کون کہتا ہے کہ ڈرامے دراصل وہی دکھاتے ہیں جو عوام الناس پسند کرتے ہیں؟؟
میرا نو سالہ بیٹا حذیفہ لکڑی کے کچھ ٹکڑے لے کر انہیں جوڑنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ میں نے دیکھا تو پوچھا ’’کن چکروں میں ہو بیٹا؟‘‘ حذیفہ بولا ’’میری مدد کریں میں تلوار بنا رہا ہوں‘‘۔ میں سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنے گھریلو امور نمٹانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ وہاں سے گزری تو دیکھا کہ ٹھیک ٹھاک تلوار وجود میں آچکی تھی، اب حذیفہ اپنی چھوٹی بہن کے لیے تلوار بنا رہا تھا۔ ام ہانی اس سے کہہ رہی تھی ’’بھائی میرے لیے آلیار بے جیسی دو دھاری تلوار بنانا‘‘ کچھ ہی دنوں میں گھر میں ان گنت تلواریں اور تیر دکھائی دینے لگے۔ اور ساتھ ہی حی اللہ اور حق اللہ کی صدائیں بھی۔
بڑا بیٹا دستر خوان کے عین درمیان بیٹھ کر روٹی اٹھاتا ہے اور اس کا ایک ٹکڑا توڑ کر دائیں بیٹھنے والے کو اور ایک ٹکڑا بائیں بیٹھنے والے کو تھما دیتا ہے۔ باقی سب بھی اس کی تقلید کرتے ہیں اور میں ان سب کو دیکھ کر زیر لب مسکرا کر رہ جاتی ہوں۔
گھر میں کسی بچے سے کوئی کام کہوں تو سینے پر ہاتھ مارتا ہے سر کو خم دے کر حی ولا کہتا ہے اور تعمیل بجا لاتا ہے۔ میں یہ نظارے اس وقت سے دیکھ رہی ہوں جب سے ترکی کا مشہور تاریخی ڈراما ’’ارطغرل غازی‘‘ نشر ہونا شروع ہوا۔ اور مقبول عام ہوا۔ یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں۔ ہر طرف اس ڈرامے کی طرز زندگی، ثقافت اور کرداروں کے دلدادہ موجود ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی دیا جا سکتا ہے کہ اس ڈرامے کے کرداروں کے ساتھ عوام کی محبت کو بھانپتے ہوئے اب کپڑوں کے بہت سی مشہور برانڈز اپنی تشہیر کے لیے عوام میں زیادہ مقبول ہو جانے والے کرداروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کے بعد نہ صرف بچوں نے جسمانی طور پر فعال ہونا شروع کیا بلکہ دوسری طرف بہت سی معلومات بھی انہیں ملیں۔ اس سے قبل وہ بچارے ہاتھ میں موبائل پکڑے کسی گیم کے لاک ہائوس کو ان لاک کر کے ہی یہ سمجھتے تھے کہ جیسے انہوں نے بہت بڑا قلعہ فتح کر لیا ہو۔ اس ڈرامے میں انہوں نے فی الحقیقت قلعے فتح ہوتے دیکھے۔ غداروں کے سر قلم ہونے کے مناظر دیکھے۔ عظیم معرکوں سے آشنائی حاصل کی۔ چھوٹے بیٹے کی معاشرتی علوم کی کتاب میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ہونے والی غداری کا جبکہ وہ قلعے میں بند تھے۔ یقین کیجیے ساری فلم حذیفہ کی آنکھوں کے سامنے گویا گھوم رہی تھی اور اسے یہ سبق سمجھنے میں ذرا بھی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس ڈرامے میں مسلمانوں کی عظیم معاشرت کی بھرپور عکاسی ہوئی۔ دکھایا گیا کہ کس طرح وفا دار عورتیں اپنے جذبات و خواہشات کی قربانی دیتیں اور اپنے مردوں کی پشت پر کھڑی رہتی ہیں۔
تو کیا یہ پیمرا والے اور میڈیا پر بے سرو پا کہانیاں لانے والے ڈراما نگار درست کہتے ہیں کہ ’’ڈرامے وہی دکھاتے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں؟‘‘ ان کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ حقائق کا درست تجزیہ کریں۔ جو یہ ہے کہ مذکورہ بالا ڈرامے کے ذریعے جب عوام اپنے شاندار گم گشتہ ماضی اور عظیم الشان اسلامی اقدار وروایات سے واقف ہوئے تو اسی کے اسیر ہو گئے۔ کسی ایک گلی کوچے میں نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں اس نے آشنائی کی ایک نئی لہر پھونک دی۔ چھے ماہ قبل کی ایک بی بی سی رپورٹ کے مطابق ’’ڈریلیش ارطغرل کے یو ٹیوب پر پچاس ملین سے زائد ویوورز ہیں‘‘۔
میری ہمشیرہ بحیثیت استاد ایک سرکاری اسکول سے وابستہ ہیں، بتاتی ہیں کہ انڈین فلموں کی دلدادہ بہت سی ٹیچرز کو جو اکثر اسٹاف روم میں بیٹھ کر ان فلموں پر بے لاگ تبصرے بھی کرتیں، میں نے با اصرار ارطغرل غازی دکھایا اور پھر وہ باقاعدگی سے اسے دیکھنے لگیں۔ کافی دنوں بعد پوچھا کہ ’’کیسا رہا تجربہ؟‘‘ بیش تر ٹیچرز بولیں ’’واقعی اب تو انڈین فلموں کی مار دھاڑ بہت ہی بچکانہ لگتی ہے۔ حتی کہ ان کے ہیرو ہیروئنز بھی ایک دم تھرڈ کلاس‘‘۔ چنانچہ اگر ڈراموں کے کردار اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کرتے نظر آئیں تو ایک اسلامی معاشرے میں ایسے ڈرامے ’’سپر ڈپر ہٹ‘‘ ہو سکتے ہیں۔
ادھر اپنے یہاں کے ڈراموں کی نظریاتی زبوں حالی پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کے پیغامات ڈلیور کرنا چاہ رہے ہیں۔
ڈراما ’’ڈنک‘‘ میں دکھایا جا رہا ہے کہ ایک پروفیسر اپنی شاگردہ کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے اور پھر راز افشا ہونے کے خوف سے خود کشی کر لیتا ہے۔ ڈراما ’’دل نا امید تو نہیں‘‘ میں مکمل طور پر طوائف کلچر ہے۔ بے ہودہ مکالمے اور لباس، شراب نوشی و جسم فروشی دکھائی جا رہی ہے۔ ڈراما ’’مجھے خدا پر یقین ہے‘‘ یہ جادو ٹونے اور سفلی عمل کی کہانی ہے۔ لڑکی کو اپنا شوہر برا لگتا ہے اور وہ دوست کے شوہر پر اپنی ماں سے جادوئی عمل کروا کر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ایک اور ڈراما ’’فتور‘‘ میں شریف و سلجھے گھرانے کی لڑکی کا افیئر دکھایا جا رہا ہے جس میں وہ گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود لڑکے سے تعلقات رکھتی ہے۔ ’’رقص بسمل‘‘ میں دکھاتے ہیں کہ ایک گدی نشین ایک رقاصہ پر دل ہار دیتا ہے۔ اس میں دیندار لوگوں کا منفی کردار دکھایا گیا ہے۔
منتشر خیالی میں مبتلا عوام اور عدم استحکام کا شکار اس معاشرے کو اعلیٰ مقاصد اور بہترین نصب العین کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔ انہیں تعمیری سوچ دی جائے۔ شاہیں اور اس کی نسل سے اس کے بال و پر چھین کر اسے گِدھوں کا لباس نہ پہنایا جائے۔
ڈراموں میں دیے گئے پیغامات لوگوں کی سوچوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ان کے انداز گفتگو، چال ڈھال اور اطوار سب کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ آج ہمارے شاہین ہاتھوں میں ویوو vivo اور ٹیکنو تھامے بٹنوں سے ٹھک ٹھک کرنے کو ہی اصل جنگ سمجھ بیٹھے ہیں۔ مگر… وہ جنگ جو ہر جگہ درپیش ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے لوگوں کو برتر کاز بہتر مقاصد کے لیے تعمیر کرنے والا ہے کوئی ڈراما نگار؟؟ یا کوئی میڈیا کنٹرول اٹھارٹی؟