں، اس کی کھوج لگائیں تو وہ تہذیب و شائستگی یونین کی مرہونِ منت تھی۔ طلبہ یونین ”معمارانِ ملّت“ کی تیاری کا عنوان تھا۔ تعلیمی اداروں میں صحت مند سرگرمیاں ملک کو روشن مستقبل دیتی ہیں۔ڈاکٹر شکیل فاروقی بھی طلبہ یونین کا استعارہ تھے۔ ایک زندہ کردار،سماج کے لیے دلیل۔۔۔جن کے دنیا سے رخصت ہونے پر ہزاروں لوگ نوحہ کناں ہیں۔رب غفرلہ ورحمہ وادخلہ الجنتہ۔آمین

حصہ