سوشل میڈیا پر بھارت میں قرآنی تحریف کا شور

333

پاکستان کی حدود میں سوشل میڈیا عورت مارچ کے نرغے میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں گھرا نظر آرہا ہے۔ لاہور والے خواتین دھرنے میں موجود لال رنگ کے بینر پر ذومعنی تحریر کی پوسٹ نے شیئر ہوکر لاعلمی کی بنیاد پر گستاخی کے عمل کو مزید بڑھاوا دیا۔ میرے استفسار پر علماء و فقہاء نے بھی اِس عمل یعنی متذکرہ پوسٹ کو دیکھ کر اسے شیئر کرنے کو گستاخی ہی سے تشبیہ دی، چاہے نیت کوئی بھی ہو۔ اس سے قبل ملعون گورائیہ و دیگر گستاخِ رسولؐ چونکہ اسی بات کو اٹھاتے رہے ہیں، اس لیے کوئی وضاحت نہ ہونے کے سبب لوگوں نے اس کو گستاخیِ رسولؐ سے تشبیہ دی۔ اس کے ساتھ ہی نعروں والی ایک ویڈیو نے بھی خاصی ہلچل مچائی۔ اسی طرح کراچی کے عورت دھرنے میں ’ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کے جھنڈے کو فرانس کا جھنڈا قرار دے کر اس کو بھی توہینِ رسالت کے برابر قرار دے دیا گیا۔ اتفاق سے دونوں کے جھنڈوں کے رنگ یکساں ہیں، فرق رنگوں کی ترتیب کا ہے۔ نعروں والی ویڈیو کے بارے میں عورت مارچ کے منتظمین کی وضاحت آئی کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا، اور ویڈیو میں آوازوں کو ایڈٹ کرکے ڈالا گیا ہے۔ اسی طرح لال رنگ کے بینر والی تحریر کو بھی منتظمین نے کسی خاتون کی روداد ظاہر کیا جسے اپنے بچپن میں اس طرح کا واقعہ پیش آیا۔ مگر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ وضاحت ذومعنی تحریر کا فائدہ اٹھاکر گھڑی گئی ہے، یہ جاننے کے لیے کہ یا تو وہ خاتون سامنے آئے تو لگ پتا جائے گا، وگرنہ کوئی بھی ملک کے پوش علاقوں یا مڈل کلاس آبادی میں بچیوں کے قرآن ناظرہ پڑھوانے کے عمومی ٹرینڈ کو معلوم کرے، مدارس و گھروں میں جانے والے اساتذہ کی عمومی عمریں معلوم کرے تو ایسا 50 سالہ استاد بمشکل ہی ملے گا۔
بہرحال عورت مارچ کی بھرپور وکالت کرتے ہوئے جیو کے میزبان ’شاہ زیب خانزادہ‘ نے اُن کا مؤقف پوری طرح پیش کیا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کسی بے گناہ پر بغیر ثبوت گستاخی کا الزام لگانا بالکل بھی درست نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کی نظریاتی یعنی اسلامی اساس کو بنیاد بناکر ایسی تمام سرگرمیوں پر شدید ردعمل دیا گیا۔ اسٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کے صدر شہیر سیالوی اِس ضمن میں مزاحمت و ردعمل میں قولی و عملی طور پر نوجوانوں کے ساتھ اسلام آباد و لاہور میں احتجاجی دھرنا دے کر سرفہرست نظر آئے۔ انہوں نے عورت مارچ کو ’عافیہ ڈے‘ کے طور پر منایا اور سخت الفاظ میں ردعمل دیتے ہوئے دلائل دیئے کہ پاکستان کی اسمبلی میں بھرپور نمائندگی، فوج، پولیس، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء سمیت ہر شعبے میں خواتین کی بھرپور موجودگی کے بعد کوئی عورت مارچ حقوق کا مسئلہ نہیں۔ انہوں نے کشمیر، برما، فلسطین، شام، عراق کی خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، اور صاف کہاکہ پہلے عافیہ صدیقی کو رہا کرو اور جو ظلم تم نے خواتین پر کیے ہیں پہلے ان کا حساب دو، ہم پاکستان میں ہم جنس پرستی اور کسی قسم کے ننگے پن کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس حوالے سے جہاں بے شمار سوشل میڈیا پر ردعمل جاری رہا، وہیں صہیب جمال نے ایک جامع پوسٹ ڈالی:۔
’’پاکستان میں اس مارچ کی تاریخ 1983ء میں شروع ہوتی ہے جب عدالت میں عورت کی گواہی کو آدھا قرار دیا گیا اور ٹیلی وژن پر خواتین کو سر ڈھانکنے کا حکم جاری ہوا۔ اس عورت مارچ میں قائداعظمؒ کے مزار کے سامنے بیگم رعنا لیاقت علی خان کی سربراہی میں کچھ خواتین نے اپنے برقعے و چادریں جلائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد پاکستان میں خوبصورت عبائے، لان سوٹس کے ساتھ دوپٹے، دلہنوں کا لمبا آنچل مزید فیشن میں شامل ہوگیا، ورنہ اس سے پہلے ٹی وی پر اور بڑی پارٹیوں میں بغیر آستین اور چھوٹی شرٹس کا فیشن ہوا کرتا تھا۔ یہ فیشن اب بھی ہے مگر چند خواتین تک محدود ہے۔ پھر یہ ہوا کہ انویسٹرز نے نئے سرے سے کوشش کرتے ہوئے اچھا خاصا فنڈ جاری کیا۔ کچھ ٹی وی چینلز اور اینکرز کو فنڈنگ کی گئی، مگر انہوں نے رزلٹ دیکھا تو صفر نکلا، اس کی مخالفت میں ری ایکشن بہت خراب ملا، پھر یہ کہ جن خواتین کے پاس اس عورت مارچ کی سربراہی تھی وہ بھی صحیح نعرہ نہ دے سکیں، بے تکے نعرے جیسے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’کھانا خود گرم کرلو‘‘، ’’موزے خود ڈھونڈو‘‘… یہ وہ نعرے تھے جو عوامی امنگ (Public Insight)نہیں تھے۔ کسی بہت ہی اناڑی شخص کی یہ اختراع تھی، اس کے پیچھے کوئی ریسرچ ورک محسوس نہیں ہوا۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ مڈل کلاس کی کسی پروڈکٹ کے لیے پنچ لائن اور اشتہار سوچنے کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو مڈل کلاس زندگی سے واقف نہ ہو۔ یہ خواتین دراصل مادر پدر آزاد تھیں، یہ ایک ایسی کلاس سے تھیں جس کو پتا ہی نہیں تھا کہ بھینس اور گائے سے کیسے دودھ نکالا جاتا ہے، کیسے دوردراز علاقے سے مٹکے میں پانی بھر کے کن کن مشکلات سے لایا جاتا ہے، کس طرح گندم پیسی جاتی ہے، اور بچہ پیدا کرتے ہوئے کس تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں جو یہ مشکلات اٹھاتی ہیں انہیں یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ ان کے باپ، بھائی اور شوہر کس کس طرح اپنا لہو اور پسینہ بہا کر گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ عورت مارچ والی خواتین نے صرف اکاؤنٹ میں رقم دیکھی ہے، اور کمانے والوں نے بھی صرف عہدے کا فائدہ اٹھاکر رقم جمع کی ہے، اس لیے یہ بیچاری ایلیٹ کلاس کی خواتین کیا جانیں کہ عورت کی مشکلات ہوتی کیا ہیں! میں چیلنج دیتا ہوں ان خواتین کا فیملی بیک گراؤنڈ پتا کرلیں، آپ کو ننانوے فیصد خواتین اثر رسوخ رکھنے والے مردوں کی باقیات ملیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان خواتین کے نعروں نے خواتین کے اصلی حقوق کو کہیں دور لے جاکر پھینک دیا اور یہ عورت مارچ جنسی و جسمانی آزادی تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اب مثبت تنظیموں کے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ اس عورت مارچ کے خلا کو بہترین نعروں اور مربوط سسٹم کے ذریعے پُر کردیں، اور خواتین کے اصلی حقوق کے لیے نتیجہ خیز مہم چلائیں، آگے بڑھیں تاکہ پھر کوئی گروپ یا گروہ اس اہم مقصد کو ہائی جیک نہ کرے۔ یہ یاد رہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے علاقوں میں عورت کو بہت مشکلات ہیں۔ تعلیم، صحت، قلّتِ غذا، جائداد میں حصہ، جہیز کی لعنت، اجتماعی آبرو ریزی، نابالغ شادی، ناپسندیدہ شخص سے شادی اور بہت سے ایسے مسائل جن پر کسی بھی طبقے کو اعتراض نہیں۔ ایلیٹ کلاس خواتین کے بھی مسائل ہیں جیسے نشے میں دھت شوہر کا گھر آنا اور عورت کو ہر ماہ چند لاکھ دے کر خاندانی نظام سے الگ رہنا، اپنی بزنس ڈیل اور کسی عہدے کے لیے اپنی عورت کو استعمال کرنا اور اس کو پارٹی کا نام دینا، میڈیا و اشتہارات میں عورت کو اشیاء فروخت کرنے کے لیے تماشا بنانا، طلاق دے کر واپس بلا لینا وغیرہ وغیرہ۔‘‘
یہ تو تھا پاکستان۔ اب ذرا پڑوس میں چلتے ہیں، جہاں ملعون طارق فتح کے بعد وسیم رضوی گندے ایجنڈے کے ساتھ کود پڑا۔ یہ بھارت کے شیعہ سینٹرل بورڈ یوپی کا سابق صدر ہے اور ہمیشہ متنازع بیانات دے کر شہرت پاتا رہا ہے۔ وسیم رضوی پہلے بھی صریح گستاخیوں کا مرتکب ہوچکا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے متعلق ایک ویب فلم کی ’جھلک‘ ریلیز کرنے پر یہ ملعون 2019ء میں بھی شدید ردعمل کا نشانہ بنا۔ اُس پر وسیم نے وضاحت کی کہ اُس نے ایسا کام نہیں کیا، اور وہ فلم سے الگ ہوگیا۔ اس کے بعد اُس نے ہندوستان کے دینی مدارس کو ماڈرنائز کرنے کی بات کردی اور شدید ردعمل کا سامنا کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ ملعون ایک خاص ایجنڈے پر ہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب اُس نے بھارت کے سیکولر آئین کی آڑ لے کر بھارتی عدالتِ عظمیٰ میں قرآن مجید کی26آیات کو قرآن سے خارج کروانے کی درخواست دی ہے۔ اس کی بنیاد وسیم نے یہ بنائی کہ قرآن مجید وصالِ رسولﷺ کے کئی عشروں بعد مرتب ہوا، طویل وقفہ آنے کی وجہ سے ہم اس کو درست نہیں کہہ سکتے۔ یہاں بات ختم نہیں ہورہی، اس کے ساتھ ہی کئی سال پہلے پاکستان بدر ہونے والا بھارت میں مقیم طارق فتح جیسا ملعون انسان بھی ہے جو قرآن مجید کی ترتیب، پاروں، سورتوں کی تقسیم پر ہی سوال اٹھا رہا ہے۔ اس پورے عمل سے بھارت کے کروڑوں مسلمانوں میں بھرپور اشتعال آیا ہے اور آنا بھی چاہیے۔ میں نے جو کچھ سوشل میڈیا پر اور بھارتی ٹی وی شوز میں ان ملعونوں کی بونگی دلیل کا انتہائی کمزور دفاع ہوتے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ مسلمان کس سخت آزمائش میں وہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایک مقامی رہنما نے بھی بظاہر وسیم رضوی کی مذمت کی ہے۔ لکھنؤ، بریلی، دہلی اور دیگر کئی شہروںمیں شیعہ سنی مسلمانوں کے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس پورے منظرنامے کو آپ جتنا دیکھیں گے، یقین کیجیے اللہ کا بے پناہ شکر ادا کریں گے کہ آپ کو پاکستان نصیب ہوا۔ دینی جماعتیں ہندوستان میں بھی کم نہیں ہیں، لیکن آپ نوٹ کریں گے کہ ہر جماعت مدلل انداز سے بات کرنے کے بجائے صرف جذباتی الفاظ استعمال کرکے احتجاج کررہی ہے۔ جبکہ یہ واقعہ ایسا ہے کہ بھرپور احتجاج ہر حال میں ناگزیر ہے۔ بھارت میں مسلمان شہریت، بابری مسجد، گائے ذبیحہ سمیت مستقل ہر سال کسی نہ کسی معاملے پرمشتعل کیے جا رہے ہیں۔ سماجی میڈیا پر یہ معاملہ لازمی طور پر پھیلے گا۔ اہم بات اہلِ ایمان و اہلِ پاکستان کے لیے اس میں یہ ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنی ہوں گی۔ مغربی تعلیم کے زیراثر ہم بھی ہیں، ہماری جامعات میں بھی ہمارے ایمان و عقائد پر حملے جاری ہیں۔ اُنہوں نے جو جو سوالات گھڑے ہیں اُن کا علمی جواب نہ دینے کی صورت میں شیطان دلوں میں شکوک بآسانی پیدا کرتا ہے۔
اس ہفتے ایک اور اہم ٹرینڈ ٹوئٹر پر تیرتا نظر آیا، اور یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی چھایا رہا۔ امریکا کی ایک تاریخی روایت بتائی گئی کہ کسی بھی بحران کے وقت ایشیائی تعصب کو جان بوجھ کر فروغ دیا جاتا ہے۔ عالمی منظرنامے پر RacismisnotComedy، StopAsianHate، AsiansareHuman سمیت کئی ہیش ٹیگ دنیا بھر میں امریکی تعصب کو اجاگر کرتے رہے۔ ویسے خواتین کے عالمی دن کو گزرے ہفتہ بھر ہی ہوا ہے، کورونا کی تیسری لہر بدستور جاری ہے کہ امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں دو مساج پارلرز پر ماس شوٹنگ (جسے وہ دہشت گردی نہیں لکھتے،کہتے) کے نتیجے میں 8 افراد مارے گئے، جن میں 6 ایشیائی نژاد خواتین تھیں۔ مذکورہ علاقہ شہر کا ’ریڈ لائٹ ایریا‘ کہلاتا ہے۔ ایک شخص گرفتار بھی ہوا ہے جس کو سوشل میڈیا پر اس تعارف کے ساتھ پیش کیا گیا کہ ’نوٹ کرلیں کہ یہ مسلمان نہیں ہے۔ نہ ہی داعش کا ہے، نہ ہی غیر ملکی ہے، بلکہ امریکی نفرت کے معاشرے میں پلا بڑھا ہے اور ٹرمپ کے تعصب سے متاثرہ شخص ہے۔‘ اسی طرح امریکا میں ایسے 2100 واقعات کا مجموعہ نکال کر پیش کیا جاتا رہا۔ مغربی اصطلاح میں یہ ’زینو فوبیا‘ ہے، یعنی اسے غیر ملکیوں کا خوف قرار دیا جارہا ہے۔ آبادی کے تناسب سے کوئی 5فیصد ایشیائی اس ریاست میں آباد ہیں۔ سوا کروڑ کے قریب آبادی ہے جس میں 6 لاکھ کے قریب اٹلانٹا شہر کی آبادی ہے۔ امریکی اخبارات و میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیں تو ہمیشہ کی طرح اس واقعے کو بھی ایسے رپورٹ کیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
جہلم شہر سے تعلق رکھنے والے انجینئر محمد علی مرزا پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس پر بھی ایک دن احتجاجی طور پر خصوصی ٹرینڈ بنا۔ گلوکارہ میشا شفیع پر بھی علی ظفر کو سوشل میڈیا پر بدنام کرنے کے جرم میں تین سالہ سزا کی خبر ٹرینڈ کی صورت خوب پھیلائی گئی، بعد ازاں میشا شفیع وضاحتیں دیتی رہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ شہباز گل پر انڈوں سے حملہ بھی سوشل میڈیا پر شور کی صورت نمایاں رہا۔

حصہ