یوسف رضا گیلانی کی فتح ۔۔۔ اخلاقی اقدار کی شکست

344

ٹیلی ویژن پر یوسف رضا گیلانی کی فتح کی خبر دیکھ کر میرے شوہر کی خوشی دیدنی تھی۔
میں سوچنے لگی کہ کیا یوسف رضا گیلانی نے اپنے دورِ حکومت میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے واقعی اتنے اقدامات کیے ہیں کہ عوام اُن کے آنے پر خوشیاں منائیں!!
سابقہ الیکشن میں عوام عمران خان کے جیتنے پر خوش نہیں تھے بلکہ وہ بھٹو اور نواز خاندان کے چنگل سے اقتدار کی آزادی پر خوش تھے۔
جو کچھ ڈھائی برس میں موجودہ حکمرانوں نے کیا ہے اس کی وجہ سے اِس وقت لوگ حکومتی جماعت کی شکست سے خوش ہیں۔
یہ بھی کیسا المیہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی اپنے عوام کے دلوں میں کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی۔۔۔
سینیٹ کے الیکشن سے ہونا کیا ہے؟ قوم کو ملے گا کیا؟ سب کو پتا ہے۔
قوم دل شکستہ ہوئی ہے لوٹوں اور نوٹوں سے۔۔
ہارس ٹریڈنگ اور بلیک میلنگ سے۔۔
دونوں طرف خرید و فروخت اور منڈیاں لگنے سے۔۔
نہ یوسف رضا گیلانی سے کوئی امید ہے، نہ حفیظ شیخ سے۔
سب کے ماضی عوام کے سامنے ہیں۔
پوری الیکشن مہم ہمارے اخلاقی دیوالیہ پن کا آئینہ تھی۔
جن کا اسم گرامی ”صادق“ تھا، عرصہ ہوا کوچ کر گئے۔۔
”امین“ صاحب دیوار میں چن دیئے گئے۔۔
”اخلاق“ میاں وینٹی لیٹر پر ہیں۔۔
”شائستگی“ کی چادر میں سو پیوند لگ چکے ہیں۔۔
”تہذیب“جس فاختہ کا نام تھا، وہ گھونسلہ سمیٹ کر کوچ کرچکی ہے۔۔
”وقار“ جن کا نام تھا، کووڈ کی نذر ہوئے۔۔
”ظرف“ صاحب کے چکناچور شیشے اسمبلی فلور پر بکھرے پڑے ہیں۔۔
یوسف رضا گیلانی کی فتح کے چپّو موجِ بلا کے تیز تھپیڑوں کی زد میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
پھر اسکرین پر چیخ و پکار ہوگی۔
پھر دھاندلی کے الزامات لگیں گے۔
مسترد ووٹوں کی دوبارہ جانچ پڑتال ہوگی۔

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق

عوام جانتے ہیں اُن کا خیرخواہ کوئی بھی نہیں، یہ دولت مندوں اور مفاد پرستوں کی جنگ تھی۔
ایک مفاد پرست جیتے یا دوسرا… عوام کی صفوں سے کوئی بھی نہیں۔
یہ ”خاص لوگ“ ہیں جو پیدا ہی اقتدار کے ایوانوں اور سازباز کے لیے ہوئے ہیں۔
ہم اور آپ تو تماشوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔
اس وقت سینیٹ کا جو کردار ہے اِس ملک میں اس حساب سے تو اُس کو اخبار کے سیکنڈ ہاف پیج پر دو کالمی خبر ہونا چاہیے تھا۔۔ مگر میڈیا ریٹنگ کے چکر میں چاہے ڈسکہ کے الیکشن ہوں یا سینیٹ کے۔۔ انہیں عوام کے لیے گویا موت و زندگی کا مسئلہ بنا دیتا ہے۔
اخلاقیات کا جو تابوت آج بروز بدھ اٹھا ہے اس کے جسدِ خاکی سے کل وینٹی لیٹر ہٹا دیا گیا تھا۔
قوم کے اعصاب شل ہوچکے تھے۔
میڈیا وار میں کس کو سچا سمجھیں کس کو جھوٹا؟؟
مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔
ریاست کے وہ باوقار ادارے جہاں قرآن کی تلاوت سے اسمبلی کا آغاز ہوتا ہے۔۔ جہاں حلف اٹھاتے وقت اللہ کو گواہ بناکر وفاداری کا عہد کیا جاتا ہے۔۔۔
ہم ہی نہیں دیکھ رہے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
دنیا بھر کا میڈیا ہمارے سیاست دانوں کی اخلاقی حالت پر کیا تجزیے پیش کررہا ہوگا؟؟
کیسی بگاڑی ہے میرے دیس کی تصویر ان ”زرداروں“ اور نام نہاد ”شریفوں“ اور ”تبدیلی“ کے خوگروں نے۔۔۔
پھر چودہ اگست کو ہم جھنڈے لہرا کر کہتے ہیں ”ہم زندہ قوم ہیں“۔
زندگی باقی ہی کہاں چھوڑی..!
رگوں میں خون تو منجمد ہو گیا ہے۔
ابھی میں نے ٹی وی کا سوئچ آف کیا اور اِس وقت وہ ذہنی حالت ہے جیسے آپ سولہ گھنٹے لگاتار جہاز کا سفر کرکے اعصابی طور پر فریز ہوجاتے ہیں۔
وہ لڑائی جھگڑا، وہ چیخ و پکار، وہ طعن و تشنیع، وہ الزامات۔۔۔
مرد گز بھر، اور خواتین سوا گز کی زبانوں سے کک لگا رہی ہیں، ایک دوسرے کو پنچ مارے جارہے ہیں، ناک آؤٹ کیا جارہا ہے۔
ہارس ٹریڈنگ سے بڑھ کر اخلاقی زوال کا نوحہ۔۔
مارے خوف کے پارلیمنٹیرینز نے موبائل آف کردیے تھے۔
کیونکہ کالز ٹیپ کر کے بلیک میلنگ کی جارہی تھی۔
ممبرانِ پارلیمنٹ کو ہوٹل کے کمروں میں نظر بند کردیا گیا تھا۔
ایک ایک کی قیمت کروڑوں میں لگ رہی تھی۔
ہم عوام کالانعام، جو کبھی ٹوٹی سڑکوں کو روتے، کبھی گرمی میں العطش کی دہائی دیتے ہیں۔۔
گرمیوں بھر لوڈ شیڈنگ کاسامنا کرتے ہیں ۔۔
ہمارے ٹیکسوں سے کمائے ہوئے سرمائے سے خریداری ہورہی تھی۔
پندرہ کروڑ چکا دیے گئے، پچاس کروڑ کا وعدہ کیا گیا حکومتی اراکینِ پارلیمنٹ سے!!!
کہا جاتا، ہمارا ساتھی اغوا ہوگیا۔۔ وہ وڈیو کلپ جاری کردیتا کہ ”میں یہاں ہوں“۔
فون خفیہ ریکارڈ ہوئے اور وائرل کیے گئے۔ ان ریکارڈنگز پر گھنٹہ گھنٹہ بھر ٹاک شوز ہوئے۔۔
انتخابی مہم ختم ہوچکی مگر ٹی وی اسکرین آگ اگلتی رہی۔
وہ زبان اور لہجے کہ سماعتیں زخمی ہوگئیں۔
کون کس کی پرائیویٹ گفتگو ریکارڈ کرکے وائرل کردے، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ضابطہ اخلاق ہی نہیں۔
پریزائیڈنگ افسران کی جو گت بنی ہے ڈسکہ کے انتخاب میں، اس نے پاکستان کے انتخابی چہرے پر کیسی ندامت کی لکیر گہری کردی۔
ہم دیکھ رہے ہیں، ہم جان رہے ہیں کہ سیاست چنگیزی کھیل بن چکی ہے۔
کسی بات پر دل یقین کرنے کو تیار نہیں کہ پس پردہ حقائق کیا ہیں!
ایک ممبر پارلیمنٹ ہجوم میں چلاّ رہا تھا کہ میں اپنی پارٹی کو ووٹ نہیں دوں گا۔۔۔ اسے اس کے پارٹی ورکر گلے سے پکڑ کر کھینچ رہے ہیں۔
ایک پارٹی کے کچھ اراکین اپنی وفاداریاں بیچ کر دوسری پارٹی کے اراکین کے ساتھ اسمبلی میں جلوہ گر ہوئے تو وہ مارکٹائی،دھکم پیل کہ یقین نہ آتا تھا کہ یہ ملک کا باوقار ادارہ ہے۔ خواتین بھی بھرپور حصہ بنی نظر آئیں اسکرین پر اس کھیل کا۔۔
الزامات میں گڑے مُردے اکھیڑے گئے۔
نورا کشتی اور بے بس تماشائی قوم۔۔
ہم میں سے کتنے سوچ رہے ہیں کہ اپنی پارلیمنٹ سے ان بکنے والے گھوڑوں کو اب دیس نکالا دینا ہوگا!
سیاست کو تعفن سے پاک کریں گے تو ریاست ماں کے جیسے ہوگی۔
اس وقت ووٹ نہیں ریاست اغوا ہوچکی ہے۔
جو کچھ ہورہا ہے اس پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے ان سیاست دانوں کو۔
اتنے مشکل انتخابات کے بعد ایوانِ بالا سجے گا۔
مگر یہ ایوانِ بالا و زیریں قوم کو دیتے کیا ہیں؟
ہمارے خارجی و داخلی کون سے مسائل حل ہوئے، ماسوائے آپس کی گتھم گتھا اور قوم کے ساتھ مذاق کرنے اور بے وقوف بنانے کے!
ہم چاہتے ہیں یہ سب کچھ بدلے تو ہمیں اپنے معیارِ انتخاب کو بدلنا ہوگا۔ یہ چہرے میڈیا پر جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور ایک دوسرے کی قیمت لگارہے ہیں تو ان کو ایوانِ اقتدار میں پہنچانے والوں کا ذکر بھی تاریخ میں اچھے لفظوں میں نہیں کیا جائے گا۔۔
مہدی موعود کا انتظار چھوڑیں اور آج ہی فیصلہ کرلیں کہ
اب اس سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسے جائیں گے۔۔۔

حصہ