ناخدا

285

۔’’جی مسز ہاشمی! کچھ کریں اس کا علاج۔ یہ جو دو، چار خواتین عورتوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑانے لگی ہیں اس سے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔‘‘ اسلامک اسٹڈیز کی مسز بخاری اسٹاف روم میں بیٹھی سوشیالوجی کی مسز سبین ہاشمی سے تشویش کا اظہار کررہی تھیں۔
’’واقعی مسز بخاری! عورت فطرت سے نہیں لڑ سکتی۔ عورت کا عورت ہونے پر کیا شرمانا؟ وہ کسی بھی کلاس کی ہو، گھر کے خواب اُس کی آنکھوں میں رات دن بسے رہتے ہیں…ایک آزاد خیال عورت کی آنکھوں میں بھی۔‘‘ مسز ہاشمی نے بھی خاصی بے زاری کا اظہار کیا۔
’’بھئی ہمارے اردو ادب میں ترقی پسند افسانہ نگار چاہے کتنا ہی ہمیں تنقید کا نشانہ بنائیں، ہم گھر بچانے میں مصروف رہے ہیں۔ سُکھ، عزت اور تحفظ اس کے سوا کہاں ہے؟ اگر کہیں نظر آیا تو یہیں سے۔ آغاز ہوا ہے گھر سے۔‘‘ اردو کی مسز ضوویہ شاہ زیب نے بڑے پتے کی بات کی۔
’’واہ ضوویہ! تم بھی کیا مؤثر دلیل لائیں۔ واقعی عورت فطرت سے نہیں لڑ سکتی، نہ لڑنا چاہتی ہے۔ عورت کے حقیقی مسائل کچھ اور ہیں۔‘‘ زور شور سے جاری تبادلہ خیال میں اب سائنس کی لیکچرر بھی دلچسپی لینے لگیں۔
’’اور میری اکلوتی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے، میں دونوں بیٹوں سے کہتی ہوں کہ اگر مجھے دیر ہوجائے تو کھانا خود گرم کرلیا کرو۔ یہاں یہ نعرہ تو چلتا ہے ناں‘‘۔ کیمسٹری کی مسز توصیف ہنستے ہوئے بولیں تو اسٹاف روم کی فضا نسوانی قہقہوں سے گونج اٹھی۔
شعبہ سوشیالوجی کی ہیڈ مسز سبین ہاشمی بے اولاد تھیں، ابھی ان کی شادی کو چند سال ہی ہوئے تھے کہ ان کی بڑی نند سات سالہ بچے کے ساتھ طلاق کی ٹریجڈی کے ساتھ واپس آ گئی تھیں۔ اسکول ٹیچر تھیں، بچے کی ذمے داری اور دیکھ بھال میں ہاشمی صاحب اور مسز ہاشمی دونوں نے ہاتھ بٹایا۔ سب سے بڑھ کر اُن کا غم بانٹا، اور اپیا نے ان کی بے اولادی کا غم شیئر کیا۔ تینوں جاب پر اور بچہ اسکول میں ہوتا۔ وقت گزرتا گیا۔ اب شہیر 27 سال کا جوان تھا، ایم بی اے کرچکا تھا۔ ہاشمی صاحب اُن مردوں میں سے تھے جو بہن اور بیوی دونوں میں توازن رکھتے رہے اور دونوں کو جوڑے رکھا۔ اپیا اور ہاشمی صاحب ریٹائر ہوچکے تھے، مسز ہاشمی کالج میں سوشیالوجی پڑھاتی تھیں، سوشل کاموں میں مصروف رہتیں، گھرداری بھی چلاتیں۔ اخلاقی، سماجی اور دینی اقدار کو سرمایہ سمجھتی تھیں۔ بہرحال یہ ایک پُرسکون گھرانہ تھا۔ اب شہیر کی جاب لگنے اور اس کے سر پہ سہرا سجانے کی آرزو اپیا کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی، اور شہیر تو سب کو پیارا تھا… امی، ماموں اور مامی سب کو ہی۔
آج مسز ہاشمی کالج سے جلدی آگئی تھیں، اپیا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ بخار میں پڑی تھیں، اوپر سے ماسی رحیمہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔ برتن، جھاڑو پونچھا کچھ بھی نہیں ہوا۔ انہوں نے فریج سے کباب نکال کر گرم کیے اور سینڈوچ بنا کر اپیا کو دیے، ساتھ میں پھل بھی رکھ دیے۔’’ہاں سبین! آج صبح سے بخار کی وجہ سے کچھ نہیں کرسکی، بھائی بھی دوست سے ملنے گئے ہوئے ہیں، کتنا اچھا ہوا تم جلدی آگئیں۔‘‘
’’بس آپ کچھ کھا کر دوا لے لیں، اِن شاء اللہ ہاشمی صاحب شہیر کی جاب کی خوش خبری لے کر آئیں گے، کوئی راہ تو نکلے گی اپیا۔‘‘ وہ نند کو تسلی دے رہی تھیں۔ وہ چائے دَم پر رکھ رہی تھیں کہ ڈور بیل بجی، دروازہ کھولا تو رحیمہ سوجے ہوئے منہ کے ساتھ کھڑی تھی، ساتھ میں سہمی ہوئی اس کی بارہ سالہ بچی بھی تھی۔
’’ارے یہ کیا ہوا تمہیں؟ کہیں گر گئی تھیں کیا؟… اللہ خیر کرے، بتاؤ کیا ہوا؟‘‘ وہ اس کو کندھے سے پکڑ کر ساتھ بیٹھنے کا کہہ کر باورچی خانے کی طرف مڑ گئیں۔ رحیمہ ہچکیوں کے ساتھ دھاروں دھار رونے لگی۔
’’لو پہلے پانی پیو، سانس بحال کرو…‘‘ انہوں نے پانی کا گلاس بڑھایا۔
’’بس باجی ہمارے نصیب… گھر اور باہر دونوں جگہ کام کرو، بچوں کا ساتھ، اوپر سے مہنگائی بڑھے جارہی ہے۔ میں لڑکے کو پڑھانا چاہتی ہوں، وہ ابھی آٹھویں میں ہے کہ میاں اسے کام سکھانے کو کہہ رہا ہے‘‘۔ وہ ہچکیوں کے دوران کہتی گئی۔
’’مگر رحیمہ! تمہارا میاں تو نشہ نہیں کرتا، کام پر بھی جاتا ہے، پھر یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے سمجھ کر بھی جیسے سمجھنا چاہا۔
’’باجی! مردانگی کا نشہ ہی الگ ہوتا ہے۔ عزت کی روٹی اور سکون کی چادر‘ کمانے والی کو بھی نہیں ملتی۔ میں لڑکوں، لڑکیوں سب کو پڑھانا چاہتی ہوں، مگر اب اُس کا مطالبہ ہے کہ اپنے بھائی سے بول، بھاڑے پر گاڑی چلانے میں بڑی مصیبت ہے، وہ قسطوں پر رکشا دلوا دے، ویسے بھی تُو کیا جہیز لائی تھی! میں نے اتنا کہا کہ بچے تو تمہارے اپنے ہیں، دین محمد چار بازو اللہ نے دیے، بس میٹرک کروا دے، اُدھر بھائی کے بھی سات بچے ہیں، وہ آخر کہاں سے لائے گا؟ میں تو یہ نہیں کرسکتی، میں گھر بیٹھی تو نہیں، اپنے گھر کے ساتھ دوسرے گھروں میں کام کرتی ہوں۔ بس باجی اتنی سی بات پر ہتھے سے اکھڑ گیا کہ تُو زبان چلاتی ہے، اور میرے منہ پر طمانچے مارے‘‘۔ وہ سنبھلنے کے باوجود اب بھی رو رہی تھی۔ بارہ سالہ بچی بھی ساتھ روتی جارہی تھی جس کو مسز ہاشمی نے کل ہی یونیفارم اور چھٹی جماعت کا کورس لاکر دیا تھا۔ انہوں نے رکھے ہوئے سینڈوچ اور پھل اس کے سامنے رکھے۔
’’کچھ کرتے ہیں تمہارے لیے، تم حوصلہ مت ہارو، لیکن اللہ کا سہارا سب سے بڑا ہے، دین محمد کو اس سے ڈرنا چاہیے۔‘‘ وہ تسلی دے رہی تھیں۔یہ پاکستانی عورت کے حقیقی مسائل تھے۔
’’باجی! جوان ہوتے بچوں کے سامنے میرے منہ پر مارتا ہے۔ میں ابھی بڑی بہن کے گھر پر ہوں چھوٹے والے اور اِس بچی کے ساتھ۔ باقی بچے وہاں نجانے کس حال میں ہوں گے۔‘‘ ایک بیوی ہی نہیں، ایک ماں کتنی تذلیل سہہ رہی ہے، ایک ورکنگ وومن۔ مسز ہاشمی نے سوچا۔
حقیقت سے فرار میں بڑا مزا ہوتا ہے، مگر پھر جو بدمزگی کے پھل ملتے ہیں تو مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ گھاؤ کہیں چہرے پہ لگتا ہے، کہیں روح گھائل ہوتی ہے۔ کہیں جاہل کردار ہے، کہیں مہذب اور شریف ہوکر بھی جہالت کا انداز ہے۔ افراط و تفریط کے سنگم پہ ڈولتی یہ سوسائٹی اپنی اخلاقی، سماجی اور مذہبی اقدار کو بھلاکر کتنی پسماندہ ہے،کتنی زوال پذیر۔ مسز ہاشمی کا ذہن تجزیہ کررہا تھا، حق اور باطل کے فرق کو سمجھ رہا تھا۔
’’رحیمہ! میں تمہارے گھر آکر دین محمد کو سمجھاؤں گی کہ تم اُس کے بچوں کی ماں ہو، تم اگر بکھر گئیں تو پورا خاندان بکھر جائے گا، سب کچھ جنگل کے ماحول سے بدتر ہوگا۔ ارے تم تو برابری کا سوال نہیں کرتیں، اُس کے پیچھے چلتی ہو۔ اُس سے کہوں گی کہ خدا کو مانے جو تمہارا، ہمارا اور اُس کا بھی رب ہے۔ وہ آخر کیا چاہتا ہے؟‘‘
مرد کو ناخدا کا درجہ خدا نے دیا ہے۔ اس خدا کی چاہت کیا ہے؟ ناخداؤں کو اس پہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ صنفِ قوی اُس قوی خدا کے ہاتھوں میں ہے جو قوی الجثہ چٹانوں کو پل میں ریزہ ریزہ کرسکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔

حصہ