گھر اور عورت کا کردار؟۔

657

اصغر صاحب اپنے چھوٹے سے شہر کے ایک معروف اور دولت مند شخص تھے۔ آس پاس سب انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، لیکن ان کے گھر کے اندر کے حالات کوئی تسلی بخش نہ تھے۔ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اور ہر ناکام شخص کی تباہی یا ناکامی میں بھی کسی عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ یہی حال اصغر صاحب کے گھرانے کا تھا۔ رشیدہ بچوں کو حد سے زیادہ لاڈ پیار تو دے رہی تھی لیکن ان کی تربیت کے معاملے میں بالکل کوری تھی۔ اصغر صاحب کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ وہ بچوں کی تربیت میں اپنا حصہ بھی ڈال سکیں۔ بچپن تو گزر ہی جاتا ہے، جوانی میں بچوں کے اصل ’’گر‘‘ اور صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ بچے جوان ہوئے تو اپنی من مانی کے مطابق زندگی گزارنے لگے۔ کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ بہنوں میں بھی اکثر تُو تُو مَیں مَیں رہتی۔ ماں اکثر ایک کا ساتھ دیتی اور دوسری کو نظرانداز کرتی۔ نتیجتاً بہنوں میں بھی اُس اٹوٹ محبت کا فقدان تھا جو بچپن کو یادگار بناتی ہے۔ بھائی بہنوں میں اتفاق و محبت کی جو فضا گھروں کو روشن کرتی ہے، یہ گھرانہ اس سے محروم تھا۔ گھر میں بھابھی آئی، اس کے ساتھ بھی کسی کی نہیں بنی۔ لہٰذا چند ہی سال میں وہ گھرانہ جو محلے میں خوشحالی کی وجہ سے مرکزِ نگاہ تھا وہاں ویرانی کے سائے منڈلانے لگے… باپ کے انتقال کے بعد ان کی بچی کھچی دولت کو دونوں بھائیوں نے دھوکے سے ہتھیا لیا، باقی سب منہ دیکھتے رہ گئے… اس طرح اس گھرانے کا شیرازہ عورت کی وجہ سے بکھر گیا۔
٭…٭
نسیمہ کی شادی اپنے ایک کزن سے ہوئی جو پڑھا لکھا اور شاندار شخصیت کا مالک تھا، جبکہ نسیمہ ایک غریب گھرانے کی سیدھی سادی لڑکی تھی۔ شادی کے بعد اس نے نوٹ کیا کہ اس کی شادی سے اس کا شوہر اور خاص طور پر نندیں زیادہ خوش نہیں، جس کا اظہار اکثر نندوں کی گفتگو سے ہوتا تھا۔ گرچہ نسیمہ کی عمر بہت چھوٹی تھی لیکن وہ ہر ممکن طریقے سے گھر والوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی۔ اسے ڈھنگ سے کھانا بنانا بھی نہیں آتا تھا، نہ اسے بننے سنورنے کا ڈھنگ آتا… نندیں جو اچھے گھرانوں میں بیاہی گئی تھیں وہ چاہتیں تو اسے سنوار سکتی تھیں، لیکن سوائے طنز و نکتہ چینی انہیں اس سے کوئی سروکار نہ تھا، اسی لیے وہ اداس رہنے لگی… آخر اس کے پڑوس میں رہنے والی ایک نیک دل خاتون نے اس کے حالات دیکھے تو اس کی طرف خاص توجہ دی۔ خالہ مہرالنساء نے نسیمہ کو سمجھایا کہ تمہارے حالات کو اس نہج پر پہنچانے میں زیادہ ہاتھ تمہارا ہی ہے۔ تمہارا شوہر اور سسرال والے نہ صرف خوشحال بلکہ سلیقہ مند بھی ہیں، جبکہ تم میں اس چیز کی کمی ہے۔ وہ باتیں جو تمہارے سسرال والوں اور شوہر کو پسند ہیں تم ان سے اپنے آپ کو آراستہ کرو۔ گرچہ یہ اتنا آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔
خالہ مہرالنساء کی رہنمائی میں نسیمہ نے اوڑھنے پہننے کا سلیقہ سیکھا… اس نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، فرصت میں بیٹھ کر اس نے اردو پڑھنے کی بھی کوشش کی تو اسے کافی کامیابی ہوئی۔ نت نئے کھانے بنانے کے طریقے سیکھنے کے بعد اس نے اپنی طرف سے ان کھانوں کے طریقوں میں ردوبدل کرکے نئے نئے طریقے سیکھ لیے۔ اب نندیں آتیں تو دسترخوان پر نئی نئی ڈشز دیکھ کر حیران ہوجاتیں۔ گھر بھی صاف ستھرا، سلیقے سے سجا سنورا رہنے لگا۔ شوہر کی خدمت میں تو پہلے بھی کوئی کمی نہ آنے دی تھی، لیکن اس تبدیلی کی وجہ سے نسیمہ اپنے شوہر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اُس نے وہ تمام خوبیاں اور عادتیں اپنالیں جو اس کے شوہر کو پسند تھیں۔ بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تعلیم و تربیت میں بھی شوہر کی خواہش اور پسند کو مدنظر رکھا… رب العالمین کسی کی محنت و کوشش کو رائیگاں نہیں کرتا، نسیمہ کی محنت اور خلوص کو بھی اللہ نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس طرح محب اور نسیمہ کا گھرانہ نہ صرف خوشحالی بلکہ راحت و سکون کا گہوارا بن گیا۔
٭…٭
یہ ایک حقیقت ہے کہ گھر کو سنوارنے اور بگاڑنے میں عورت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ میں بچپن سے اپنی ایک عزیزہ کو دیکھتی آرہی تھی۔ گھر میں غربت تھی لیکن اُنہوں نے اپنے آشیانے کو اس طرح سمیٹے رکھا کہ ان کو اس دنیا سے گئے بہت وقت گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ان کی اولاد میں ان کی پرچھائیاں موجود ہیں۔
ان سطور کے ذریعے یہ بات کہوں گی کہ عورت جو اس معاشرے کا اہم فرد ہے، وہ نہ صرف معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے بلکہ اپنے گھر کی بنیادوں کو مضبوطی سے تھامے رکھ سکتی ہے اگر وہ مثبت سوچ و عمل کی حامل ہو۔ بہت سی خواتین گھروں کو بظاہر سنوارنے میں ماہر ہوتی ہیں، کھانا بھی بہترین بنا لیتی ہیں لیکن اپنا گھروندہ سنبھالنے میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، گھر کے افراد کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتیں، جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بے شک گھر کو مستحکم کرنا اور بنانا مرد و عورت دونوں کی ذمہ داری ہے اور دونوں کا کردار اہم ہے، لیکن عام طور پر میں نے ان ہی گھروں کو مستحکم، منظم اور پائیدار دیکھا ہے جہاں عورت نے اپنا کردار مثبت طریقے سے انجام دیا ہو، چھت تلے رہنے والے ہر فرد کے فرائض و حقوق کی پاسداری کے ساتھ انکسار، درگزر، خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا ہو۔ میری والدہ اکثر کہتی تھیں کہ بعض اوقات دوسروں کی خاطر گھر کو مستحکم کرنے اور بسانے سنوارنے کے لیے عورت کو اپنی ذات کی نفی کرنی پڑتی ہے۔ قربانی، ایثار اور سمجھوتے کی صلاحیتوں سے وہ اپنے آشیانے کو ’’گھر‘‘ بناتی ہے… ایسی ہی خوبیوں کی مالک عورت اپنا ہرکردار ’’حکم الٰہی‘‘ سے بخوبی انجام دے پاتی ہے۔ خصوصاً ماں کے روپ میں ایسی عورت اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کو اہم فریضہ سمجھتے ہوئے ہر قدم اٹھاتی ہے۔ ایسی مائوں کی گود میں پرورش پانے والی بچیاں دوسرے گھر جاکر اسے اپنا گھر بناتی ہیں اور سب رشتوں کو خوش اسلوبی سے نبھاتی ہیں۔ ایسی مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت بھی اس طرح کرتی ہیں کہ آگے چل کر وہ معاشرے کے لیے مثبت سوچ و عمل کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اپنے آس پاس کے تمام رشتوں کے ساتھ انصاف کا برتائو کرسکیں۔
ہمارے سامنے مسلمان خواتین صحابیات اور امہات المومنین کی مثالیں موجود ہیں جو اپنے گھر اور گھر والوں کی ذمہ داری کو اپنا فرض سمجھ کر نبھاتی تھیں۔ حیا و شرم کے احاطے میں سب کے حقوق ادا کرنا اپنا فرض سمجھتیں، کسی کمی بیشی پر شکوے کے بجائے شکر بجا لاتیں۔ شوہر اور اولاد کے علاوہ دوسرے رشتوں کا احترام کرنا بھی اپنا فرض سمجھتیں۔ حضرت فاطمہؓ کے حجرے میں جب بھی حضرت علیؓ کی والدہ ماجدہ آتیں تو ادب سے اٹھ کر کھڑی ہوجاتیں اور انہیں ’’میری ماں‘‘ کہتیں… حضرت علیؓ سے ناراضی کو طویل نہ دیتیں۔ اور سبحان اللہ، والدین بھی ایسے کہ آج کے والدین اگر اُن کے نقشِ قدم پر چلیں تو کسی گھرانے میں ’’دراڑ‘‘ پیدا نہ ہو۔ کسی موقع پر حضرت فاطمہؓ سے حضرت علیؓ کے متعلق شکوہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علیؓ جیسا کوئی مرد ہی نہیں‘‘… بے شک ایک گھر کی چھت تلے رہنے والے کسی معاملے میں اتفاقِ رائے نہ رکھتے ہوں لیکن گھر کی فضا کو معطر رکھنے کے لیے معاملے کو افہام و تفہیم سے سلجھایا جاسکتا ہے… اپنے فیصلوں میں دوسروں کی رائے کو مدنظر رکھ کر لچک پیدا کرنا کمزوری نہیں بلکہ سمجھ داری ہے۔ میری ایک عزیزہ جو بہت نفاست پسند شخصیت کی مالک ہیں اور نہایت سمجھ دار اور عقل مند بھی ہیں، ایک دن کہنے لگیں ’’شکر ہے میرا کوئی بیٹا نہیں، میں تو ایک چمچ اِدھر سے اُدھر ہوجائے تو بیٹیوں پر ناراض ہوجاتی ہوں، اگر بہو آتی تو کس طرح نباہ ہوتا؟‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’آپ جس طرح کی شخصیت کی مالک ہیں اگر گھر میں بہو آجاتی تو آپ اپنی شخصیت میں لچک پیدا کرلیتیں تاکہ آپ کا گھرانہ مستحکم ہوسکے (کیونکہ انہوں نے نہایت محنت، بردباری اور افہام و تفہیم سے اپنی زندگی گزاری ہے)۔
بے شک تعلیم کی بڑی اہمیت ہے، لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ عورت ذات میں دوسری خوبیوں کا ہونا بھی لازمی امر ہے، جس کی بنا پر وہ اپنے پورے کبنے کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہونے، ضد اور انا کا مسئلہ بنانے سے گھر میں نااتفاقی اور ناچاقی پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کو عورتوں کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ اپنی اخلاقی خوبیوں کی بدولت وہ سامنے والے کو بدلنے کی بھی طاقت و صلاحیت رکھ سکتی ہیں۔ گھر کا ہر فرد اگریہ سمجھے کہ ضروری نہیں کہ سامنے والے میں ہی خامیاں ہیں، ہوسکتا ہے مجھ میں بھی بہت سی خامیاں ہوں، جس طرح میں درگزر کررہا ہوں (یا کر رہی ہوں) سامنے والا بھی میری خامیوں پر درگزر کررہا ہوگا۔ اس مثبت سوچ سے گھر میں امن و سکون کی فضا جنم لیتی ہے۔
میرے بارے میں اگر لوگ کہتے ہیں کہ میں ایک اچھی ساس ہوں، تو مجھے بھی اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ میری بہوئیں بھی اچھی بہوئیں ہیں… ایسی ہی سوچ اور عمل سے خاندان مستحکم ہوتے ہیں۔

حصہ