بی اماں مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی والدہ، رام پور کی رہنے والی تھیں۔ ان کا نام آبادی بیگم تھا۔ 1852ء میں پیدا ہوئیں۔ تاریخ میں وہ ’’بی اماں‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ وہ ایک سچی مومنہ تھیں۔ انہوں نے اسلامی حمیت، جرأت، بے خوفی، ایثار و قربانی اور جذبۂ حریت کے جو نقوش تاریخ میں چھوڑے ہیں اس سے ان کا نام تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
بی اماں کے بارے میں نورالصباح بیگم (تحریک پاکستان کی راہنما) لکھتی ہیں کہ ’’بی اماں صرف قرآن شریف اور اردو پڑھنا جانتی تھیں جو اُس دور میں عورت کے لیے بہت بڑی چیز تھی۔
ان کی شادی کم عمری میں رام پور کے عبدالعلی خان سے ہوئی تھی۔ بی اماں کے والد 1857ء کی جنگ ِآزادی میں بھرپور طور پر شریک ہوئے تھے۔ ان کے شوہر وہاں کے ایک معزز شخص تھے۔ بی اماں کے شوہر کا انتقال ہوا تو بچے چھوٹے تھے۔ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی، دو بیٹوںکا انتقال ہوگیا۔ دو بیٹوں شوکت علی اور محمد علی جوہر نے انگریزی اقتدار سے ٹکر لی۔ انہوں نے اس راستے میں سختیاں جھیلیں۔ ریاست رام پور نے برطانوی ہند کی حکومت کی خوشنودی کی خاطر ان کی تمام جائداد ضبط کرلی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی مسلمان عورت یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ مسلمانانِ ہند کی آزادی کیا چیز ہے۔ ایسے دور میں رام پور جیسے قدیم الخیال لوگوں کے درمیان بی اماں اپنے انفرادی کردار کے باعث حیرت انگیز طریقے سے سامنے آئیں۔‘‘
انہیں تحریکِ آزادیِ مسلمانانِ ہند کی پہلی مجاہد خاتون کی حیثیت سے تاریخ میں جگہ ملی۔ بی اماں کے بیٹے جب جیل میں ڈال دیے گئے تھے تو انہوں نے برقع پہن کر ایک بڑے اجلاس کی صدارت کی۔ جب وہ دونوں ’’چھندواڑے‘‘ میں نظر بند تھے تو بی اماں وہاں موجود تھیں۔ حکومت کے لوگ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کے پاس ایک ٹائپ شدہ معافی نامہ لے کر آئے کہ وہ ان پر دستخط کردیں۔ بی اماں دوسرے کمرے میں بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھیں، اُن کو خیال ہوا کہ کہیں ان کے بیٹے دستخط نہ کردیں، انہوں نے بے تابی سے محمد علی کو پکارا۔ وہ آئے کہ نہ معلوم ماں کیا کہنا چاہتی ہیں؟
بی اماں بولیں ’’تم دونوں بھائی معافی نامے پر دستخط نہیں کرو گے، اور اگر تم نے دستخط کردیے تو میں نہ تمہارا دودھ بخشوں گی، نہ تمہاری شکل دیکھوں گی، نہ تم کو کبھی گھر کے اندر گھسنے دوں گی، ذلت کی آزاد زندگی سے جیل کی کوٹھری ہزار درجہ بہتر ہے جہاں انسان کا وقار قائم رہے۔‘‘
بی اماں نے 30 دسمبر 1921ء کو آل انڈیا لیڈیز کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ہر مذہب کی خواتین شریک تھیں۔ انہوں نے اس میں کہا کہ ’’بہنو! خدا کا قانون مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے، قومیں مردوں اور عورتوں دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ملک کے لیے جو فرائض مردوں پر عائد ہوتے ہیں وہی عورتوں پر۔ ہندوستان کی یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ یہاں کی عورتیں عیش و آرام کی عادی ہوگئی ہیں اور خود کو حب الوطنی کے فرائض سے الگ کرلیا ہے۔ بہنو! اب وقت آگیا ہے کہ ہر وہ مرد و عورت جس میں ذرّہ برابر ایمان اور خودداری ہو، اپنے آپ کو خدا کی فوج کا سپاہی سمجھے، ہم میں سے ہر مرد اور عورت والنٹیئر ہے۔ ملک و قوم کی حالت بے حد نازک ہے، قید خانوں سے خوف نہ کھائو، اپنے فرائض ادا کرو اور ساتھ ہی مذہبی اور سوشل ذمہ داریاں بھی فراموش نہ کرو، میں تم کو نصیحت کرتی ہوں کہ جذبات کو مشتعل کرکے اپنی گرفتاری کا سبب بھی پیدا نہ کرو، لیکن اگر گرفتار ہوجائو تو اس سے بھاگو بھی نہیں۔ اگر ہمارے مرد جیلوں میں چلے جائیں گے اُس وقت آزادی کے پھریرے اڑاتے ہوئے ہم آگے بڑھیں گے۔‘‘
تو یہ تھی ایک غیر تعلیم یافتہ مگر سرفروش ماں کی تقریر، جس کو اللہ نے شوکت علی اور محمد علی جیسے آزادی کے علَم بردار بیٹے دیے تھے۔ انہوں نے محدود وسائل میں بچوں کو اچھی تعلیم دلائی، اپنے زیور بیچ کر علی گڑھ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا۔ بچوں کے چچا نے انگریزی تعلیم کی مخالفت کی تو انہوں نے اپنا زیور بیچ کر چپکے چپکے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی پورا خیال رکھا۔ نہ صرف دینی تعلیم دلائی بلکہ ان کے دلوں میں دین سے گہرا لگائو بھی پیدا کیا۔
1887ء میں بی اماں نے مولانا محمد علی کو مزید تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا۔ پہلی جنگِ عظیم (1914-18) کے بعد برطانوی سامراج نے خلافتِ عثمانیہ کو اپنی سازشوں کا نشانہ بنایا اور اندرونی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے ترکی کی خلافت کا خاتمہ کردیا تو مسلمانانِ ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ خلافت کی بحالی کے لیے زبردست تحریک چلائی گئی۔ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے بی اماں کے ساتھ مل کر ملک کے طول و عرض کے دورے کیے اور مسلمانوںکی غیرت کو جھنجھوڑا۔
1921ء میں دونوں بھائیوں کو انگریز حکومت نے گرفتار کرلیا اور مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ اس مقدمے کی سماعت کراچی کے خالق دینا ہال میں ہوئی۔ اُس زمانے میں کسی صاحبِ دل نے ’’صدائے خاتون‘‘ کے نام سے نظم لکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئی۔ حالانکہ اس نظم کو پھیلانے میں سوائے زبان کے اور کسی میڈیا نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔
اس نظم کا پہلا مصرع آج بھی لوگوں کو خوب یاد ہے:۔
بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہے شوکت علی بھی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہو تم ہی میرے گھر کا اجالا ،تھا اسی واسطے تم کو پالا
کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ ،جان بیٹا خلافت پہ دے دو
نومبر 1924ء میں بی اماں کا انتقال ہوگیا۔ ان کے دونوں بیٹے ہی نہیں پوری قوم قابلِ احترام ماں کی شفقتوں سے محروم ہوگئی جن کے بارے میں شوکت علی نے کہا تھا کہ ’’ہماری ماں نے ہمیں زندہ رہنے اور آزادی سے زندگی گزارنے کا سبق دیا۔‘‘
اور مولانا محمد علی جوہر کہا کرتے تھے کہ ’’ماں کی اصل خوب صورتی اس کی محبت ہے، اور میری ماں دنیا کی خوب صورت ترین ماں ہے۔‘‘
مولانا محمد علی جوہر کی اہلیہ کہتی تھیں کہ ’’دونوں بھائیوں کو اپنی ماں کے فہم و فراست پر بڑا ناز تھا، وہ ہر سیاسی معاملے میں ماں کے مشورے پر عمل کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا مشورہ بہترین ہوتا تھا، حالانکہ انہوں نے اردو کی چند ہی کتابیں پڑھی تھیں، مگر بے حد زیرک اور عقل مند تھیں، ملکی سیاست پر انہیں پورا پورا عبور حاصل تھا۔‘‘
تو یہ تھیں وہ پہلی مسلمان خاتون راہ نما، جنہوں نے ہندوستان میں تمام خاندانی جکڑ بندیوں کو توڑ کر آزادیِ مسلمانانِ ہندکی راہ میں پہلا قدم بڑھایا۔ ایسی ہی ماؤں کے پیروں تلے جنت ہے۔