(قسط نمبر 7)
ترکی کھانے کے نشے کے سرور اور تھکاوٹ سے مخمور لوگ ترکی پر جھپٹنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اسکرین پر نظر ڈالی تو ترکی ہمارے قدموں بلکہ جسموں کے نیچے تھا۔ کھڑکی سے نیچے دیکھا تو استنبول کی بلند و بالا عمارات، خوبصورت کشادہ سڑکیں، سرسبزی و شادابی، رونق اور چمک سے معمور شہر، اور فضائیں و ہوائیں ہمارے استقبال کے لیے منتظر تھیں۔ چشم ِمادرشن دلِ ماشاد۔ دل تو ہمارا اُچھل رہا تھا۔ اگرچہ چشم ماتھکی ماندی، بوجھل اور مخمور تھیں، تاہم دل جدید و قدیم ترکی کو دیکھنے کی امید سے لبریز اور ترک بھائیوں سے ملنے کی تڑپ سے معمور تھا۔ ہم نے بھی اپنے اوسان بحال کیے۔ خوابوں، خیالوں سے حقیقت کی دنیا اور آنکھ سے استنبول کی فضائوں سے اُتر کر زمین پر قدم رکھنے کے لیے خود کو ذہنی و جسمانی طور پر تیار کرلیا۔ ہماری کیفیت بھی اُس انسان کی طرح تھی جس نے1960ء کی دہائی میں چاند کا سفر کیا، اور اس کی سطح پر قدیم ٹکا دیے۔ ہمارا دل بھی چاہا کہ چاند نہ سہی چاند سے زیادہ محبوب سرزمین پر اور نہیں تو پاکستان کا قومی پرچم لے کر قدم رکھیں۔ سو ہم نے گزشتہ شب ہی اپنے سینے پر پاکستانی پرچم سجا رکھا تھا۔ انسان خواہ کہیں چلا جائے، کتنی قوموں، ملکوں، تہذیبوں کا مطالعہ و مشاہدہ کرے، اُن کے ہزار وصف اور امتیاز تلاش اور بیان کرے۔ عربی کے شاعر کے الفاظ میں
ماالحب الاللحبیب الاول (محبت تو پہلے محبوب کے ساتھ ہی سدا بہار رہتی ہے)۔
اور بلاشبہ ہماری پہلی اور آخری محبت ’’پاکستان‘‘ ہے۔ بے پناہ محبت کا مرکز و محور، اور اس کا سبز ہلالی پرچم دل اور جان سے قریب بلکہ قریب تر، کیوں کہ ہماری تخلیق و افزائش اسی مٹی سے ہوئی۔ اس کی فضائوں، ہوائوں میں ہم نے پرورش پائی اور اب اسی کی مٹی کی آغوش میں ہی پلٹنا قابلِ فخر ہے۔
ثریا نے زمیں پر ہم کو دے مارا
ترکی اور انگریزی میں تیز تیز لہجے اور مخصوص انداز میں الوداعی پیغامات و اعلانات جاری تھے۔ جہاز کی لائٹیں آف کردی گئیں کہ ترکی کی تیز رفتار ترقی کی تیز روشنیوں اور استنبول ایئرپورٹ کی چمک دمک کا مشاہدہ کرنا تھا۔ کہیں ان تیز روشنیوں میں آنکھیں چندھیا نہ جائیں۔ خیر یہ تو ہمارا تصور تھا۔ ہر سوچ کا محور ترکی ہی تھا۔ لینڈنگ کے وقت لائٹس بند کردینا ایوی ایشن کے اصول و قواعد کے مطابق عمل تھا۔
آخر وہ لمحہ آ ہی گیا جس کی آرزو، اُمید، حسرت اور تمنا میں ہم نے سالوں خواب دیکھے تھے۔ جہاز کے تیز رفتار پہیوں نے ایک ہلکے سے جھٹکے سے ترکی کی مٹی کو چھولیا۔ غازیوں، شہیدوں، فاتحین، مبلغین، مجاہدین کی سرزمین… صوفیہ، علماء، دانشوروں، مفسرین و محققین کی دھرتی، بہادروں اور غیرت مندوں کی آغوش، اسلام کے تحفظ و بقاء کے نظریاتی مجاہدوں اور اہلِ اسلام کے درد کا درماں کرنے والے اور دنیا بھر سے بھڑجانے والے حکمرانوں کے سائباں کے زیر سایہ چند دن گزارنے کے سنہری اور خواب ناک موقعے کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کا ہمارے لیے ’’تاریخ ساز‘‘ اور ناقابلِ فراموش لمحہ۔ جہاز کے انجن بند ہوئے اور باجی ایئرہوسٹس نے ہمیں عرش سے ارض، فلک سے زمیں پر دے مارا، اور باہر نکل کر ترک فضائوں میں سانس لینے کی دعوت دی۔ اب نہیں معلوم کہ اس خاتون کا نام ثریا تھا یا کوئی اور… مگر اس نے چند لمحوں میں ہمیں اوجِ ثریا، یعنی 35 ہزار فٹ کی بلندی سے اُس زمین پر دے مارا جس زمین کی عظمت و جلالت اور جہاں مدفون ہستیوں کی قدروقیمت اور عُلُوِّ مرتبت ہزار آسمانوں کی بلندیوں سے کہیں بڑھ کر تھی۔
استنبول ایئرپورٹ
بلاشبہ ہم ایک عظیم الشان فضائی مستقر (ایئرپورٹ) پر قدم رکھ چکے تھے۔ خوبصورت، سُبک رو اور جدید وسیع بسوں کے ذریعے ٹرمینل میں داخل ہوئے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور جدید ترین ایئرپورٹ ہے، جو کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوا ہے۔ تھکے ماندے مسافروں کو اس سے کیا غرض تھی! ہمیں تو گھسٹتے گھستاتے (خود کو گھسیٹتے اور سامان کو گھسٹاتے) طویل راہداریوں سے گزر کر امیگریشن کائونٹر تک پہنچنا تھا، جہاں توقع تھی کہ ترک دوست اپنے چاہنے والے اور محبت میں کشاں کشاں کھنچے چلے آنے والے پاکستانیوں کو سرخ و سبز پرچموں اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہے ہوں گے۔ یہ منظر ڈھونڈتے ڈھونڈتے سارا راستہ طے ہوگیا۔ ٹرمینل کی عمارت میں داخل ہوکر امیگریشن کائونٹر تک پہنچنے میں بلاتوقف نصف گھنٹہ تو لگا ہوگا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم نے ہلکے پھلکے جوتے پہن رکھے تھے، ورنہ ہر قدم من من بھر کا ہوچکا تھا، اور اچھا لگا کہ طویل راہداری میں جا بجا مناسب فاصلے سے برقی راستے (زینے نہیں) موجود تھے، جن پر کھڑے ہوکر ہم کم و بیش ایک سو میٹر ضرور طے کرلیتے اور اس طرح جسمانی مشقت سے بچ گئے۔ ایسے بیسیوں راستے دونوں طرف موجود تھے۔ ایئرپورٹ کے آخر میں امیگریشن کائونٹرز پر ضابطے کی کارروائی مکمل ہوئی اور ہمیں کسی غیر معمولی جذباتی آئوبھگت کے بغیر چند ٹھپے لگا کر ترکی میں ’’اذنِ باریابی‘‘ عطا کردیا گیا۔ یہ پہلا دھچکا تھا ترکی سے ہماری شدید محبت کو۔ ہم نے تو سنا تھا کہ ترک پاکستانیوں کو دیکھ کر وفورِ جذبات سے سرشار ہوکر سبز پاسپورٹ کو سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں۔ پھر ہمارے ذہن میں وہ سرکاری وعدہ و خواب بھی تھا کہ جس کے ذریعے سبز پاسپورٹ کی پذیرائی اور عزت افزائی ہونا تھی۔ مایوس ہوکر ہم نے سینے پر لگے پاکستانی پرچم کو قدرے چھپالیا۔
چھ ہزار روپے کی کافی
استنبول کا موسم قدرے سرد تھا، مگر قابلِ برداشت۔ پھر کچھ سفر در سفر کی مشقتوں میں احساس ہی نہ ہوا کہ موسم کیسا اور ماحول کیسا ہے۔ ابھی ہماراسفر باقی تھا، بقول منیر نیازی مرحوم:۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
استنبول ایئرپورٹ پر ہمارا چند گھنٹے کا قیام تھا۔ اس کے بعد تقریباً 4 بجے سہ پہر ڈومیسٹک پرواز کے ذریعے ترکی کے ساحلی شہر اور بین الاقوامی سیاحوں کی دلچسپی کے ’’ہرسامان‘‘ کے مرکز ’’انطالیہ‘‘ روانگی تھی، جو ہماری پہلی منزل تھی سرزمینِ ترکی میں۔
سُکھ کا سانس لینے کے بعدنظر کی جولان گاہ نے ’’زمینی حقائق‘‘ کا جائزہ لینا شروع کیا۔ یہ ایئرپورٹ جہاں ایک دن میں سیکڑوں پروازیں اُترتی اور فضا میں بلند ہوتی تھیں اور ہزاروں مسافروں کو لاتی، لے جاتی تھیں، کورونا کے باعث تقریباً ویران ہی پڑا تھا۔ اس کا جائزہ لینا شروع کیا ہی تھا کہ قریب میں ایک کیفے پر نظر پڑی تو جیب کے ڈالروں نے انگڑائی لینا شروع کی۔ پیغام زبان تک پہنچا تو بصیرت کے سب احتیاطی ٹوٹکے جو ہمارے پلّو سے بندھے تھے، بے اثر ہوگئے اور ہم خالی کرسی میز پر جا بیٹھے اور اشاروں اشاروں میں دل کی بات کہہ دی۔ ایک بڑے آلو یا بڑے موتی چور کے لڈو جتنا کچھ نمک پارہ منتخب کرلیا۔ اس کے نام میں Cheese یعنی پنیر کا لفظ پا کر ہم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بین الاقوامی مسافر اور وہ بھی پاکستانی ہونے کے غرور نے ہمیں آرڈر دینے سے پہلے ’’جیب‘‘ اور ’’چادر‘‘ کو دیکھنے سے روک دیا۔ چادر ہم نے پہلے پھیلا دی اور جیب کو تب دیکھا جب پاکستانی روپوں میں چھ ہزار روپے کا بل مشین سے نکل چکا تھا۔ گویا تیرکمان سے نکلا اور اس غریب کے جگر میں پیوست ہوگیا۔ خیر یہ تو تفننِ طبع تھا، البتہ چھ ہزار روپے کے دو کافی کے مگ اور دو پنیر کے گیند۔ پاکستان میں الم غلم کو ایسی شکل اور نام دے کر بھی یہ سب پانچ چھ سو روپے میں مل جائت! خیر ہم نے پاکستان کی ناک نہیں کٹوائی، اپنی جیب ضرور کٹوائی۔ خیر! چھوڑیئے اس قصے کو۔ یہ جانیے کہ کافی لذیذ بھی تھی اور آلو کا پنیر کا گولا بھی مزے کا۔ موقع ملے تو ضرور کھائیے گا، مگر پاکستانیوں کی طرح ڈالر کو روپوں میں تبدیل کرنے کے حساب کتاب کے ذریعے اپنی سیروسیاحت کا لطف اور مزا کرکرا نہ کیجیے گا۔ پھر ’’ترک‘‘ ہمارے دوست ہی نہیں بھائی ہیں۔ اور صوفیہ کی سرزمین کے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’’یاروں کے ساتھ حساب کتاب کیسا!‘‘۔
محفوظ بھی اور مجبور بھی
اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ اگرچہ امیگریشن کائونٹر پر حسبِ توقع پاکستانیوں کے لیے ’’گرمجوشی‘‘ تو نہ تھی، تاہم تمام مراحل نہایت باوقار انداز اور مہذب طور پر انجام دیے گئے، اور کوئی غیر ضروری قدغن لگی، نہ امتیازی سلوک ہوا۔ البتہ دستی گھڑی، چشمہ، واسکٹ اور جوتے بھی اُتروائے گئے کہ جہاں لوہے کی کسی چیز حتیٰ کہ معمولی سی پن اور کلپ وغیرہ یا جوتے میں آہنی بکل بھی موجود تھا اسکیننگ مشین کی نظر میں قابلِ توجہ ٹھیرا۔ ان مراحل سے بچنا ہے تو اپنے جسم پر آہنی چیزوں کو کم سے کم رکھیے۔ البتہ آہنی عزم اور مضبوط فولادی ارادے کے ساتھ ترکی میں پہلا قدم رکھیے اور اگلے قدم اٹھائیے اور دن گزاریئے۔
دل مچل رہا تھا کہ استنبول سے باہر نکلیں۔ مگر ہم ایئرپورٹ پر محصور بھی تھے اور محفوظ بھی اور قدرے مجبور بھی، کہ ٹرانزٹ کے مرحلے میں تھے، اور ایک دوسری پرواز کے ذریعے پہلی منزل پر روانہ ہونا تھا اور وہیں جا کر سُکھ کا سانس لینا ممکن تھا۔ لگتا تھا کہ استنبول کی بانہیں، فضائیں اپنے کشادہ دامن میں ہمیں سمیٹنے کے لیے بے تاب ہیں، مگر ہم نے انہیں کہہ دیا:۔
کارِ جہاں دراز ہے
اب مرا انتظار کر
ہمیں تقریباً پانچویں دن واپس استنبول آنا تھا اور تین دن قیام کرنا تھا۔ اُس وقت تک ہم دونوں کا صبر و فراق کے مرحلوں سے گزرنا شیڈول کے مطابق امرِ حتمی تھا۔
پانچ گھنٹے کا طویل انتظار استنبول ایئرپورٹ پر کرنا اگرچہ بڑی بیزاری کا کام تھا، اور ہم بیزاری سے اگلی پرواز کے انتظار میں پہلو اور سیٹ بدل بدل کر وقت گزار رہے تھے کہ انطالیہ جانے والے ایک مسافر کی فون پر کسی پاکستانی دوست سے جو غالباً دبئی یا کسی عرب ریاست میں موجود تھا، کے ساتھ اونچی آواز میں کی جانے والی گفتگو کے اس جملے نے متوجہ کیا: ’’یار! اتنا بڑا ایئرپورٹ کہ مت پوچھ“۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ ملتان کے مرزا صاحب ہیں اور ہمارے قافلے میں شریک۔ ایک باغ و بہار اور دلچسپ شخصیت۔ یہ تمام سفر میں ہمارے ساتھ ہماری بس میں ہی رہے اور دوستوں کا دل خوب لگائے رکھا۔
(جاری ہے)