۔(یہ مضمون مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے دو مضامین’معراج کی رات‘ اور ’معراج کا سفر نامہ‘ کی تلخیص ہے)۔
جب نبی مکرم ﷺ منصب نبوت پر سرفراز ہوئے تو اس وقت سے اہل اسلام نے وقت کا حساب کتاب رکھا۔ نبوت کے بعد جو سال آئے انہیں نبوی سال کہا جاتا ہے۔حضور کی عمر ۵۲سال ہو چکی تھی اورنبی بننے کے بعد۱۲؍ سال گزر چکے تھے ۔اسی سال کے ساتویں مہینہ رجب کی ۲۷؍ تاریخ تھی۔ رسول اللہ ﷺحرم کعبہ میں سو رہے تھے۔ جبرئیل ؑ نے آکر آپ کو جگایا۔ کچھ خواب اورکچھ بے خوابی کی حالت میں حضور کو زمزم کے پاس لے گئے، سینہ چاک کیا، زمزم کے پانی سے اُس کو دھویا اور پھر اُسے حلم،بُردباری،دانائی، ایمان اور یقین سے بھر دیا۔اِس کے بعد سواری کے لئے ایک جانورپیش کیا جوخچر سے کچھ چھوٹا سفید رنگ کا تھا۔بجلی کی رفتار سے وہ چلتا تھا۔ جب حضور ﷺ اُس پر سوار ہوئے تو وہ چمکا۔جبرئیل ؑ نے اُسے تھپکی دی اور کہا کیا کرتا ہے۔ آج تک اِن سے بڑی کسی شخصیت نے تیری سواری نہیں کی۔اِس سواری کو عام طور سے براق کہا گیا ہے۔اِس پر سوار ہو کر حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ نبی مکرم ﷺ روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے مدینہ پہنچے اور وہاں پہنچ کرنماز ادا کی۔ جبرئیل ؑ بولے آپ یہاں ہجرت کر کے آئیں گے۔وہاں سے چلے تو طور سیناپر پہنچے جہاں موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ سے باتیں کیا کرتے تھے۔پھر وہاں سے روانہ ہوئے تو بیت لحم پہنچے جہاں عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔پھر چوتھی منزل بیت المقدس آئی جہاں پر براق کا سفر ختم ہو گیا۔
یہاں آپؐ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو اُن سب پیغمبروں کو موجود پایا جو شروع سے آخر تک دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔آپ نے وہاں امامت کی اور تمام نبیوں نے آپ کی امامت میں نماز پڑھی۔اسی بنیاد پر آپؐ کو امام الانبیاء کہاجاتا ہے۔اِس کے بعد ایک سیڑھی لائی گئی جس پر چڑھ کر آپ آسمان پر پہنچے۔ سیڑھی کو عربی میں معراج کہتے ہیں۔ اِسی وجہ سے یہ واقعہ معراج کے نام سے مشہور ہوا۔اِس واقعہ کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں ہے۔سورہ بنی اسرائیل کا ایک نام سورہ اِسراء بھی ہے۔معراج کا واقعہ ایک معجزہ ہے لیکن قرآن نے اِس واقعہ کو کہانی کہنے کے لئے نہیں سنایا ہے بلکہ سورہ اِسراء میں جو ہدایات دی گئی ہیں، اُن پر توجہ دینے اور اُن کو سمجھ کر اُن پر عمل کرنے کو کہا ہے۔اس سورہ کی ہدایات کی تفصیل یہ ہے:۔
(۱)صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اس کی بادشاہت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ یہ شرک ہے اور شرک کسی قیمت پر معاف نہیں ہوگا۔
(۲)خاندانی رشتے داری کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے۔ اولاد والدین کی فرماں بردار رہے اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مددگار بنے رہیں۔حدیث رسول ہے کہ رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
(۳)سماج میں جو لوگ مفلس اور معذور ہیںیا جو وطن سے دور ہیں ان کو بے سہار ا نہ چھوڑ دیا جائے۔ان کی طرف سے غافل نہیں رہا جائے۔
(۴)دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔
(۵)لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں۔ نہ بخیل بن جائیں اور نہ فضول خرچ۔ اپنے مال سے بندگان خدا کا حق نکال کر اُن تک پہنچائیں۔
(۶)اپنے بندوں کے رزق کا جو انتظام اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اُس پر قناعت کریں اور اُس کے نظام میں مصنوعی یعنی غلط اور حرام کی کوشش کر کے خلل نہ ڈالیں۔
(۷)روزی کی کمی کے ڈر سے بچوں کی پیدائش کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔پہلے، اب اور بعد میں آنے والی تمام مخلوق کا رازق اللہ ہے ، انسان نہیں۔
(۸)خواہش نفس کے اثر میں آ کر زنا نہ کر بیٹھیں۔اِس سے سخت پرہیز کیا جائے اور جن چیزوں سے اِس برائی کی تحریک پیدا ہوتی ہے اُن پر بھی لگام لگائی جائے۔
(۹)انسانی جان کا احترام کیا جائے اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کیا جائے۔انسان پر اپنی جان لینا بھی حرام ہے۔
(۱۰)یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے۔جب وہ اس لائق ہو جائیں کہ اپنا بھلا برا سمجھنے لگیں تو اُن کا مال اُن کے حوالے کر دیا جائے۔
(۱۱)عہد و پیمان کو پورا کیا جائے۔ خدا کے سامنے اِس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔
(۱۲)تجارت میں ناپ تول میں احتیاط رہے۔پیمانے پورے بھرے جائیں۔
(۱۳)وہم و گمان سے بچاجائے۔ جس چیز کا علم نہ ہو اُس کی پیروی کرنا غلط ہے۔ اللہ کے سامنے انسان کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔
(۱۴)تکبر اور غرورکی چال نہ چلو۔تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑ کو روند سکتے ہو۔
معراج کے سفر کی تفصیل قرآن میں موجود نہیں ہے۔معراج کے اس سفر کی تفصیل حدیثوں میں ملتی ہے۔۲۸ ؍ایسے راوی ہیں جنہوں نے معراج کے سفر کی تفصیل بتائی ہے۔اُن میں سے ۲۱؍ وہ ہیں جنہوں نے خود اپنے کان سے یہ باتیں نبی مکرم ﷺ کی زبانی سنی ہیں۔اِن حدیثوں کے حوالے سے یہ ایک نہایت دلچسپ، حیرت انگیز اور نصیحت و عبرت سے لبریز سفر نامہ بنتا ہے جو اِس طرح ہے:۔
(۱)سیڑھی کے ذریعہ پہلے آسمان پر پہنچے تو پوچھا گیا کون آیا ہے۔جبرئیل ؑ نے بتایاکہ محمد ﷺ آئے ہیں اور اپنا نام بھی بتایا۔پوچھا گیا کیا بلایا گیا ہے۔ جواب دیا ہاں۔ تب پہلے آسمان کا دروازہ کھلا۔وہاں حضور ﷺ کی ملاقات فرشتوں اور اُن روحوں سے ہوئی جو دنیا میں صالح اورنامور لوگ تھے۔پھر حضرت آدم ؑ سے بھی ملاقات ہوئی۔
(۲)حضورؐ نے دیکھا ، ایک جگہ لوگ فصل کاٹ رہے ہیں۔جتنی کاٹتے ہیں اُس سے زیادہ وہ بڑھ جاتی ہے۔پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیامیں اللہ کی راہ میں جہاد کیا کرتے تھے۔
(۳)دیکھا کہ کچھ لوگوں کے سر کچلے جارہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کہاگیا یہ ایسے سر والے ہیں جن کے سر دنیا میں نماز کے لئے سجدے میں نہیں جاتے تھے۔
(۴)کچھ لوگ دکھائی دیے جن کے کپڑوں میں آگے پیچھے پیوندتھے اور وہ مویشی کی طرح گھاس چر رہے تھے۔پوچھا یہ کیاہے ؟ جواب ملا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالا کرتے تھے۔
(۵)دیکھا کہ ایک آدمی نے لکڑی کاگٹھر جمع کر کے اٹھاناچاہا مگر اٹھا نہ سکا۔ اُس نے اِس گٹھر میں اور لکڑیاں جمع کر لیں اور بار بار یہی کرتا رہا۔پوچھا یہ کون احمق ہے ؟ جواب ملا یہ دنیا کا وہ آدمی ہے جس کو ایک ذمہ داری دی گئی تو وہ اسے ٹھیک سے ادانہ کر سکا ۔اور شوق میں دوسری بہت سی ذمہ داریاں لیتا چلا گیا۔
(۶)دیکھا کچھ لوگوں کی زبان اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ ایسے مقرر ہیں جو اپنی زبان سے غیر ذمہ دارانہ باتیں کہتے تھے اور فتنے پھیلاتے تھے۔یعنی لوگوں کو آپس میں لڑاتے تھے۔
(۷)دیکھا ایک چھوٹے سوراخ سے ایک موٹا بیل نکلا اور پھر اُسی سوراخ میں جانے کی کوشش کرنے لگا۔ پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا گیا یہ اُس آدمی کی مثال ہے جس نے اپنی زبان سے ایسی بات کہہ دی جس پر پچھتایا اور اُس کی تلافی کرنا چاہا مگر نہ کر سکا۔
(۸)ایک جگہ دیکھا کچھ لوگ اپنا ہی گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا معاملہ ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر لعنت ملامت کیا کرتے تھے۔
(۹)وہیں پر کچھ لوگ تانبے کے ناخن والے تھے اور وہ اپنے ان ہی ناخنوں سے اپنے منہ اورسینے نوچ رہے تھے۔ پوچھا یہ کیاہورہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے پیٹھ پیچھے اُن کی برائیاں کیا کرتے تھے۔
(۱۰)دیکھا کچھ لوگوں کے ہونٹ اونٹوں جیسے ہیں اور وہ آگ کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جویتیموں کا مال ناجائز طور پر کھایا کرتے تھے۔
(۱۱)دیکھا کچھ لوگ پیٹ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور اُن کے پیٹ میں سانپ بھرے ہوئے ہیں۔ پوچھایہ کون لوگ ہیں ؟ کہا گیا یہ دنیا میں سود کھایا کرتے تھے۔
(۱۲)ایک جگہ دیکھا ایک طرف عمدہ نفیس گوشت رکھا ہوا ہے اور ایک طرف سڑا ہوا گوشت رکھا ہے۔ کچھ لوگ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ مردا ور عورتیں ہیں جو اپنی بیویوں اور شوہروں کوچھوڑ کر دوسری عورتوں اور مردوں کے ساتھ حرام کاری کیا کرتے تھے۔
(۱۳)ایک جگہ دیکھا کچھ عورتیں چھاتیوں کے بل لٹک رہی ہیں۔ پوچھا یہ کیا ماجرا ہے ؟ کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں کے سرایسے بچے منڈھ دیے جو اُن کے نطفے سے پیدا نہیں ہوئے تھے۔
وہاں سے چل کر نبی کریم ﷺ دوسرے آسمان پر پہنچے۔ وہاں نبی کریم ﷺ کی ملاقات یحییٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ سے ہوئی۔تیسرے آسمان پر پہنچے تو یوسفؑ سے ملاقات ہوئی۔چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی۔چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی۔ساتویںآسمان پر پہنچے تو اپنی ہی شکل کے آدمی سے ملاقات ہوئی۔ بتایا گیا یہ حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ پہنچے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے آگے کسی مخلوق کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔اسی مقام پر بار گاہ الٰہی سے ہدایات آتی ہیں اور وہاں سے زمین والوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔اس مقام پر رسول اللہ ﷺ کو جنت دکھائی گئی۔وہاں پر حضرت جبرئیل ؑ رک گئے اور حضور ﷺتنہا آگے بڑھے یہاں تک کہ بارگاہ رب العالمین تک پہنچ گئے۔اللہ تعالیٰ نے ان سے باتیں کیں اوریہ سب تحفے دیے:۔
(۱)روزانہ پچاس وقت کی نماز فرض کی گئی۔
(۲)سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں اسی موقع پر عطا ہوئیں۔
(۳)فرمایا گیا کہ جو نیکی کا ارادہ کرے گا اُس کے حق میں ایک نیکی لکھ لی جائے گی۔ جب اُس ارادے پر عمل کرے گا تو دس نیکیاں ملیں گی۔ جو برائی کا ارادہ کرے گا تو جب تک اُس پر عمل نہ کرلے اس کے نامہ اعمال میں برائی لکھی نہیں جائے گی۔ اور برائی کرنے پر صرف ایک بدی ہی لکھی جائے گی۔
وہاں سے واپس ہوئے تو پھر موسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہا کہ آپ کی امت کمزور ہے پچاس وقت کی نماز ادانہ کر سکے گی۔جائیے کم کرائیے۔ حضورؐ واپس گئے اور خدا وند عالم سے نماز کم کرنے کی درخواست کی۔دس نما ز کم کر دی گئی۔ موسیٰ ؑ نے کہا یہ بھی زیادہ ہے۔ آپ پھر گئے۔ اسی طرح پچاس نمازیں کم ہوتے ہوتے پانچ پر آ گئیں۔کہا گیا کہ نمازیں تو لوگ پانچ وقت ہی پڑھیں گے لیکن اجر و ثواب ان کو پچاس وقت کی نمازوں کا ملے گا۔
اللہ نے جن کو ہدایت دی وہ واقعہ معراج پر ایمان لے اآئے اور جو ہدایت سے محروم رہے سوچتے ہی رہ گئے۔ آج بھی بے شمارلوگ ایسے ہیں جو واقعہ معراج کو بیان تو کرتے ہیں لیکن اس سے وہ سبق حاصل نہیں کرتے جو اس کا مقصود ہے۔