اخلاقی اور سماجی برائیوں کا فکرانگیز تجزیہ
لیکن یہ سامان آیا کہاں سے؟ ظاہر ہے کہ کچھ لوگ اسے لانے والے ہوں گے‘ وہ بھی برابر کے مجرم نہیںبلکہ اصل مجرم وہ ہیں‘ اس لیے ان پر بھی چھاپے مارے جانے چاہئیں اور ان کی سرگرمیوں کا مکمل سدباب ہونا چاہیے۔ اچھا تو اسمگلنگ کا سامان بیچنے والے ایک طبقہ ہوئے اور اسمگلنگ کرنے والے دوسرا طبقہ‘ لیکن اسمگلنگ کرنے والے اس وقت اسمگلنگ نہیں کرسکتے جب تک انہیں اسمگلنگ کو روکنے والے اداروں اور ایجنسیوں کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کسٹم اور پولیس والے بھی برابر کے شریک ہیں۔ یہ سلسلہ یوں ہی بڑھتا پھیلتا چلا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ایک برائی دوسری برائی کے ساتھ نتھی ہے‘ اس لیے ہمارے ضروری ہے کہ ہم مرکزی برائی کا تعین کریں اور ہم دیکھیں گے کہ اس کے سدباب کے ساتھ بہت سی برائیاں خود بخود غائب ہوگئی ہیں۔ شہر کے تمام نلوں میں پانی کے ایک ذخیرے سے پانی آتا ہے۔ اب اگر پانی کا ذخیرہ گندا اور گدلا ہے تو ہر نل میں گندا اور گدلا پانی آئے گا۔ اس کا علاج الگ الگ نلوں کو روکنا نہیں ہے بلکہ گدلے پانی کے ذخیرے کو بدلنا ہے۔ ہمارے نزدیک معاشرے کی تقریباً تمام برائیوں کی جڑ ایک ہے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا بگاڑ۔ برائی کا اصل سبب یہ ہے کہ برائی کو روکنے والے خود بگڑے ہوئے ہیں۔ جرائم کیوں ہوتے ہیں‘ کیوں کہ پولیس مجرموں کو نہیں پکڑتی۔ مجرموں کو پکڑنا ایک بات ہے وہ مجرموں سے تعاون کرتی ہے‘ بلکہ بعض جرائم میں خود شریک ہوتی ہے اس کے باوجود اگر کچھ مجرم پکڑے جاتے ہیں تو انصاف کرنے والے انصاف نہیں کرتے۔ خواہ اس سبب سے کہ قانونی پیچیدگیاں‘ جرم اور انصاف کے درمیان حائل ہو جاتی ہیں۔ خواہ اس سبب سے کہ انصاف بھی خریدا اور بیچا جاسکتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ برائیوںکا اصل سبب پولیس اور عدالتیں ہیں اور پولیس اور عدالتوں کا بگاڑ ہی ہے جو معاشرے کو کم از کم خارجی طور پردرست نہیں ہونے دیتا۔ اب پولیس اور عدالتوں کے بگاڑ کا اصل سبب رشوت ہے‘ پولیس مجرموں سے چشم پوشی‘ تعاون اور شرکت اس لیے کرتی ہے کہ رشوت کھاتی ہے‘ چنانچہ جرائم اور بدعنوانیوں کی حد تک معاشرے کی مرکزی برائی رشوت ہے۔ اس تجزیے سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوئیں۔
-1 ہمیں معاشرے کو جرائم اور بدعنوانیوں سے پاک کرنا ہے تو رشوت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا اور -2 رشوت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تو قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کو درست کرنا ہوگا۔ یہ ہمارا نقطۂ آغاز ہونا چاہیے۔
اب اگر ہمارا تجزیہ درست ہے تو ہم نے برائی کا مرکز دریافت کرلیا ہے۔ اسمگلنگ‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ چوری‘ ڈکیتی‘ اغواوہ تمام جرائم اور بدعنوانیاں جو معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں‘ برائی کے اسی مرکز سے پیداہوئی ہیں۔ اس مرکز کو درست کر دیا جائے تو معاشرے کی تین چوتھائی برائیاں ایک ساتھ دور ہو جائیں گی۔
ہمارا تجزیہ اور اس سے برآمد ہونے والا نتیجہ حکومت ہی کے اقدامات میں مضمر بنیادی تصور سے پیدا ہوا ہے۔ حکومت معاشرے کا علاج قانون کی سخت گیری سے کرنا چاہتی ہے اور قانون پائیدار اور مستقل طور پر اس وقت تک سخت گیر نہیں ہو سکتا جب تک خود اسے نافذ کرنے والے لوگ درست نہ ہوں۔ دوسرے معنوں میں احتساب کا عمل‘ محتسب کی درستی پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر محتسب خود احتساب کے قابل ہو تو معاشرے میں کسی قسم کا احتساب نہیں ہو سکتا‘ ہمارے نزدیک یہ تو آمنے سامنے کی بات ہے‘ اب اس پر مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔ حکومت اس سامنے کی بات کو تسلیم کر لے تو اسے برائیوں کو روکنے کے لیے شہر در شہر‘ محلہ در محلہ‘ بازار در بازار بھاگنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ پولیس اور عدالتوں یا دوسرے لفظوں میں قانون کے نفاذ سے تعلق رکھنے والی ایجنسیوں کیسے درست کیا جائے؟
پولیس کا اعلاج پولیس کا خاتمہ ہے۔ حکومت نے کبھی اس بات پر توجہ نہیں کی اور شاید یہ سوچ کر بات کو نظر انداز کر دیا کہ پولیس کے بغیر قانون کی عمل داری کیسے کی جاسکتی ہے‘ لیکن پولیس کے خاتمے کے معنی احتساب کے اس بنیادی ادارے کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے موجودہ اراکین‘ ہماری موجودہ پولیس‘ اپنی بھرتی‘ ترتبیت اور ذہنیت کے اعتبار سے ایک غیر ملکی حکومت کی یادگار ہے اور غلامی کے خاتمے کے بعد اسے ایک آزاد قوم کی ضروریات کے مطابق ازسرِ نو منظم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے‘ لیکن غلامی کے دور میں بھی وہ اتنی بگڑی ہوئی نہیں تھی جتنی آزادی کے پچھلے پچیس تیس سالوں میں بگڑی ہے اور اس کی موجودہ حالت ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ اسے پاکستان کے اسلامی‘ فلاحی اور مہذب نصب العین کی موجودگی میں ایک لمحے کے لیے بھی برداشت کیا جائے۔ یہی حال نچلے درجے کی عدالتوں کا ہے۔ اب اگر ہمیں اپنے ہدف کا صحیح علم ہے تو ہم اس پر صحیح نشانہ لگا سکتے ہیں۔ صحیح نشانہ لگانے کے لیے ہماری تجاویز یہ ہیں:۔
-1 معاشرے کی تطہیر کا آغاز پولیس کی تطہیر سے کیا جائے۔
-2 پولیس میں جو لوگ فرض شناس‘ ایماندار‘ اہل اور قانون پرست ہوں ان کی مدد سے بدعنوان عناصر کی نشان دہی کی جائے۔
-3 بدعنوان عناصر کی نشاندہی میں عوام کو بھی شریک کیا جائے۔
-4 جو لوگ بدعنوان ثابت ہوں خواہ وہ کسی عہدے اور منصب پر فائز ہوں اور خود اُن کی تعداد کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو‘ انہیں پولیس کے محکمے سے خارج کیا جائے۔
-5 بدعنوان عناصر کو نکالنے سے ان کے متعلقہ لوگوں میں جو بے چینی پیدا ہو سکتی ہے‘ اس کے سدباب کے لیے انہیں ایک دفعہ معاف کرکے دوسرے محکموں میں لگایا جائے۔
-6 معاشرے کی اصلاح ضرورت کے مطابق نیک‘ دیانت دار‘ فرض شناس اور قانون پرست لوگوں کو بھرتی کیا جائے اور ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ کیا جائے۔
-7 یہی عمل عدالتوں سے متعلقہ عملے میں کیا جائے۔
ان تجاویز میں کمی بیشی ہو سکتی ہے‘ لیکن اصل مسئلہ تو مسئلے کو سمجھنا ہے اور مسئلہ صرف اتنا ہے کہ قانون کا نفاذ صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو خود قانون پر چلتے ہوں۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ معاشرے کی تطہیر کا آغاز قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی تطہیر سے کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قانون کو امکانی حد تک فعال اور کارآمد بنا دیا گیا ہے۔ قانون فعال ہو کر ہی معاشرے میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں کو روک سکتا ہے۔ یہ اس بات کی ضمانت ہوگی کہ معاشرے میں قانون کو توڑنے والے کسی طرح بھی قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے اور معاشرہ ان کی ضرر رسانی سے محفوظ ہو جائے گا‘ اس طرح قانون کا منشا حقیقی معنوں میں پورا ہوگا اور ہم وہ نتائج حاصل کر سکیں گے جو قانون سے متوقع ہیں‘ اس کے ساتھ ہی معاشرے میں قانون کے احترام کی حقیقی فضا پیدا ہوگی اور اس فضا میں ممکن ہوگا کہ قانون مارشل لا کی طرح عارضی طور پر نہیں بلکہ مستقل اور دیرپا طور پر مؤثر ثابت ہو سکے گا۔ پھر کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ طاقت ور اور روپیہ والے لوگ قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں اور کمزور اور غریب لوگ اس کی زد میں آ جاتے ہیں یا قانون کسی خاص طبقے کے لوگوں کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے اور کسی خاص طبقے پر شیر ہو جاتا ہے۔ یوں معاشرے میں قانون کی کارفرمائی جرائم اور بدعنوانیوں کو خارجی طور پر روکنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہ حکومت کے بعض مقاصد کے حصول کی طرف ہمارا پہلا قدم ہے اس کی طرف دوسرا قدم ہم اس وقت اٹھائیں گے جب قانون کا احترام ہمارا داخلی مسئلہ بن جائے اور ہم جرائم اور بدعنوانیوں کو صرف خارجی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی داخلی تحریکات کی وجہ سے بڑا سمجھنے لگیں گے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے ہمارے اندر یہ داخلی تحریکات کس طرح مُردہ یا بے اثر ہوتی ہیں صرف اس تجزیے کے ذریعے ہم جان سکیں گے کہ ہم انہیں دوبارہ زندہ اور فعاِل کس طرح بنا سکتے ہیں جہاں معاشرہ ایک مذہبی معاشرہ ہے اور ہمارے تمام اخلاقی اصول بمارے مذہب کا جزو ہیں موجودہ صورت حال سے پہلے ہمارا معاشرہ جن اصولوںپر چلتا تھا اُن کے دو پہلو تھے ایک علمی دوسرا عملی۔ علمی پہلو کے تحت ہمارے علما‘ صوفیا‘ اساتذہ اور ادبیاتِ عالیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ لوگوں کو بتاتے تھے کہ بہتر اخلاق کیا ہے اور آدمی کو معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے۔ یہ دائرہ معاشرے میں اتنا وسیع ہو گیا تھا کہ ہر گھر میں ماں باپ اپنے بچوں کو اخلاقی اصولوں کا احترام سکھاتے تھے اور ہر چھوٹی بڑی بات پر تنبیہ کرتے تھے۔ اس علمی پہلو کے ساتھ ایک عملی پہلو بھی تھا کہ سکھانے والے جو کچھ سکھاتے تھے خود بھی اُس پر عمل کرتے تھے اور عمل دوسرے کے لیے نمونہ اور ترغیب بنتا تھا۔ معاشرے کا بگاڑ پہلے عمل میں شروع ہوا۔ لوگوں نے عمل میں اخلاقی اصولوں کی زیادہ پروا کرنی چھوڑ دی اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اخلاق کا عملی پہلو کمزور ہونے لگا‘ لیکن اس وقت اچھائی اور برائی کا اتنا احساس ضرور موجود تھا کہ لوگ جو برائی کرتے تھے اسے برائی کہتے تھے‘ برائی چھپا کر کی جاتی تھی اور اگر ظاہر ہو جاتی تھی تو اس پر جو کچھ سزا ملے یا ملامت کی جائے اس پر برائی کرنے والا خود بھی پچھتاتا تھا اور شرمندہ ہوتا تھا کہ اس نے برائی کی ہے۔ رفتہ رفتہ ہمارے اعمال کا اثر ہمارے خیالات پر بھی پڑنے لگا اور ہم برائی کو برائی کہنے کے بجائے اس کا جواز تلاش کرنے لگے۔ ہم نے اپنی ہر برائی کو یہ کہہ کر جائز بنانا شروع کر دیا کہ دوسرے بھی تو ایسا ہی کر رہے ہیں۔ آخر وہ وقت آگیا جب ہمارے اندر سے اچھائی اور برائی کی تمیز ہی ختم ہو گئی بلکہ ہم نے برائیوںکو اچھائی کا مرتبہ دینا شروع کر دیا۔ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہماری آنکھوں دیکھتے ہواہے اور اب نوبت یہ ہے کہ برائیوں کی اصلاح کی کوشش بھی ہمیں ناگوار گزرتی ہے۔ ان باتوں پر غور کیا جائے تو دو نتائج سامنی آتے ہیں (1) اچھائی برائی کی تمیز ایک داخلی چیز ہے۔ معاشرہ اپنی ابتدا میں ایسے لوگوںں کا محتاج ہوتا ہے جن میں یہ تمیز موجود ہو۔ پھر اس کے بعد یہ لوگ اپنے اخلاقی احساس کو دوسروں تک پہنچاتے اور ان کے لیے عمل کے اخلاقی سانچے بناتے ہیں۔ ان قوتوں کا کام اخلاق کی تعلیم دینا‘ عملاً اس کا نمونہ پیش کرنا اور معاشرے کے لیے اخلاقی سانچے بنانا ہوتا ہے۔ اس طرح معاشرہ اخلاقی احساس سے اخلاقی عمل کی طرف بڑھتا ہے۔ (2) اخلاقی بگاڑ کی صورت میں پہلے لوگ اخلاقی سانچوںکو توڑتے ہیں پھر انکا اخلاقی احساس کمزور ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ایک وقت میں وہ مکمل طور پر اس سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ اب ہمیں معاشرے کی اصلاح کا کام کرنا ہے تو اس کے لیےضرورت ہے۔ ہمیں خارجی سانچوں کو بھی بحال کرنا ہے اور داخلی احساس کو بھی‘ کیوں کہ داخلی احساس کے بغیر خارجی سانچے برقرار نہیں رکھے جاسکتے۔ معاشرے میں اخلاق کی خارجی شکل کو بحال کرنے کے ساتھ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی داخلی تربیت کا انتظام بھی کریں۔ یہ کام حکومت اور اس کا قانون نہیں کرسکتا لیکن حکومت کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔ یہ کام کرنے والے درج ذیل ہیں۔
-1 علما -2 صوفیا -3 اساتذہ -4 شعرا اور ادبا -5 والدین۔
ہمارے پرانے معاشرے میں ان تمام طبقات کا رول متعین تھا اور وہ اپنے حلقۂ اثر اور دائرۂ کار میں معاشرے کی رہنمائی اور صحیح عمل کی عزت کرتے تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ معاشرے میں اخلاق کی بحالی کے لیے ان تمام عناص کو کام میں لائے‘ ان کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں اپنی کام کی انجام دہی کے لیے ممکنہ سہولتیں بہم پہنچائے۔ اس کی پہلی شرط معاشرے میں ان طبقات کے احترام کو بحال کرنا ہے پھر اس کے ساتھ ہی ان طبقات میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ جس اجتماعی ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں حکومت اس میں پوری طرح ان کے ساتھ ہے اور ان کی کارکردگی کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ہمارے پرانے معاشرے میں اس کی عملی شکلیں موجود تھیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے مثلاً حکومت ان طبقات کی سرپرستی کرتی تھی‘ انہیں مالی مدد دیتی تھی‘ عوام میں ان کا احترام کرنے کے لیے انہیں خطابات اور دیگر اعزازات سے نوازتی تھی اور اس طرح بحیثیت مجموعی ان قوتوں کو آگے بڑھاتی تھی جو معاشرے میں اخلاق کے علمی و عملی پہلوئوں کی نمائندگی کرتے ہوں۔ ہماری حکومت کو بھی معاشرے کی داخلی تنظیم و تربیت کے لیے ان طبقات سے کام لینا اور انہیں باقاعدہ مدد دینی پڑے گی‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ ان طبقات میں اپنے ’’جی حضوری‘‘ پیدا کرے۔ ہمارے صوفیا نے اخلاق کی ترویج کے لیے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ آج تک معاشرے میں اخلاقی قدروںکا جتنا بھی احترام موجود ہے وہ انہی بزرگوں کے ناموں سے وابستہ ہے‘ لیکن ان میں سے کوئی بھی حکومت کا کاسہ لیس نہیں تھا۔ جب کہ زیادہ تر محل اور خانقاہ میں چشمک کی صورت رہتی تھی لیکن اس کے باوجود حکمران ان کی عزت اور اعانت کرتے تھے۔ حکومت اخلاق کی بحالی میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرکے ان طبقات کی مدد سے اپنے عقائد کے حصول کی طرف مؤثر قدم بڑھا سکتی ہے۔