قسط نمبر 9
چائے تو بنتی تھی
ترک تاریخ کا یہ بیمار، مفلوج اور دل فگار پہلو تاریخی حقائق کی صورت ابھی اپنے در کھول رہا تھا کہ ٹرالیوں کے شور اور فضائی میزبانوں کی تیز آمد و رفت نے خیالات کا تسلسل توڑ دیا، اور طیب اردوان کے ہاتھوں ترک قوم کی مسیحائی کا دروازہ کھلنے سے پہلے ہی بند کردیا۔ معلوم ہوا کہ ہماری مہمان نوازی کا دوسرا فضائی مرحلہ درپیش ہے۔ اگرچہ کھانے کی طلب تو نہ تھی تاہم دل چاہ رہا تھا کہ ترکی کھانوں کا کوئی دوسرا ذائقہ میسر آجائے، مگر فضائی میزبان حسینہ نے بڑی برق رفتاری اور بے اعتنائی سے پانی کی ایک چھوٹی سی بوتل نشست کے سامنے ٹرے پر رکھ دی اور ہماری انتظار، مشتاق و طالبِ طعام نظروں کا لحاظ کیے بغیر آگے بڑھ گئی۔ ترکوں کی مہمان نوازی کا پہلا اثر تو زائل ہی ہوگیا یہ جان کر کہ ترکش ائرلائن کو اس جہازی سفر کے لیے ادا کردہ رقم میں بس ”پانی“ ہی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ہم سوچتے رہ گئے کہ چلو کھانا نہ سہی، حالانکہ دستورِ سفر بھی تھا اور وقتِ دوپہر کا تقاضا بھی اور مہمان کا حق بھی کہ کھانا فراہم کیا جاتا۔ چلو وہ نہ سہی تو ’’چائے تو بنتی تھی“، کم از کم وہی دے کر مہمان نوازی اور پاکستان دوستی کا بھرم رکھ لیا جاتا۔
حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟
ترکی کھانے یا چائے سے محرومی کے ’’صدمے“ سے ابھی نکلے نہ تھے کہ ’’باآبرو“ جہاز سے نکلنے اور انطالیہ کی کھلی فضائوں میں پہنچنے کی تیاری کی جانے لگی۔ الوداعی اعلانات شروع ہوگئے، معلوم ہوا کہ سفرِ مختصر مکمل ہوا اور جنتِ ارضی ہمارے جہاز کے پہیوں تلے ہے۔ ہم سوچنے لگے، اگر یہ سفر اتنا مختصر تھا تو ’’حکمِ سفر دیا تھا کیوں“! مگر یہ حکمِ سفر باغ و بہشت سے نکلنے کا نہیں، اس میں داخل ہونے کا تھا۔ سو ہم نے اس جنتِ ارضی کو جو اگلے دو دن ہماری عارضی جائے قرار تھی، جہاز کی کھڑکی سے نیچے جھانک کر مسلسل قریب تر ہوتے دیکھنے میں سفر کے الوداعی لمحات کو جہاں امر بنایا، وہیں ترکوں کی اس روکھی پھیکی آبی مہمان نوازی کے صدمے کو بھلانے میں صَرف کردیا۔ واہ کیا خوب صورت منظر تھا۔ ایریل ویو، فضائی منظر انطالیہ کا۔ دور دور تک سبزے سے ڈھکی اونچی نیچی پہاڑیاں، تاحد نظر نیلا، شفاف سمندر، بحیرۂ روم، خراماں خراماں محوِ سفر بادبانی کشتیاں، مضطرب و بے قرار پھڑپھڑاتے سرخ پرچم، شاید طوفان خیز ہوائوں کا مقابلہ کرتے یا ہمیں خوش آمدید کہتے۔ رنگ برنگی خوب صورت جدید عمارتیں، انگریزی حرف”C” کی شکل کا دو کونوں والا ساحل، جس کے دونوں کناروں پر روشنیاں بکھیرتے لائٹ ہائوس جو انطالیہ کی پہچان ہیں۔ ان روشنیوں کو ہم نے جہاز کی کھڑکیوں سے دن کے سنہرے اجالوں میں چشمِ تصور سے ہی دیکھا۔ روشنیوں کے یہ مینار ہمارے لیے تھے بھی نہیں۔ رات کے اندھیروں میں ساحل پر آنے جانے والے جہازوں کے راہنما ہمارے لیے بس ایک تاریخی مقام کی حیثیت اور سمندر کی رعنائی اور دل کشی میں اضافے کا ایک شاندار منظر تھے۔ انطالیہ کے دو کونوں والے اس مخروطی ساحل کے دونوں کناروں کے درمیان بحری جہازوں کی آبی گزر گاہ ہے جہاں قطار در قطار ترتیب سے لگے جہاز، موٹر بوٹس، ریستوران، ہوٹل ایک مسحور کن منظر دکھا رہے تھے۔ رات کو ان کی رنگ برنگی روشنیوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
انطالیہ کی جادوئی شام
ہر شام رات گئے تک برپا ہونے والی پریوں کے دیس ’’انطالیہ“ کی اس پُرکشش و ایمان شکن شام کے اترنے سے پہلے ہم جہاز سے اترے اور صدیوں پرانے روِمی و ترکی ماحول کا شکار ہوکر جوش و خرد گنوا بیٹھنے کے بجائے سامان اور جسم و جان کو سنبھال اور سمیٹ کر فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ اور اسی طرح کے چھوٹے اور محدود ائرپورٹ سے باہر نکلے۔ پہلے سے تیار تین مرسڈیز، جدید اور آرام دہ بسوں میں سے نمبر ایک بس میں سوار ہوکر ’’نمبر ون“ کے زعم میں سرشار ہوکر اپنے ترکی پروفیشنل گائیڈ مسٹر والکن کی سربراہی میں ائرپورٹ کی حدود سے باہر کھلی اور آزاد ترک فضائوں میں داخل ہوگئے۔
ترکی میں ہم سبز قدم تھے، سبز پرچم سینے پر سجائے اور سبز پاسپورٹ تھامے۔ مگر ہم محاوراتی ’’سبز قدم“ ہرگز نہیں تھے، بلکہ ترکیوں کے لیے اُن کے کاروبار، معیشت اور بالخصوص سیاحت کے لیے بڑے ’’خوش قدم“ بلکہ اہم تھے۔ سیاحت ترکی کا اہم اقتصادی و معاشی ہتھیار ہے، جسے ترکوں نے گزشتہ ایک دو سال میں خوب آمدن کا وسیلہ بنایا ہے۔ بڑے پیمانے پر ترکی کی سیاحت کو فروغ دینے کے اقدامات کیے گئے ہیں، اور دنیا بھر میں ترکی میں سیاحتی مقامات و امکانات کا تعارف کرایا گیا ہے۔
ترکی میں سیاحت کے فروغ میں حکومت اور قومی شعور و اتفاق کا بھی بڑا دخل ہے۔ انہوں نے سیاحت کو قومی صنعت کا درجہ دے کر مطلوبہ سہولیات فراہم کی ہیں۔ اعلیٰ وسائلِ سفر، بہترین راستے، عمدہ اور عالمی معیار کی قیام گاہیں یعنی ہوٹل تعمیر کیے گئے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا اعلیٰ نظام ترتیب دے کر ہر ترک کو اس کا شعور دیا گیا ہے۔ ہر گھر، بازار، دکان، شاپنگ پلازہ کو جدید سامان اور آرائش سے دل کش بنایا گیا ہے۔ ماحول اور بالخصوص سمندر کے پانیوں اور ساحلوں کو صاف رکھنے اور پُرکشش بنانے کے عملی قدم اٹھائے گئے ہیں۔ اس میں حکومت اور عوام دونوں ایک صفحے پر اور باہم متعاون ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں اور وسائل کا بڑا حصہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ قدم قدم پر دکھائی دیتا ہے۔ عوام اور حکومت کا یہ باہمی فکری و عملی اشتراک، تعاون اور اتحاد ہمارے سات روزہ سفرِ ترکی کا حاصل نکتہ ہے، اور اگر اسے پاکستانی قوم اور عوام کے نعروں، روّیوں اور سیاسی کارناموں کے پس منظر میں دیکھیں تو ہمارے لیے بہت تکلیف دہ اور باعثِ شرم بھی ہے اور قابلِ غور بھی۔
رَمادہ پلازہ ہوٹل
ائرپورٹ سے پنج ستارہ یعنی فائیو اسٹار ہوٹل کا فاصلہ مشتاق آنکھوں، محبت اور حسرت کے ملے جلے جذبوں اور تھکے ماندے جسم کے ساتھ بیس منٹ میں طے کیا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر نرم و گداز بستر پر دراز ہوئے۔ چند منٹوں کے ذہنی و جسمانی آرام کے بعد کمربستہ ہوئے اور سرزمینِ ترکی پر دوسری نماز کی ادائیگی کی تیاری شروع کردی۔ سفر کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم جیسے کچے پکے مسلمانوں کو قَصَر یعنی آدھی نماز ادا کرنا پڑتی ہے۔ عصر کا وقت نکل رہا تھا اور ہمیں سمتِ قبلہ نہیں مل رہی تھی۔ سارے کمرے کا بار بار جائزہ لیا۔ ہر کونا اور چھت چھان مارے مگر قبلہ کی سمت نہیں ملی۔ یوں تو ہر بڑے چھوٹے ہوٹل میں بالعموم سمتِ قبلہ کا کوئی نہ کوئی نشان اور جائے نماز مل ہی جاتے ہیں، مگر یہ جدید ترکی تھا، اسلامی ملک، جس پر کمال اتاترک کی جدیدیت اور لادینیت (سیکولرازم) کے اثرات ابھی تک گہرے تھے، اور سمتِ قبلہ کا کوئی نشان نہ ہونا بھی اسی جدیدیت کا شاخسانہ تھا۔ موبائل اپلیکیشن سے سمت معلوم کرنے کا وقت نہ تھا، نہ مجھے طریقہ آتا تھا، البتہ یہ معلوم تھا کہ اس صورت حال میں کسی طرف بھی رُخ کرکے نماز پڑھ لینے کی رخصت و ہدایت موجود ہے۔ ’’جہاں رُخ کرلو وہیں اللہ کو پائو گے“۔ مقصودِ الٰہی کسی خاص زمان و مکان کا مقید ہونا نہیں۔ اللہ کی طرف رخ کرنا اور اپنے جسم و عمل کو اس سے مربوط و منسوب کرنا ہے۔
کالی چائے اور سمندر کا کنارہ
چار مرحلوں پر مشتمل اس طویل سفر کا تقاضا تھا کہ آرام کیا جائے، مگر ہم ترکی اور وہ بھی انطالیہ کے سحر انگیز ماحول میں محض آرام کرنے تو نہ آئے تھے۔ کرنے کا کوئی اور معقول کام بھی نہ تھا۔ تو کمرے کے دروازے پر ہاتھ مارا۔ پردے ہٹائے تو سامنے وہی سحر انگیز منظر تھا جس سے بچ بچا کر ہم ائرپورٹ سے سیدھے اپنے کمرے میں پہنچے تھے۔ تاحدِ نظر نیلا صاف و شفاف پانی، بحر روم کا خوب صورت دو کونوں والا ساحل، بادبانی جہاز، فضا میں اترتے چڑھتے رنگ برنگے جہاز۔ طوروکسی پہاڑیاں اور اُن کے سرسبز و شاداب تختے، جلتی بجھتی مدھم روشنیاں، جن کا جادو کچھ ہی دیر میں چلنے والا تھا۔ ہم دونوں ہوٹل کی بالکونی میں پہلے سے موجود دو کرسیوں پر جا بیٹھے اور قریب و دور کے مناظر اپنی آنکھوں میں سمونے اور حافظے پر نقش کرنے لگے۔ ہمارے بائیں جانب بحر روم اور دائیں جانب کئی منزلہ رہائشی عمارات، وسیع پارک اور کشادہ راستے۔ ہر گھر کے باہر درخت، پودے اور بیلیں۔ سبزہ ہی سبزہ۔ ماحول میں نمی، خنک ہوا، آلودگی سے پاک فضا، ڈوبتے سورج کی کرنوں اور سمندر کی لہروں سے منعکس ہوتی سنہری روشنی۔۔۔ کیا دل فریب و دلکش منظر تھا، جو محسوس کیا جاسکتا ہے، لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔ ایسے ماحول میں چائے کی طلب شدید ہوگئی۔
ہوٹل میں موجود برائے فروخت اور برائے مفت استعمال سامان کا جائزہ لیا تو چائے بنانے اور پینے کی تمام ترغیبات موجود تھیں، لہٰذا چائے کا پانی گرم کیا، ساشے انڈیلا، مگر دودھ ندارد۔ کچھ سوچا تو اندازہ ہوا یہ پاکستانی ’’دودھیا“ چائے نہیں بلکہ ’’ترکی سیاہ قہوہ“ ہے، جو ترک معاشرت، تہذیب، مجلس اور ہر کھانے کا لازمی جزو ہے۔ بعد کے سات دنوں میں یہی ’’کالی کلوٹی چائے“ ہر جگہ پینے کو ملی۔ پہلے روز تو اِسے ”حکمِ ربی“ سمجھ کر قبول کیا اور پھر زبان اس کی عادی بلکہ طلب گار ہوگئی۔ سیاہ، میٹھے سمیت یا اس کے بغیر گول شیشے کے گلاس میں پینا ترک تہذیب کا نشان ہے۔ چائے پی کر ہوش کچھ ٹھکانے آئے تو یہ نشہ بھی دوچند ہو گیا کہ ہم Mediterranean Sea یعنی بحرِروم کے ساحل، ترکی کے ملک اور اس کے پانچویں بڑے اور تاریخی شہر انطالیہ کی سرزمین یعنی بہشتِ ارضی پر موجود ہیں، اور یہ وہی شہر ہے جسے 130 صدی عیسوی میں رومیوں نے اپنا مسکن بنایا اور اس کے ساحلوں کو گیٹ وے کے طور پر اختیار کیا۔
مغرب کی اذانوں کے ساتھ جو بیک وقت دور و قریب کی مساجد سے گونجنے لگیں، انطالیہ پر اندھیروں کا راج ہوگیا جسے لائٹ ہائوس اور شہر کی عمارتوں کی روشنیوں نے ڈسٹرب تو کیا مگر انہیں شکست نہ دے سکیں۔ البتہ روشنیوں کی چکاچوند سڑکوں، چوراہوں پر کم، ساحلِ سمندر کے جہازوں پر بڑھ گئی، جہاں رومی طرز کے میزبان اسی ماحول اور ضیافت کے ساتھ سیاحوں کے دل لبھانے میں مصروف تھے۔ ہم ہوٹل کی لابی میں جا پہنچے جہاں ایک طرف موسیقی کی دھنیں جاری تھیں تو دوسری طرف شراب سے متمتع ہونے کے مواقع بھی موجود تھے، اور اسٹالز پر خواتین کی جیولری اور شولڈر بیگز کی وسیع ورائٹی بھی موجود تھی۔ ایک دکان والے نے تو یہ جان کر کہ مسافروں اور سیاحوں کا تعلق پاکستان سے ہے، جھٹ ایک کارڈ بورڈ پر “I Love Pakistan” لکھ کر لگا دیا۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کا یہ واحد ’’دستاویزی“ اظہار تھا جو ہمیں ترکی میں نظر آیا۔ یہ محبت سے زیادہ ایک کاروباری ہتھکنڈہ تھا۔ مزید ایک دو جگہوں پر ہلکا پھلکا اظہارِ محبت دیکھنے کو ملا، مگر ویسا نہیں جس کی ہم خبریں سنتے تھے اور منتظر تھے۔
انطالیہ کی پہلی رات اور صبح
انطالیہ کی پہلی رات آرام کرنے اور پھر انواع و اقسام کے بیسیوں کھانوں پر مشتمل ’’بوفے ڈنر“ میں پیش کیے جانے والے کھانوں کی ماہیئت، لذت اور ناموں سے آگاہی میں گزری۔ نام بھی ہم یاد نہ رکھ سکے اور ذائقوں سے لطف بھی نہ اٹھا سکے۔ چاول، فرائز، نوڈلز، گوشت، سبزی، رنگ برنگی سلاد، قسم قسم کے میٹھے اور تازہ پھلوں کی کثرت و بہتات کے ساتھ نفاست سے پیش کش اور کورونا کے باعث حفاظتی مراحل اور کھانے کی تقسیم کے اہتمام نے خوب متاثر کیا۔ ہم نے ایک گول سی فرائیڈ چیز کی طرف اشارہ کیا۔ مختلف گولائیوں والی یہ چیز ہمیں اپنی سادگی کے باعث متوجہ کر گئی ’’جو چیرا تو قطرۂ خوں بھی نہ نکلا“ کے مصداق وہ آلو تھا جسے اُبال کر فرائی کیا گیا تھا۔
َ(جار ی ہے)