قسط 24۔
بینکنگ کی اسلامی صورت
بینکنگ کے متعلق اس سے پہلے ہم نے جو بحث کی ہے اس کا یہ مطلب نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے کہ یہ کام سرے سے ہی غلط اور ناجائز ہے۔ دراصل بینکنگ بھی موجودہ تہذیب کی پرورش کی ہوئی بہت سی چیزوں کی طرح ایک ایسی اہم مفید چیز ہے جس کو صرف ایک شیطانی عنصر کی شمولیت نے گندا کر رکھا ہے۔ اوّل تو وہ بہت سی ایسی جائز خدمات انجام دیتا ہے جو موجودہ زمانے کی تمدنی زندگی اور کاروباری ضروریات کے لیے مفید بھی ہیں اور ناگزیر بھی۔ مثلاً رقموں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا اور ادائیگی کا انتظام کرنا‘ بیرونی ممالک سے لین دین کی سہولتیں بہم پہنچاتا‘ قیمتی اشیا کی حفاظت کرنا‘ اعتماد نامے (Letter of Credit) سفر چیک اور گشتی نوٹ جاری کرنا‘ کمپنیوں کے حصص کی فروخت کا انتظام کرنا اور بہت سے وکیلانہ خدمات (Aeency Services) جنہیں تھوڑے سے کمیشن پر بینک کے سپرد کرکے آج ایک مصروف آدمی بہت سے جھنجھٹوں سے خلاصی پا لیتا ہے۔ یہ وہ کام ہیںجنہیں بہرحال جاری رہنا چاہیے اور ان کے لیے ایک مستقل ادارے کا ہونا ضروری ہے۔ پھر یہ بات بھی بجائے خود تجارت‘ صنعت‘ زراعت اور ہر شعبۂ تمدن و معیشت کے لیے نہایت مفید اور آج کے حالات کے لحاظ سے نہایت ضروری ہے کہ معاشرے کا فاضل سرمایہ بکھرا ہوا رہنے کے بجائے ایک مرکزی ذخیرہ (Reservoira) میں مجتمع ہو اور وہاں سے وہ زندگی کے ہر شعبے کو آسانی کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ بہم پہنچ سکے۔ اس کے ساتھ عام افراد کے لیے بھی اس میں بڑی سہولت ہے کہ جو تھوڑا بہت سرمایہ ان کی ضرورت سے بچ رہتا ہے اسے وہ کسی نفع بخش کام میں لگانے کے مواقع الگ الگ بطور خود ڈھونڈتے پھرنے کے بجائے سب اس کو ایک مرکزی ذخیرے میں جمع کرا دیا کریں اور وہاں ایک قابل اطمینان طریقے سے اجتماعی طور پر ان سب کے سرمائے کو کام پر لگانے اور حاصل شدہ منافع کو اُن پر تقسیم کرنے کا انتظام ہوتا رہے۔ ان سب پر مزید یہ کہ مستقل طور پر مالیات (Finance) ہی کا کام کرتے رہنے کی وجہ سے بینک کے منتظمین اور کارکنوں کو اس شعبۂ فن میں ایک ایسی مہارت اور بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جو تاجروں‘ صناعوں اور دوسرے معاشی کارکنوںکو نصیب نہیں ہوتی۔ یہ ماہرانہ بصیرت بجائے خود ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ یہ محض ساہوکار کی خود غرضی کا ہتھیار بن کر رہے بلکہ کاروباری لوگوں کے ساتھ تعاون میں استعمال ہو۔ لیکن بینکنگ کی ان ساری خوبیوں اور منفعتوں کو جس چیز نے الٹ کر پورے تمدن کے لیے برائیوں اور مضرتوں سے بدل دیا ہے وہ سود ہے اور اس کے ساتھ دوسری بنائے فاسد یہ بھی شامل ہو گئی ہے کہ سودی کشش سے جو سرمایہ کھچ کھچ کر بینکوں میں مرتکز ہوتا ہے وہ عملاً چند خود غرض سرمایہ داروں کی دولت بن کر رہ جاتا ہے جسے وہ نہایت خود غرضانہ طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ ان دو خرابیوں کو اگر دور کر دیا جائے تو بینکنگ ایک پاکیزہ کام بھی ہو جائے گا‘ تمدن کے لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ نافع بھی ہوگا اور عجب نہیں کہ خود ساہوکاروں کے لیے بھی سود خواری کی بہ نسبت یہ دوسرا پاکیزہ طریقِ کار مالی حیثیت سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو۔
جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ انسدادِ سود کے بعد بینکوں میں سرمایہ اکٹھا ہونا ہی بند ہو جائے گا وہ غلطی پر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب سود ملنے کی توقع ہی نہ ہوگی تو لوگ کیوں اپنی فاضل آمدنیاں بینک میں رکھوائیں گے حالانکہ اس وقت سود کی نہ سہی‘ نفع ملنے کی توقع ضرور ہوگی اور چونکہ نفع کا امکان غیر متعین اور غیر محدود ہوگا اس لیے عام شرح سود بہ نسبت کم نفع حاصل ہونے کا جس قدر امکان ہوگا اسی قدر اچھا خاصا زیادہ نفع ملنے کا امکان بھی ہوگا اس کے ساتھ بینک وہ تمام خدمات بدستور انجام دیتے رہیں گے جن کی خاطر اب لوگ بینکوں کی طرف رجوع کیا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بالکل ایک یقینی بات ہے کہ جس مقدار میں اب سرمایہ بینکوں کے پاس آتا ہے اسی مقدار میں انسداد سود کے بعد بھی آتا رہے گا‘ بلکہ اس وقت چونکہ ہر طرح کے کاروبار کو زیادہ فروغ حاصل ہوگا‘ روزگار بڑھ جائے گا اور آمدنیاں بھی بڑھ جائیں گی‘ اس لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت کہیں بڑھ چڑھ کر فاضل آمدنیاں بینکوں میں جمع ہوں گی۔
اس جمع شدہ سرمایہ کا جس قدر حصہ چالو کھاتے یا عندالطلب کھاتے میں ہوگا اس کو بینک کسی نفع بخش کام میں نہ لگا سکیں گے‘ جس طرح اب بھی نہیں سکتے ہیں‘ اس لیے وہ زیادہ تردد بڑے کاموں میں استعمال ہوگا۔ ایک روز مرہ کا لین دین‘ دوسرے کاروباری لوگوں کو قلیل المدت قرضے بلا سود دینا اور ہنڈیاں بلا سود بھنانا۔
رہا سرمایہ جو لمبی مدت کے لیے بینکوں میں رکھا جائے گا تو وہ لازماً دو ہی قسم کا ہوگا ایک وہ جس کے مالک صرف اپنے مال کی حفاظت چاہتے ہوں‘ ایسے لوگوں کے مال کو بینک قرض کے طور پر لے کر خود کاروبار میں استعمال کرسکیں گے۔ دوسرا وہ جس کے مالک اپنے مال کو بینکوںکے توسط سے کاروبار میں لگانا چاہتے ہوں۔ ان کے مال کو امانت میں رکھنے کے بجائے ہر بینک کو ان کے ساتھ ایک شراکت نامہ عام طے کرنا ہوگا۔ پھر بینک سرمایہ کو اپنی دوسرے سرمایوں سمیت مضاربت کی اصول پر تجارتی کاروبار میں صنعتی اسکیموں میں‘ زراعتی کاموں میں اور پبلک اداروں اور حکومتوں کے نفع آور کاموں میں لگا سکیںگے اور اس سے بحیثیت مجموعی دو عظیم الشان فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ ساہوکار کا مفاد کاروبار کے مفاد کے ساتھ متحد ہو جائے گا اس لیے کاروبار کی ضرورت کے مطابق سرمایہ اس کی پشتبانی کرتا رہے گا اور وہ اسباب قریب قریب ختم ہو جائیں گے جن کی بنا پر موجودہ سود خور کو دنیا میں کساد بازاری کے دورے پڑا کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ساہوکار کی مالیاتی بصیرت اور کاروباری لوگوں کی تجارتی و صنعتی بصیرت‘ جو آج باہم نبرد آزما کرتی رہتی‘ اُس وقت ایک دوسرے کی ساتھ دستیاری اور تعاون کریں گی اور یہ سب ہی کے لیے مفید ہوگا۔ پھر جو منافع ان ذرائع سے بینکوں کو حاصل ہوں گے ان کو وہ اپنے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد ایک مقرر تناسب کے مطابق اپنے حصہ داروں اور کھاتہ داروں میں تقسیم کردیں گے۔ اس معاملے میں فرق صرف یہ ہوگا کہ بحالت موجودہ منافع (Dividends) حصہ داروں میں منافع ہی تقسیم ہوں گے۔ اب کھاتہ داروں کو ایک متعین شرح کے مطابق سود ملا کرتا ہے۔ اس وقت شرح کا تعین نہ ہوگا بلکہ جتنے بھی منافع ہوں گے‘ خواہ کم ہوں یا زیادہ‘ وہ سب ایک تناسب کے ساتھ تقسیم ہو جائیںگے‘ نقصان اور دیوالیہ کا جتنا خطرہ اب ہے اتنا ہی اس وقت بھی ہوگا۔ اب خطرہ اور اس کے بالمقابل غیر محدود نفع کا امکان دونوںصرف بینک کے حصہ داروں کے لیی مخصوص ہیں۔ اسو قت یہ دونوں چیزیں کھاتہ داروں اور حصہ داروں میں مشترک ہو جائیں گی۔
رہ گیا بینکنگ کا یہ نقصان کہ نفع کشش سے جو سرمایہ ان کے پاس اکٹھا ہوتا ہی اس کی مجتمع طاقت پر عملاً صرف چند ساہو کار قابض ہو متصرف ہوتے ہیں‘ تو اس کے لیے ہم کو یہ کرنا ہوگا کہ مرکزی ساہوکاری (Central Banking) کا سارا کام بیت المال یا اسٹیٹ بنک خود اپنے ہاتھ میں رکھے اور قوانین کے ذریعے سے تمام پرائیویٹ بینکوں پر حکومت کا اقتدار اور دخل و ضبط اس حد تک قائم کر دیا جائے کہ ساہوکار اپنی مالیاتی طاقت کا بے جا استعمال نہ کرسکیں۔
غیر سودی مالیات کا یہ مجمل نقشہ جو ہم نے پیش کیا ہے‘ کیا اسے دیکھنے کے بعد بھی اس شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ سود کا انسداد قابلِ عمل نہیں ہے؟
کیا تجارتی قرضوں پر قرضوں پر سود جائز ہے
۔(یہ وہ مراسلت ہے جو اس مسئلے پر جناب سید یعقوب شاہ صاحب سابق ایڈیٹر جنرل حکومت پاکستان اور مصنف کے درمیان ہوئی تھی۔)۔
سوال: خاکسار نے جناب کی تصنیف ’’سود‘‘ کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اس کے پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوئے ہیں اور گو میں نے کافی کاوش کی ہے تاہم ان کا تسلی بخش جواب کہیں سے نہیں مل سکا اس لیے اب آپ کو تکلیف دینے کی جرأت کررہا ہوں اور امید ہے کہ آپ ازراہِ کرم میری راہنمائی فرمائیں گے۔
-1 جناب نے اپنی کتاب کے حصہ اوّل (طبع سوم) کے صفحہ 35 پر زمانہ جاہلیت کے ’’ربوٰ‘‘ کی جو مثالیں دی ہیں ان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا اس وقت کے لوگ تجارت کے لیے قرض لیتے تھے یا نہیں۔ جہاں تک میں معلوم کر سکا ہوں‘ کم از کم یورپ میں قرض لے کر تجارت کرنا بہت بعد میں رواج میں آیا اس سے پہلے تجارت نجی سرمایہ سے یا مضاربت کے ذریعے ہوتی تھی۔ کیا جناب کسی ایسی مستند کتاب کا حوالہ عنایت فرمائیں گے جس سے معلوم ہو سکے کہ عرب میں تجارتی سود کا اس وقت رواج تھا کہ نہیں؟
-2 اسی حصہ کے صفحہ 169ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربوٰ الفضل کی احادیث‘ تحریم سود کی آیتِ قرآن (سورۂ بقر) کے نزول سے پہلے کی ہیں۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ ربوٰالفضل قرآنی حرمت اور قرآنی وعید کا حامل نہیں؟ یا بالفاظ سرسید احمد خان صاحب ’’درحقیقت یہ معاملہ بیع فاسد کا ہے اور اُس ربو ٰ کی تفسیر میں داخل نہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے؟‘‘
امید ہے جناب والا میرے سوالات کا جواب عنایت فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔
جواب: یہ بات کسی کتاب میں اس صراحت کے ساتھ تو نہیں لکھی گئی ہے کہ عرب جاہلیت میں ’’تجارتی سود‘‘ رائج تھا‘ لیکن اس امر کا ذکر ضرور ملتا ہے کہ مدینہ کے زراعت پیشہ لوگ یہودی سرمایہ داروں سے سود پر قرض لیا کرتے تھے‘ اور خود یہودیوں میں باہم بھی سودی لین دین ہوتا تھا۔ نیز قریشی کے لوگ‘ جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے‘ سود پر قرض لیتے دیتے تھے۔ قرض کی ضرورت لازماً صرف نادار آدمیوں ہی کو اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیش نہیں آتی‘ بلکہ زراعت پیشہ افراد کو اپنی زرعی کاموں کے لیے اور سوداگر لوگوں کو اپنے کاروبار کے لیے بھی پیش آتی ہے اور یہ آج کوئی نئی صورت نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ اسی چیز نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے وہ شکل اختیار کی ہے جو زمانہ جدید میں پائی جاتی ہے قدیم صورت زیادہ تر انفرادی لین دین تک محدود تھی‘ جدید صورت میں فرق صرف یہ ہوگیا کہ بڑے پیمانے پر قرض سے سرمایہ اکٹھا کرنے اور اسے کاروبار میں لگانے کا طریقہ رائج ہوگیا۔
ربوٰالفضل کی احادیث سورۂ بقرہ والی آیتِ حرمتِ سود سے تو پہلے کی ہیں‘ مگر سورۂ آل عمران والی آیت اس کے بعد کی ہیں۔ سورۂ آل عمران کی آیت نے قران کا یہ منشا واضح کر دیا تھا کہ سود ایک برائی ہے جس کو بالآخر مٹانا پیش نظر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے لیے ماحول تیار کرنے کی خاطر معاشی معاملات میں وہ اصلاحات فرمائی تھیں جن کے لیے ’’ربوٰالفضل‘‘ کا عنوان تجویز کیا گیا ہے۔ احادیث میں صاف طور پر لفظ ’’ربوٰ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اور ممانعت کے الفاظ خود اس کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ قران میں جس سود کی حرمت کا حکم دیا گیا ہے وہ قرض والا سود ہے نہ کہ دست بہ دست لین دین والاسود۔ اور فقہاء نے یہ تصریح بھی کی ہے کہ ربوٰالفضل بعینہ وہ ربوٰ نہیں ہے جو قرآن میں حرام کیا گیا ہے‘ بلکہ یہ دراصل سود کا سدِباب کرنے کے لیے ایک پیش بندی ہے جسے فقہی اصطلاح میں ’’سدباب ذریعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے)