’’مام! میں کیا کروں، میری بالکل سمجھ میں نہیں آتا۔ ٹیچر ایک لفظ بھی اردو کا نہیں بولتیں، اور نہ ہی اردو میں سمجھاتی ہیں، انگلش میں ہی پڑھاتی اور سمجھاتی ہیں‘‘۔ عافیہ نے امی سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
یہ صرف ایک بچے کی پریشانی نہیں، بلکہ ہمارے نظام تعلیم میں اکثر اسکولوں میں یہی صورتِ حال ہے، جس کی وجہ سے بچے صرف اور صرف پڑھ رہے ہیں سمجھ کچھ نہیں رہے۔ تو کیا بغیر سمجھے پڑھنا ٹھیک ہے؟ بغیر سمجھے پڑھنا…یعنی رٹا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رٹے کی کیا اہمیت ہے؟ ظاہر ہے کچھ نہیں۔ اس طرح سے نہ ہی قابلیت میں کچھ اضافہ ہورہا ہے، اور نہ ہی بچوں میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو باہر نکلنے کا موقع مل رہا ہے۔ جو کچھ کتاب میں ہے وہی کاپی میں ہو بہو نقل کرکے اسی کو یاد کرکے امتحان دے دیا اور پوزیشن لے لی، یا ٹیچرز نے بنے بنائے نوٹس دے دیے اور وہی کاپی ہوگئے… یعنی ذہنوں کو ایک طرح سے سُلا دیا… اور جو لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کرنا چاہیں تو ان کو بھی مجبوراً اسی نظام تعلیم کا حصہ بننا پڑتا ہے۔
تمام ترقی یافتہ قومیں اپنی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دیتی ہیں، تاکہ وہ سمجھ کر پڑھیں اور ملک و قوم کی ترقی میں معاون ثابت ہوں۔ مگر ہمارے ملک کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انگریزی بولنے والے افراد کو ہی تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے اور انھی کو عزت بھی دی جاتی ہے۔ اگر دو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں جن میں سے ایک اردو اور ایک انگریزی میں بات کررہا ہو تو چاہے اردو بولنے والا کتنا ہی قابل اور پڑھا لکھا ہو، اُس کو انگریزی زبان بولنے والے سے کم تر ہی سمجھا جاتا ہے۔
اسکولوں کا معیار بھی انگلش میڈیم ہی ہے، جہاں اردو بولنے پر پابندی اور جرمانہ ہوتا ہے، جب کہ اگر اپنی زبان میں تمام مضامین پڑھائے یا صرف سمجھا بھی دیے جائیں تو ہمارا معیارِ تعلیم بہتر ہوسکتا ہے۔ مگر انگریزی الفاظ کے معنی بھی انگریزی میں ہی بتائے جاتے ہیں۔ دوسری زبانوں کا تو ہمارے ملک میں بہت کم ہی ذکر ملتا ہے۔ انگریزی کو چوں کہ معیار مان لیا گیا ہے اس لیے اسے سب سے زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی وقت کی ضرورت ہے، مگر اپنی زبان کو بالکل ہی نظر انداز کر دینا بھی عقل مندی نہیں۔
دوسری جانب ہمارا نصاب خصوصاً میٹرک اور انٹر کا نصاب انتہائی پرانا ہے۔ وہی پرانے شاعر اور ان کی عشقیہ شاعری، شاعروں کی زندگی کے حالات اور ان کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات…سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا نصاب پڑھانے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے! بس لکیر کے فقیر بن کر وہی برسوں سے پڑھے اور پڑھائے جا رہے ہیں۔ دنیا کیا سے کیا ہوگئی ہے مگر میٹرک اور انٹر کی اردو اور انگلش کی کتابیں تبدیل نہیں ہوئیں۔ اردو میں جو ایک آدھ مضمون تبدیل ہوا بھی ہے تو وہ اور زیادہ مشکل اور پرانی اردو کے الفاظ پر مشتمل ہے جسے سمجھنا مزید مشکل لگتا ہے۔اس صورتِ حال کے پیش نظر او لیول اور اے لیول اسکولوں کو لوگ ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن ان کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہر کوئی نہیں دے سکتا، اس لیے اب دو طبقے بن گئے ہیں جس کی وجہ سے بچپن ہی سے بچوں کے ذہن میں احساسِ برتری اور احساسِ کمتری سرایت کر جاتا ہے۔
ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں یکساں نصابِ تعلیم نافذ کیا جائے اور اسکولوں کی فیس کو بھی کنٹرول کیا جائے، تاکہ بچوں کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ وہ ایجادات کر سکیں جن کی ملک اور قوم کو ضرورت ہے۔