ایک ایسے زمانے میں جب ہم مغربی تہذیب کی زد میں ہونے کے باوجود اس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ مغربی تہذیب کے مظاہر کو مغربی تہذیب سمجھنے کی بجائے زیادہ گہرائی میں جا کر اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ مشکل یہ ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب ہم اپنے گہرے مسائل کو سطحی نعروں سےحل کرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم کی کوشش ایک صدائے صحرا کی مانند بے کار معلوم ہوتی ہے۔ اردو کی محدود اور مختصر دنیا میں ایک محمد حسن عسکری ایسے ضرور تھے جو ہمیں عمیق مسائل کی تفہیم کی طرف لے جانا چاہتے تھے‘ لیکن ادب کے انحطاط سے جو اثر ہماری پوری قومی زندگی پر پڑا ہے۔ اس میں ان کی آواز ادیبوں کے سوا اور کسی نے نہیں سنی اور ادیب بھی اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کرسکے‘ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ مغرب کے خلاف ہمارے جہاد میں اس وقت تک ہمیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوگی جب تک ہم مغرب کی روح کو نہ سمجھ لیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اخبار کے کالم کس حد تک ایسی بحثوں کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ مگر ایک ایسے زمانے میں جب لوگوں تک پہنچنے کا کوئی اور مؤثر ذریعہ باقی نہیں ہے اخباری کالموں کو اس کے لیے استعمال کرنا ناگزیرمعلوم ہوتا ہے۔ میں جسارت میںیہ مضمون اس توقع سے لکھ رہا ہوں کہ سنجیدہ فکر کے لوگ اس پر توجہ کریں گے اور اس کے بعد کچھ آگے بڑھ سکے گی۔
میتھیو آرنلڈ نے اپنی کتاب ’’کلچر اور مزاج‘‘ میں مغربی تہذیب کے دو بنیادی‘ لیکن متضاد رجحانات کا ذکر کیا ہے جو اسے باری باری اپنی طرف کھینچتے رہتی ہیں۔ اس رسہ کشی میں کبھی ایک غالب آجاتا ہے کبھی دوسرا اور یوں لگتا ہے جیسے مغربی تہذیب ان دونوں کے درمیان جھولا جھول رہی ہے۔ ان میں سے ایک یونانیت ہے‘ دوسرا عبرانیت‘ یونانیت اور عبرانیت میں وہی فرقہے جو علم و عمل میں ہے۔ عبرانیت عمل سے تعلق رکھتی ہے‘ یونانیت علم سے‘ عبرانیت کا مسئلہ صحیح عمل ہے‘ یونانیت کا مسئلہ صحیح علم ہے‘ عبرانیوں کے نزدیک اہم ترین چیز فرض شناس اور ضمیر کی سخت گیری ہے۔ یونانیوں کے لیے عقل کا فطری اور بے ساختہ کھیل عبرانی اخلاقی خوبیوں میں زندگی کے معنی دیکھتے ہیں۔ یونانی انہیں ذہنی خوبیوں کے نیچے رکھتے ہیں۔ مختصر لفظوں میں عبرانیت اخلاقی آدمی کو پسند کرتی ہے‘ یونانیت ’’ذہنی‘‘ آدمی کو۔ عبرانیت اور یونانیت کی اس کشمکش کے ذریعے آرنلڈ نے دونوں رجحانات میں ایک اور بنیادی فرق نکالاہے۔عبرانیت آدمی کا جو تصور رکھتی ہے اس کی تہہ میں ایک ایسی بے اطمینانی ملتی ہے جو آدمی کے یونانی تصور میں نہیں پائی جاتی۔ یہ بے اطمینانی ایک اوار مرکزی مسئلے کی طرف لے جاتی ہے ایک ایسے مسئلے کی طرف جو علم و عمل‘ اخلاق اور عقل سے آگے جاتا ہے اور انسانی وجود کو زیادہ گہرائی میں چھوتا ہے۔ گناہ کا مسئلہ: لیکن گناہ کا جو تصور بائبل میں ملتا ہے وہ صرف اخلاقی اعمال سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ گناہ تو پورے وجود کا مسئلہ ہے۔ گناہ کے معنی بداعمالی نہیں ہیں بلکہ اپنے کمزور اور محدود وجود کے ساتھ خدا کے حضور میں برہنہ کھڑا ہونا۔ اس طرح یہ مسئلہ علم اور عمل کے امتیاز سے ماورا ہو جاتا ہے اور اس مرکز تک پہنچتا ہے جہاں سے یہ سارے امتیازات پھوٹتے ہیں۔ آرنلڈ کے نقطۂ نظر کو ہمیں ای مرکز کی روشنی میں دیکھنا چاہیے‘ لیکن آرنلڈ کی یونانیت حقیقی یونانیت نہیں ہے۔ اس کی یونانیت اسے اٹھارہویں صدی کی کلاسیکیت سے ورثے میں ملی ہے ورنہ یونانیت میں خود یہ رجحانات ملتے ہیں جو آرنلڈ کی پیش کردہ یونانیت سے مختلف ہیں۔ یونان کا زیادہ قریبی علم ہی یونانیوں کو قنوطیت پسندی اور نئی حیات کے بارے میں زیادہ بتاتا ہے۔ مثلاً یونان میں آرنک مذاہب موجود تھے جو ’’گناہ اور زوالِ آدم‘‘ کا ایک قوی احساس رکھتے تھے۔ خود افلاطون بھی ان سے متاثر ہوا۔ چنانچہ جب افلاطون کہتا ہے کہ ’’جسم ایک مقبرہ ہے‘‘ یا ’’فلسفہ سازی کا مطلب مرنا سیکھنا ہے‘‘ تو یہ کالی خولی خطابت نہیں ہے۔ افلاطون پ آرنک مذاہب اور فیثا غورث کے جو اثرات تھے ان کی روشنی میں ہم جانتے ہیں کہ افلاطون کے لیے فلسفے کا سارا تجربہ اس ضرورت سے پیدا ہوا کہ دنیا کے شر سے کس طرح نجات حاصل کی جائے۔ یونانی ایسے بے سبب نہیں پیدا ہوگئے تھے۔ مصائب اور زندگی کے شر کا ایک گہرا احساس ان کے پیچھے برسرِ عمل ہے۔
لیکن اس توضیح کے باوجود آرنلڈ کے قائم کردہ امتیازات اپنی جگہ اہم اور بامعنی ہیں اور جہاں تک یونانیت کے عالمِ انسانیت پر اثرات کا تعلق ہے‘ وہاں تک آرنلڈ بنیادی طور پر درست ہے‘ یونانیوں نے دنیا کو سائنس اور فلسفہ دیا۔ عبرانیوں نے قانون۔ دنیا کی کسی اور قوم نے نظریاتی سائنس نہیں پیدا کی نہ ہندوئوں نے‘ نہ جینیوں نے اور اس کی دریافت یا ایجاد وہ چیز ہے جس نے مغربی تہذیب کو دنیا کی دوسری تہذیبوں سے مختلف اور ممتاز بنا دیا۔ دوسرے مغرب میں ’’مذہبی انفرادیت‘‘ عبرانیت کا نتیجہ ہے اور مغرب میں مذہب کی طویل تاریخ عبرانی دور کے مختلف مظاہر پر مشتمل ہے۔
جس طرح یونانیت کا مرکز صرف علم و عقل نہیں ہے‘ اسی طرح عبرانیت کا مرکز بھی صرف عمل اور قانون (شریعت) نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون نے عبرانیوں کو صدیوں تک متحد رکھا اور ختم ہو جانے سے بچایا۔
لیکن اگر ہم عبرانیت کے سرچشموں تک جائیں اور اس انسان کو دیکھیں جو ہمیں کتابِ مقدس میں ملتا ہے‘ جو پہلی بار مقررہ مذہبی احکام سے ماورا دیکھ رہا ہے اور اپنے خدا کے روبرو کھڑا ہوا اسی طرح انصاف کا طالب ہے جس طرح یونانیوں نے اپنے دیوتائوں کو تنقیدی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا اور عقل کے ذریعے اپنے مذہب کا جائزہ لیا جو اس وقت تک روایتی اور رسمی تھا‘ لیکن یونانیوں کے برعکس عبرانیوں نے یہ کام صرف عقل کے ذریعے نہیں کیا۔ یہاں تو آدمی اپنے وجود کے ساتھ اپنے خدا کے مقابل ہے۔ ایوبؑ کے نزدیک مسئلے کا حل کسی عقلی جواب میں پوشیدہ نہیں ہے بلکہ پورے آدمی کی تبدیلی میں۔ ایوبؑ اور خدا کارشتہ مارٹن بوبر کے الفاظ میں ’’من وتُو‘‘ کا رشتہ ہے۔ اس رشتے کا تقاضا ہے کہ دونوں وجود مکمل طور پر ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ دو ذہنوں کا مقابلہ نہیں ہے جو کسی ایسی وضاحت کے طالب ہوں جو ان کی عقل کو مطمئن کرسکے۔ایوبؑ اور خدا کا مسئلہ وجود کی سطح پر ہے۔ عقل کی سطح پر عقلی تشکیک جن معنوں میں مغربی فلسفے کے ذریعے پھیلی ہے وہ ایوبؑ کے دماغ میں کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ بغاوت کے شدید ترین لمحے میں بھی ان کا خدا سے رشتہ شروع سے آخر تک ’’ایمان‘‘ کا رشتہ ہی رہتا ہے۔ یہ ایمان‘ غصہ‘ بے اطمینان‘ الجھن اور بغاوت کی شکلیں اختیار کرتا ہے‘ لیکن تشکیک کی نہیں۔ حضرت ایوبؑ کہتے ہیں کہ گو وہ مجھے قتل کرتا ہے‘ مگر میں اس پر بھروسہ کروں گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جو عام طور پر ہمارے سامنے نہیں آتی۔ میں اس کے سامنے اپنے راستے پر قائم رہوں گا۔‘‘ ایوبؑ اپنے خالق کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہیں‘ لیکن وہ اپنی انفرادیت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ایوبؑ اپنے ایمان کے بعض مرحلوں پر ان قدیم قبائل سے مماثل ہیں جن کے لوگ اپنے دیوتائوں کو مرضی کے مطابق نہ پاکر ان کی مورتیوں کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح حضرت دائودؑ کے نغمات پریہودہ کے خلاف جذبات ملتے ہیں اور حضرت دائودؑ یہودیوں کے مصائب کی ذمہ داری خدا پر ڈالتے ہیں۔ یہاں ایمان اتنا قوی اور حقیقی ہے کہ خود خدا کے احتساب سے بھی نہیں ڈرتا۔ ان کی یہ کیفیت ابتدائی انسان سے قریب ہے مگر اس سے ایک قدم آگے بھی ہے‘ کیوں کہ عبرانیوں نے ابتدائی انسان کے خدا کے خلاف غصے میں ایمان کا اضافہ کر دیا ہے۔ ایمان موجود ہو تو وہ خدا کے خلاف غصے کا اظہار کی جرأت کر سکتا ہے کیوں کہ ایمان کہتے ہیں خدا سے ’’پورے آدمی‘‘کے نکلے ہوئے تعلق کو۔ اس تعلق کا تقاضا ہے کہ وہ انسانی کیفیات کی ساری کیفیات کو جذب کرنے کے قابل ہو۔
ایمان بھروسہ ہے بالکل انہی معنوں میں جن معنوں میں ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں پر بھروسہ ہے۔ بھروسہ ایک فرد کا ایک دوسرے فرد سے ایک تعلق ہے۔ ان معنوں میں ایمان عقیدے سے پہلے بھی ایک تعلق ہے۔ یہ اپنے وجود کو دوسرے کے سامنے ظاہر کر دینے کا نام ہے۔ ان معنوں میں ایمان کسی ایسے فلسفیانہ مسئلے سے تعلق نہیں رکھتا جس میں عقل اور ایمان کی حیثیتیں اضافی ہوں۔ یہ صورت حال ہمیشہ بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ جب ایمان عقائد‘ مسائل اور اسلام کی شکل اختیار کرتا ہے۔ ایمان جو انسان کے غصے اور مایوسی کو جذب کرسکے ’’پورے آدمی‘‘ کا مسئلہ ہے۔ اس ایمان میں انسان جسم اور روح دونوں کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ یہ عقل یا کسی اور ’’کسریت‘‘ کا شکار نہیں ہوتا۔ اس میںعقل بھی شامل ہوتی ہے اور بےعقلی بھی۔ کتابِ ابواب اور لقمان میں انسان ہمیشہ گوشت پوست کا انسان ہے جو اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کے سامنے ہے۔ پروٹسٹنٹ مذہب میں گوشت پوست کا انسان غائب ہو گیا ہے اور اس کی جگہ صرف روح کے آدمی نے لے لی ہے۔ یہ روحانی آدمی خدا کا اس طرح سے قائل نہیں ہے جس طرح بائبل کا آدمی ہے۔ اس میں ایمان کی وہ سادگی‘ وہ ضرورت‘ وہ بھرپوریت ختم ہو چکی ہے جو بائبل کے انسان میں پائی جاہیے۔
یونانی عقل پرستی انسانی ترقی کی طرف ایک اہم قدم ہے‘ لیکن اس سے ایک نقصان بھی ہوا۔ عقل پرستی سے یونانی آدمی میں کسریت پیدا ہوئی اور انسانی کلیت مجروح ہوئی۔ افلاطون کے مکالمے فیڈرس میں انسانی روح کو بیان کیا گیا ہے۔ افلاطون ایک رتھ کی مثال پیش کرتا ہے جسے کالے اور سفید گھوڑے کھینچتے ہیں‘ سفید گھوڑے روحانی اور جذباتی عناصر کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ عقل کی تابع ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کالے گھوڑے خواہشات کو ظاہر کرتے ہیں جنہیں قابو میں رکھنے کے لیے چابک کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس تمثیل میں صرف رتھ بان کا چہرہ انسانی ہے‘ انسانی وجود کے دوسرے حصے حیوانی روپ رکھتے ہیں۔ اس طرح عقلِ انسانی وجود کے دوسرے حصوں سے الگ ہے اور انسانیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے مقابلے پر ایک چینی علامت کودیکھیے۔ ین اور یانگ کی قوتیں ایک دائرے میں روشنی اور تاریکی سے ظاہر کی جاتی ہیں۔ روشنی کے حصے میں تاریکی موجود ہے۔ تاریک حصے میں روشنی جس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی فطرت کے یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیںاور ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے‘ روشنی کو تاریکی کی ضرورت ہے اور تاریکی کو روشنی کی۔ افلاطون کی تمثیل میں عقلی عقلی حصہ غیر عقلی حصے سے الگ ہو گیا ہے اور یہ وہ بنیادی ’’کسریت‘‘ ہے جو مغربی تہذیب میں ڈھائی ہزار سال سے جاری و ساری ہے۔ عقل پرستی کی یہ فوق البشری بلکہ غیر انسانی عظمت افلاطون کی ایک اور تمثیل میں موجود ہے۔ افلاطون نے جمہوریہ میں غار کی تمثیل پیش کی ہے جس سے نکلنا انسان کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ غار سے نکل کر ہی انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اندھیرے سے روشنی میں آتا ہے۔ جہاں تک اس تمثیل کی عمومیت کا تعلق ہے اسے دنیا کی ہر تہذیب تسلیم کرتی ہے۔ ہندی اور چینی بھی اس تمثیل کو مجموعی طور پر قبول کر سکتے ہیں‘ لیکن افلاطون خود اس تمثیل کی جو تشریح کرتا ہے وہ اسے ایک خاص رنگ دے دیتی ہے۔ افلاطون کے نزدیک غار سے نکلنا ایک نصابی عمل ہے جسے وہ ریاست کے نگراں طبقے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ افلاطون کے نزدیک اس کا نصاب یہ ہے کہ نگراں طبقے کے لوگوں کو بیس سال کی عمر سے لے کر تیس سال کی عمر تک ریاضی اور جدلیات کی تعلیم دی جائے۔ گویا انسانی نجات کا انحصار ریاضی اور جدلیات کی تعلیم پر ہے‘ یہاں دوسری تہذیبوں کے لوگ ہکابکا رہ جائیں گے‘ کیوں کہ انفرادی تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ ان علوم کے ذریعے نجات یافتہ انسان پیدا ہونے کی امید ایک خیالِِ خام سے زیادہ اور کچھ نہیں ہی‘ لیکن افلاطون کی ریاضی اور جدلیات اس کے ایک اور بنیادی تصور سے وابستہ ہیں‘ افلاطون کے نزدیک حقیقی حقائق ’’اعیان‘‘ ہیں اعیان آفاقی ہیں‘ عمومی ہیں۔ ان کے مقابلے پر خصوصی چیزیں آدھی حقیقی اور آدھی غیر حقیقی ہیں۔ وہ صرف اس حد تک حقیقی ہیں جس حد تک وہ آفاقیت یا عمومیت کی حامل ہیں۔ آفاقیت اس لیے حقیقی ہے کہ ابدی ہے۔ اس کے مقابلے پر خصوصی چیزیں بدلتی رہتی ہیں اور بدل کر فنا ہوتی رہتی ہیں‘ اس لیے ان کی حیثیت صرف حقیقت کے ایک ’’سائے‘‘ کی ہے جو گھٹتا بڑھتا اور معدوم ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ ’’انسانیت‘‘ جو آفاقیت کی حامل ہے افرادِ انسانیہ سے زیادہ حقیقی ہے۔ افلاطون کے فلسفے کے تمام اجزا اسی تصور پیدا ہوئے ہیں کہ حقیقی وجود صرف اعیان کا ہے‘ اس لیے فنونِ لطیفہ جو حسی چیزوں سے وابستہ ہیں یعنی خاص چیزوں سے‘ وہ صرف سایہ آسا حقائق کے پیچھے بھاگتے ہیں جو غیر حقیقی ہیں۔ فلسفہ اور نظریاتی سائنس فنونِ لطیفہ سے بلند تر ہے‘ کیوں کہ خاص چیزوں کے بجائے عمومی حقائق سے تعلق رکھتی ہے۔ نفسیاتی معنوں میں افلاطون کے اس تصور کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اس نے اپنا سارا وزن حسی حقائق کے بجائے فوق الحسی حقائق کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ غالباً تاریخی طور پر ایسا ہونا ضروری بھی تھا کیوں کہ اس کے بغیر ’’عقلی حیوان‘‘ وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے اس بات کو تسلیم کرکے کہ جن چیزوں پر وہ دینی عقل کے ذریعے پہنچتا ہے وہ خود اسی لیے اپنے انفرادی وجود اور اتباع کی دوسری چیزوں سے زیادہ اہم اور حقیقی ہیں۔ افلاطون سکون کو حرکت پر‘ ابدی کو عارضی پر‘ آفاقی یا عمومی کو خصوصی پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی وجود کا عقلی حصہ اس کے باقی نصف غیر عقلی حصے پر فوقیت رکھتا ہے‘ لیکن افلاطون میں بہرحال ایسے عناصر بھی تھے جو صرف عقل نہیں تھے گو وہ رفتہ رفتہ عقل پرستی کی طرف بڑھتا گیا‘ لیکن ارسطو میں عقل پرستی کا سفر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور ارسطو تک پہنچتے پہنچے فلسفہ بالکل عقلی ہو جاتا ہے یعنی اپنی اسطوری‘ مذہبی اور شاعرانہ بنیادں سے کٹ جاتا ہے‘ اب اس کے معنی صرف مابعدالطبیعاتی علم کے بن جاتے ہیں۔
یونانی اور نو فلاطونی اثرات میں ڈوبی ہوئی ہونے کے باوجود‘ مسیحیت انسانی فطرت کے عبرانی رُخ سے تعلق رکھتی ہے کیوں کہ اس کی اساس عقل کے ایمان پر ہے اور مسیحیت کے نزدیک مجرد ایمان مجرد عقل پر فوقیت رکھتا ہے۔ مسیحیت کی ابتدا میں سینٹ پال ہمیں بار بار بتاتا ہے کہ جس ایمان کی وہ تبلیغ کرتا ہے وہ یونانیوں کے لیے حماقت ہے کیوں کہ یونانی ’’دانش‘‘ کے شئق ہیںجس سے یقینی طور پر عقلی فلسفہ مراد ہے نہ کہ مذہبی ایمان۔ لیکن چوں کہ تاریخی طور پر مسیحیت ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوئی جس نے ’’عقل‘‘ کو دریافت کر لیا تھا‘ اس لیے مسیحیت کا ’’ایمان‘‘ عہد نامۂ عتیق کے عبرانی ایمان سے مختلف ہے۔ قدیمِ بائبلی آدمی ایمان کی بے یقینیوں اور قانون کو شخصی تجربے کی حیثیت سے جانتا تھا لیکن وہ عقل اور ایمان کے پورے تصادم سے واقف نہیں تھا کیوں کہ عقل ابھی وجود میں نہیں آئی تھی۔ مسیحیت کا ایمان عہد نامۂ عتیق کے ایمان سے زیادہ شدید ہے اور اس کے ساتھ ہی دورِ خارجی۔ یہ ایک ایسا ایمان ہے جو صرف ماورائے عقل ہی نہیں بلکہ خلافِ عقل بھی ہے۔ چنانچہ سینٹ پال نے ایمان اور عقل کی جس کشمکش کا ذکر کیا ہے وہ نہ صرف مسیحی فلسفے کا بنیادی مسئلہ ہے بلکہ خود مسیحی تہذیب کا۔
ایمان کیا ہے؟ اہلِ فلسفہ صدیوں سے اسے بیان کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کی باتیں اس ذہنی حقیقت کے اظہار سے قاصرہیں۔ ایمان کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ یقین کی ایک شدید اور ناقابلِ بیان کیفیت ہے جو ایمان رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ایمان کیا چیز ہے اور شاید و بھی اسے کچھ سمجھ سکتا ہے جو اس اذیت ناکی سے واقف ہے جو ایمان کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک عقل پرست ذہن کے لیے ایمان کو سمجھنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا ایک اندھے کے لیے یہ سمجھنا کہ رنگ کیا چیز ہے۔ خوش قسمتی سے ہم ایمان کو دوسروں میں دیکھ کر پہچان سکتے ہیں۔ ایمان اور عقل کے اختلاف میں سوال یہ ہے کہ شخصت کا مرکز کہاں ہونا چاہیے۔ سینٹ پال اس امر کی تلاش ایمان میں کرتا ہے۔ ارسطو عقل میں اور یہ دونوں تصورات مغربی انسان کی اس بنیادی تقسیم کے اختلاف کو ظاہر کرتے ہیں جو مسیحیت اور یونانی فلسفے میں پائی جاتی ہے۔ خواہ بعد میں آنے والے فلسفیوں اور مفکروں نے اس خلیج کو پاٹنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی ہو۔
ایمان اور عقل دونوں انسانی ذہن کے دو بالکل مختلف اعمال ہیں‘ لیکن مسیحیت میں ایمان کی کیفیت ان مخصوص عقائد میں شدید ہو جاتی ہے کہ خدا کا بیٹا انسان بن گیا‘ مصلوب ہو اور پھر جی اٹھا اس مسئلے میں سینٹ پال جانتا ہے کہ اس کے مخالف صرف یونانی فلسفی ہی نہیں ہیں بلکہ صاحب ایمان عبرانی بھی اس میں شامل ہیں۔ سینٹ پال ہمیں بتاتا ہے کہ یونانیوں کے لیے مسیحیت حماقت ہے جب کہ عبرانیوں کے لیے ایک افسوس ناک واقعہ۔ اگر یونانی دانش کے طلب گار ہیں تو عبرانی نسانی یا معجزے کے یعنی وہ ایک ایسے معجزے کا ظہور چاہتے ہیں جو یقینی طور پرثبت کر دے کہ مسیح سچ مچ مسیح موعود تھے۔ صرف یہ عقیدہ کہ لامحدود خدا ایک محدود انسان میں ظاہر ہو‘ مسیحیت کا واحد عجوبہ نہیں بلکہ مسیح کا دوبارہ زندہ ہوجانا بھی ایک ایسا عقیدہ ہے جو پال کے ذہن پر سوار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ موت پر فتح پا لی گئی جو انجامِ کار ہر انسان کی خواہش ہے۔ یونانی عقل پرستی کے لیے یہ چیزیں کتنی ناقابل قبول ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے۔
مغربی تہذیب یونانیت اور عبرانیت کے ان متصاد رجحانات کا خلاصہ یہ ہے:
-1 عبرانیت کا مثالی انسان عدوِ ایمان ہے۔ یونانیت کا مثالی انسان عدوِ عقل ہے۔
-2 عبرانیت کا انسان گوشت پوست کا پورا آدمی ہے۔ عبرانیت‘ آفاقیت اور مجرد کی طرف نہیں دیکھتی۔ اس کا مرکز نظریہ محسوس‘ مخصوص‘ منفرد آدمی ہوتا ہے۔ یونانیت نے آفاقیت کو دریافت کیا۔ وہ مجرد اور لازمانی جواہر پر یقین رکھتی ہے‘ اس لیے مخصوص آدمیوں کی بجائے انسانیت پر زور دیتی ہے۔
-3 ان دونوں متضاد رجحانات کی کشمکش کے سبب مغربی تہذیب کبھی ایک وحد نہیں بن سکتی۔ اس میں اندرونی تضاد موجود ہے۔
-4 مغربی تہذیب کا تضاد مغرب کے پیدا کردہ ہر مسئلے میں موجود ہے اور خود مغرب یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اسے اس تضاد کو کس طرح حل کرنا ہے۔
ہمارے لیے ان باتون کا جاننا اس لیے اہم ہے کہ انہیں جانے بغیر ہم نہ مغربی تہذیب کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس کے ان اثرات کا تجزیہ کر سکتے ہیں جو اسلامی تہذیب میں پہلے فلسفۂ یونان کی آمد اور پھر اس کے بعد مغربی تہذیب کے اثر و نفوذ سے پیدا ہوئے ہیں۔