سمجھوتہ و درگزر رشتوں کو استحکام بخشنے میں مددگار ہوتے ہیں… میں نے یہ جملہ اپنے آس پاس ہونے والے واقعات اور حالات کو مدنظر رکھ کر کہا ہے۔
مثلاً فی زمانہ طلاق کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں۔ کہیں لڑکے (مرد) کا قصور، کہیں لڑکی (عورت) کا قصور، کہیں سسرال والوں کی زیادتیاں اور کہیں لڑکی کے والدین اور گھر والوں کی دخل اندازی… تو کہیں غیر ضروری باتوں کو ’’ہوّا‘‘ بناکر دوریاں پیدا کرنا… ان تمام محرکات کے پیچھے ایک چیز جو اہم ہے وہ ہے برداشت کی کمی… جس کی وجہ سے کہیں بھی سمجھوتے کی گنجائش نہیں بچتی، اور اکثر لڑائی جھگڑے طول پکڑ لیتے ہیں اور بات طلاق تک جاپہنچتی ہے۔
طلاق رب العزت کی طرف سے جائز لیکن ناپسندیدہ عمل ہے، جس کے نتائج سے بھی معاشرہ بے خبر نہیں۔ چاہے قصور کسی کا بھی ہو لیکن موردِ الزام لڑکی کو ہی ٹھیرایا جاتا ہے اور اسے ہی معاشرے کے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے… لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ طلاق کی شرح میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ایک زمانہ تھا (جو زیادہ پرانا نہیں کہا جا سکتا) کہ لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو والدین کی یہ نصیحت وہ پلے باندھ کر میکے کی دہلیز پار کرکے سسرال میں قدم رکھتی تھی کہ اب اس کا جینا مرنا اسی گھر میں ہے۔ اس بات کی وہ لاج رکھتے ہوئے تمام مثبت اور منفی صورتِ حال کا سامنا کرتی اور درگزر اور فہم و فراست سے معاملات سنبھالتی تھی، اور پھر لازماً کامیابی سے ہمکنار ہوجاتی۔ میری ایک عزیزہ نے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے چند سال مجھ سے شیئر کیے۔ انہوں نے بتایا کہ شادی کے بعد سسرال میں میری یہ حالت تھی کہ صرف زمین پر میری ماں کی دعائیں تھیں اور عرش پر باری تعالیٰ کا ساتھ تھا… ان مشکل حالات میں آج کی عورت مشکل سے سمجھوتہ کرپاتی، لیکن میری ماں کی نصیحت میرے ساتھ تھی اس لیے میں نے نہ صرف درگزر سے کام لیا بلکہ سمجھوتہ بھی کیا۔ انہی دو باتوں کی وجہ سے میرا گھر نہ ٹوٹا… اور آنے والے وقت نے مجھے میری ان ہی خوبیوں کی وجہ سے نہ صرف ایک اچھی ماں بلکہ اچھی ساس بننے کا موقع بھی دیا۔
میری ان عزیزہ کی بات غلط نہیں، شاید کوئی اور ہوتا جس میں درگزر اور سمجھوتے کی گنجائش نہ ہوتی تو اس کا گھر ٹوٹ چکا ہوتا۔ اسی طرح ایک اور خاتون نے بتایا کہ میں صرف اپنی اولاد کی وجہ سے سمجھوتہ کرپائی، کہ طلاق کی صورت میں نہ صرف میں موردِ الزام ٹھیرائی جائوں گی بلکہ اس کے منفی اثرات میری اولاد پر بھی پڑیں گے… یہ اس خاتون کی ایک مثبت سوچ تھی جس کی وجہ سے اس کا گھر نہ ٹوٹا اور بچے ماں باپ کے سائے میں پل کر بڑے ہوئے۔
میرے سامنے چند ایسے واقعات ہوئے جن کو میں یہاں ضرور بیان کروں گی کہ جہاں لڑکی کے گھر بسانے اور سمجھوتہ کرنے میں اُس کے گھر والوں کا ہاتھ تھا، یا یوں کہنا چاہیے کہ ان کی نصیحتیں تھیں، وہیں کچھ واقعات ایسے بھی سامنے آئے جہاں ازدواجی زندگی میں دراڑیں لڑکی کے گھر والوں کی وجہ سے پڑیں… جیسا کہ میں نے اوپر ایک عزیزہ کا واقعہ بیان کیا کہ اُس نے اپنی والدہ کی نصیحت گرہ میں باندھ لی تھی جو طلاق کی راہ میں رکاوٹ بنی اور وہ سمجھوتہ کر پائی۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی کی تربیت میں اُس کی والدہ کا بڑا حصہ ہے۔ اکثر لڑکیاں اپنی مائوں کا عکس ہوتی ہیں اور ان کی تربیت ان لڑکیوں کی ذات میں نظر آتی ہے۔ میں اکثر یہ بات دہراتی رہتی ہوں کہ فہم و فراست سے مائوں کو اپنی بیٹیوں کی رہنمائی اس طرح کرنی چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں آباد رہنے کی گنجائش اپنے اندر پیدا کریں۔ لڑکی کو چھوٹے چھوٹے مسائل کا ماں باپ کے گھر میں بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، لازمی بات ہے ایک نئے گھر میں اسے پائوں جمانے کے لیے کچھ وقت اور محنت درکار ہو گی جو اسے ماں کی تربیت ہی سکھا سکتی ہے۔ کچھ خواتین بیٹیوں سے سسرال و شوہر کے بارے میں شکایات سن کر منفی ردعمل کا اظہار کرتی ہیں جس سے لڑکیوں کو گھر بسانے میں دشواری ہوتی ہے، یا یوں کہنا چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل بھی انہیں پہاڑ کی طرح بھاری محسوس ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگتی ہیں جس کی وجہ سے وہ سمجھوتے یا درگزر کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہیں۔ ایک خاتون بھری محفل میں زارو قطار رو رہی تھیں کہ میری بیٹی کے ساتھ سخت ناانصافی ہورہی ہے، دو مہینے سے وہ میرے پاس آئی ہوئی ہے، اسے لینے کوئی نہیں آرہا ہے۔ میں ایسے مواقع پر مداخلت نہیں کرتی، لیکن آس پاس کی خواتین جس طرح انہیں ڈھارس دے کر مزید اکسا رہی تھیں اس کی وجہ سے میں مجبور ہو گئی کہ ان سے سوال جواب کروں… میرے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کوئی گمبھیر مسئلہ نہ تھا، بات صرف اتنی تھی کہ خاتون کا داماد اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان کی بیٹی کو میکے چھوڑنے اور لینے نہیں آسکتا تھا، وہ کہتا تھا کہ تم اپنے میکے سے کسی کو بلا لو جو تمہیں لے کر جائے اور لے کر آئے… مجھے سن کر بڑا تعجب ہوا کہ اتنی سی بات پر انہوں نے بیٹی کو دو مہینے سے روکے رکھا ہے کہ اس کا شوہر اسے لینے آئے! تب میں نے خاتون سے کہا کہ یہ معمولی بات ہے، اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے، میری بیٹی جو پروفیسر ہے اُسے اکثر اس کے بھائی لینے اور چھوڑنے جاتے ہیں، میری دونوں بہوئیں بھی اکثر اپنے بھائیوں یا باپ کے ساتھ آتی جاتی ہیں۔ وہ خاتون میری بات سن کر ذرا ٹھنڈی ہوئیں۔ میں نے کہا اتنی معمولی بات پر بچی کو اپنے گھر بٹھانا اور اس کی طلاق کا سوچنا سمجھ داری نہیں ہے۔
٭…٭
یہ اپنی نوعیت کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اکثر و بیشتر آپ کو بھی ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں آپ لوگ اپنے فہم وفراست سے زوجین میں اختلافات ختم کروا کر سمجھوتے کی صورت پیدا کرسکتے ہیں۔
ایک خاتون داماد کی کم آمدنی کی وجہ سے اپنی بھتیجی کی طلاق کے سلسلے میں اپنے بھائی اور بھابھی کا ساتھ دے رہی تھیں۔ میں نے انہیں اس فعل سے روکا کہ زوجین کے درمیان اختلافات یا طلاق پیدا کرنے سے سب سے زیادہ شیطان خوش ہوتا ہے۔ میری بات سے وہ خاتون ڈر گئیں۔ الحمدللہ آج وہ لڑکی اپنے گھر میں آباد ہے…اگر خدانخواستہ زوجین کے درمیان اختلافات ہیں، یا ہم آہنگی کی کمی ہے تو آس پاس کے لوگ خصوصاً والدہ مثبت کردار ادا کرکے ان کے درمیان سمجھوتے کی صورت پیدا کرسکتی ہیں… مثبت سوچ و عمل کے حآمل والدین چاہے لڑکی کے ہوں یا لڑکے کے، ایسے موقعوں پر فہم و فراست سے معاملات کو سلجھانے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جہاں مشترکہ خاندان کی وجہ سے کچھ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں (جو معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں) وہاں اس کے مثبت پہلوئوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے کچھ ایسی مائوں کو بھی دیکھا جو اپنے بیٹوں کو بھی نرمی اختیار کرنے کا سبق دیتی ہیں تاکہ زوجین میں اختلاف نہ پیدا ہو… اس سلسلے میں ایک خاتون نے بتایا کہ میرا خاندان میرا سرمایہ ہے، میں کبھی بھی نہیں چاہوں گی کہ میری بہو اور بیٹے میں کوئی رنجش پیدا ہو، کیونکہ اس کا براہِ راست منفی اثر میرے پوتے اور پوتی پر پڑے گا، میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے تمام کنبے کو سمیٹے رکھوں اور ان کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔
اسی طرح ایک لڑکی کی ماں نے بتایا کہ میں اپنی بیٹی کی بات سنتی ضرور ہوں جو وہ اپنے شوہر یا اس کے گھر والوں کے متعلق کہے، لیکن اس بات میں سے کوئی مثبت پہلو نکال کر اس طرح بیان کرتی ہوں کہ وہ نہ صرف مطمئن ہوجاتی ہے بلکہ اسے اپنی شکایت بے معنی لگتی ہے۔
بے شک ماں باپ چاہے لڑکی کے ہوں یا لڑکے کے، زوجین کے درمیان مضبوط رشتہ استوار کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں، اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی مثبت راہیں ہموار کرسکتے ہیں، کیونکہ طلاق ہو یا زوجین کے درمیان اختلافات… وہ خاندانوں کا شیرازہ بکھیر دیتے ہیں جس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑتا ہے۔
٭…٭
ان سطور کے ذریعے میں بچیوں سے بھی یہی کہوں گی کہ خوب سے خوب تر کی لالچ، دوسروں سے حسد کرنا، یا شوہر اور گھر والوں (سسرال) کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف کرنے سے پرہیز کریں۔ میرا دین اسلام جو ضابطۂ حیات ہے حُسنِ معاشرت کی تعلیمات سے نواز رہا ہے۔ معاشرے میں رہنے والوں اور ایک گھر کی چھت تلے رہنے والوں کے حقوق اور فرائض کی اسلام بھرپور ترجمانی کررہا ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر ہم مستحکم خاندان استوار کرنے میں بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر اسلامی تعلیمات پر عورت و مرد دونوں عمل پیرا ہوجائیں تو معاشرے میں پھیلی بہت سی برائیاں ختم ہوسکتی ہیں… جس میں طلاق کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ طلاق کی اجازت دی گئی ہے، اسے جائز کہا گیا ہے، لیکن جب سمجھوتے کے سارے راستے بند ہوں تب یہ انتہائی قدم اٹھایا جائے… جیسا کہ ایک خاتون نے بتایا کہ میں نے شادی کے بعد شوہر کا سات سال تک غیر منصفانہ تلخ رویہ برداشت کیا، نہ مجھے وہ نان نفقہ دیتا، نہ ہی مجھے ملازمت کی اجازت دی، بیٹے کی پیدائش کے بعد اس کے رویّے میں مزید تلخی اور ترشتی آگئی جس سے میں ذہنی مریضہ ہوگئی، میں اپنی ذاتی ضرورتوں کے لیے رقم بہانے بہانے سے والدین سے لینے پر مجبور ہوگئی۔ آخر سات سال بعد میں نے مجبوراً شوہر سے طلاق لے لی۔
٭…٭
بے شک جیسے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، اسی طرح خاندان اور کنبے کسی ایک فرد سے تشکیل نہیں پاتے، بلکہ اس کے لیے ایک چھت تلے رہنے والے تمام افراد میں فہم و فراست کا پایا جانا ضروری امر ہے، ساتھ ہی اپنے اپنے حقوق و فرائض کی ایمان داری سے پاس داری کرنا بھی ضروری ہے۔ اتفاق، درگزر، سمجھوتہ، دانائی، بردباری، عقل مندی، انکسار، حیا، خوش اخلاقی وہ قیمتی پھول ہیں جو ایک لڑی میں پرو دیے جائیں تو آس پاس کا ماحول بھی معطر ہوسکتا ہے۔ تمام رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے یہ خوبیاں اپنی ذات میں پیدا کرنا بے حد ضروری امر ہے۔ ان خوبیوں کی بدولت معاشرے میں پھیلی ہوئی بہت سی برائیوں کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔
احادیث ِ نبویؐ اور ارشاداتِ باری تعالیٰ سے واضح ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھا جائے۔ ہمارے سامنے آپؐ کا اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ خوبصورت رویہ اور ازواجِ مطہرات کا آپؐ کے ساتھ خوبصورت تعلق ہم سب کے لیے رہنمائی رکھتے ہیں، سبحان اللہ۔
آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آئے۔‘‘ (مشکوٰۃ) ۔
اس طرح خواتین کے لیے آپؐ نے فرمایا کہ ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے عورت (اُس وقت تک) اپنے پروردگار کا حق ادا نہ کرے گی جب تک اپنے خاوند کا حق ادا نہ کرے گی۔“ (ابن ماجہ)۔
اسی طرح بخاری، مسلم کی احادیث سے بھی ازدواجی تعلقات کو مضبوط بنانے کی تعلیم حاصل ہوتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا ”میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے برتائو کی نصیحت کرتا ہوں، تم اسے قبول کرو۔ کیونکہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے، اگر تم سیدھا کرنا چاہو تو اسے توڑ دو گے اور اس کا توڑنا ’’طلاق‘‘ ہے، اور اگر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی رہے گی، اس لیے اس کے حق میں اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو۔“
ان احادیث سے ازدواجی بندھن کو استوار کرنے کی تعلیم حاصل ہوتی ہے کہ گھر و گھروندے کسی ایک کی کوشش سے استوار نہیں ہوسکتے، اس کے لیے زوجین کا اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہونا ضروری امر ہے۔ اگر دین نے عورت کو نصیحت فرمائی ہے تو مرد کو بھی عورت سے حُسنِ سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یعنی دونوں کو افہام و تفہیم، خوش اخلاقی، درگزر، شرم و حیا، ہمدردی و محبت کا برتائو کرنا لازمی ہوگا۔ اس کے ساتھ فرائض اور حقوق کی پاسداری اس بندھن اور خاندان کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
بے شک جوڑے آسمان پر بنتے ہیں، لیکن اس ازدواجی بندھن کو قائم و دائم رکھنے کے لیے پورے خاندان یعنی میاں بیوی اور ان کے والدین کا بھی مثبت سوچ و عمل کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اگر کہیں کسی جگہ کوئی کمی بیشی نظر آئے تو افہام وتفہیم سے اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اللہ کی نظر میں اس ناپسندیدہ عمل یعنی ’’طلاق‘‘ سے بچا جا سکے۔