اختر سعیدی اردو کے ایک قابلِ قدر خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ شاعر‘ ادیب‘ صحافی اور بہترین نظامت کار ہیں‘ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران کم و بیش 480 علمی و ادبی شخصیت کے انٹرویوز کیے جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوئے ان انٹرویوز میں سے 40 شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’دنیائے سخن کے تابندہ ستارے‘‘ جنوری 2021ء میں دبستانِ غزل پبلشر نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب 464 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی تعارفی تقریب 25 فروری 2021ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اکبر منظر ہال میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے صدر ڈاکٹر سید جعفر احمد تھے۔ مہمان خصوصی ظفر محمد خان ظفر اور مہمانِ اعزازی محمود احمد خان تھے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں مبین مرزا‘ عقیل عباس جعفری‘ ڈاکٹر اوجِ کمال‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر اور ڈاکٹر نزہت عباسی شامل تھے۔ محمد علی گوہر اور نثار احمد نثار نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر سب سے پہلے ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ اختر سعیدی ایک کہنہ مشق شاعر اور صحافی ہیں انہوں نے یگانۂ روزگار ادبی شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل جو کتاب شائع کی ہے وہ قارئین ادب کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ اختر سعیدی ایک سینئر شاعر کے علاوہ صحافتی میدان میں بھی ایک قدآور شخصیت ہیں انہوں نے اس کتاب میں ہمارے لیے آئینہ رکھ دیا ہے جس میں ہمیں بہت سے سوال اور جواب مل رہے ہیں۔ اس پروگرام میں محمد علی گوہر اور راقم الحروف نثار احمد نثار نے اختر سعیدی کے مختلف گوشوں پر منظوم اظہار خیال کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر اوج کمال نے کہا کہ اختر سعیدی نے اپنے انٹرویوز میں وہ سوالات نہیں اٹھائے جن سے بدمزگی پیدا ہو‘ وہ متنازع معاملات سے دور رہتے ہیں یہ ان کی دور اندیشی ہے۔ وہ ہمیشہ مثبت روّیوں کی تشہیر کرتے ہیں انہوں نے انتہائی دیانت داری سے اپنے فرائض انجام ادا کیے اور صحافت کا حق ادا کر دیا۔ عقیل عباس جعفری نے کہا کہ انٹرویو کی دستاویزی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اختر سعیدی نے جن لوگوں کے انٹرویوز کیے ان کے بارے میں اہم معلومات سے اپنے قارئین کو آگاہ کیا‘ یہ کتاب ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ صحافت اور ادب میں کیا رشتہ ہے اس پر اختر سعیدی نے اس کتاب میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے انہوں نے اپنے انٹرویز میں محققین‘ ناقدین اور شعرا سے ایسے سوالات کیے ہیں جن سے ہماری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا اندازِ بیاں قابل ِ تعریف ہے۔ مبین مرزا نے کہا کہ ادب کے سماج میں جو اختلافات پیدا ہوئے ہیں اختر سعیدی نے اس نکتہ پر بہت زور دیا ہے۔ انہوں نے سوالات کے ذریعے بہت سی اہم ادبی معاملات منکشف کیے ہیں ان کی یہ کتاب مشعل راہ ہے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ وہ تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ میری تقریب میں تشریف لائے اور وہ آرٹس کونسل پاکستان کراچی کی ادبی کمیٹی (شعر و سخن) کے بھی ممنون و شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے میرے لیے یہ شان دار پروگرام ترتیب دیا انہوں نے ظفر محمد خان ظفر کے لیے کہا کہ انہوں نے میری کتاب شائع کرائی میں ان کا احسان مند ہوں اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عطا فرمائے اختر سعیدی نے اس موقع پر تمام مقررین اور نظم پیش کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ محمد علی گوہر‘ علی کوثر اور عاشق شوکی کا شکریہ ادا کیا۔ ظفر محمد خان ظفر نے کہا کہ اختر سعیدی کے انٹرویوز پڑھ کر قاری کے اندر مطالعے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اختر سعیدی کا یہ کارنامہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ انہوں نے بڑی محنت سے ترقی کی ہے ان کا شمار ہمارے ادب کے بڑے قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ محمد احمد خان نے کہا کہ وہ اختر سعیدی کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب کا تیسرا حصہ شائع کریں گے اور اختر سعیدی کو پیش کریں گے بلاشبہ اختر سعیدی ہمارا ادبی سرمایہ ہے۔ ہم ان کی صلاحیتوں کے قائل ہیں۔ انہوں نے شاعری اور صحافت میں نام کمایا میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ ڈاکٹر سید جعفر نے کہا کہ اختر سعیدی کی کتاب کے تابندہ ستاروں سے پھیلنے والی روشنی نے اجالوں میں اضافہ کیا ہے۔ اختر سعیدی ایک اچھے انٹرویو نگار ہیں ان کی تحریروں سے ان شخصیات کے ادبی قدوقامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جن کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے اختر سعیدی نے اس کتاب کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کی ہے امید ہے کہ یہ کتاب ادب میں اپنا مقام پیدا کرے گی۔ اس تقریب میں اختر سعیدی کے لیے بہت سے افراد گل دستے لائے تھے اور کچھ لوگوں نے اجرک پیش کیں۔ یہ ایک کامیاب تقریب تھی جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی موجود تھی۔
محمد اسلام کی کتاب “سرگوشیاں” کی تعارفی تقریب
معروف شاعر و ادیب تاجدار عادل نے کہا ہے کہ محمد اسلام نے مزاح کے میدان میں نام کمایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل پاکستان کراچی کے پریس اینڈ پبلی کیشن کے زیر اہتمام سوشل اسٹوڈنٹس فورم کے تعاون سے معروف صحافی اور طنز نگار محمد اسلام کی چھٹی کتاب ’’سرگوشیاں‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر شکیل فاروقی تھے۔ نفیس احمد خان نے نظامت کی۔ دیگر مقررین میں کیپٹن (ر) ضیا عالم‘ طارق جمیل‘ ڈاکٹر اعجاز منصوری‘ مجید رحمانی‘ م۔ص ایمن اور آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ بھی شامل تھے۔ اختر سعیدی نے محمد اسلام کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ تاجدار عادل نے مزید کہاکہ محمد اسلام نے اپنے قلم کے ذریعے معاشرے اور سماج پر بھرپور توجہ دی ہے انہوں نے مختصر نویسی کی روایت کو فروغ دیا مزید یہ کہ انہوں نے صحافت اور کالم نگاری میں اپنی شناخت بنائی ہے ان کی ہر کتاب نام اور نفس مضمون کے اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر شکیل فاروقی نے کہا کہ محمد اسلام کا مزاح پھکڑ پن نہیں ہے ان کی تحریر میں مقصدیت نمایاں ہے انہوں نے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ مہمان اعزازی شیخ طارق جمیل نے کہا کہ محمد اسلام کی تحریروں میں امید کی کرن نظر آتی ہے اسلام کی یہ کتاب دل چسپ بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ کیپٹن ارم ضیا عالم نے کہا کہ جس معاشرے میں خوشیوں کا فقدان ہے اس معاشرے میں محمد اسلام مسکراہٹیٍں بکھیر رہے ہیں۔ مجید رحمانی نے کہا کہ محمد اسلام نے مزاح کی تمام جہتوں پر کام کیا ہے ان کی کتابوں عنوانات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز منصوری نے کہا کہ محمد اسلام ایک قد آور ادبی شخصیت ہیں ان کی ہر کتاب ایک نئی لذت سے آشنا کرتی ہے۔ محمد اسلام نے کہا کہ وہ آرٹس کونسل کراچی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے یہ پروگرام ہوا۔ وہ نفیس احمد کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ ان کو مزید عزت و شہرت عطا فرمائے کہ جنہوں نے آج کا پروگرام ترتیب دیا وہ ان تمام لوگوں کے ممنون و شکر گزار ہیں جو آج میرے لیے اس پروگرام میں تشریف لائے۔