حضرات ایک انسان دن کے چوبیس گھنٹوں میں بہت سارے عمل سے دو چار ہوتا ہے اور اس کا ہر عمل اسے محبوب ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کا عادی ہو چکا ہوتا ہے لیکن اس کا ایک عمل ایسا بھی ہے جس کے بغیر زندگی بے کیف سی لگتی ہے، آپ یقیناً تجسس میں مبتلا ہو گئے ہوں گے کہ آخر وہ کون سا ایسا عمل ہے جو انسانی زندگی میں کیف و سرور کی کیفیت پیدا کرتا ہے تو میرے مہربان آپ اس سے بخوبی واقف ہیں لیکن پھر بھی میں عرض کیے دیتا ہوں… اپنا مدّعا بیان کرنے کے لیے چچا غالب کے ایک شعر کے مصرعہء ثانی میں تھوڑی سی تحریف کرنے کی جسارت کر رہا ہوں…۔
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو ’’کھجلی‘‘ تو جینے کا مزہ کیا
لیجیے حضرات وہ عمل سامنے آ گیا اگر آپ اس پر غور کریں گے تو یقینا میری بات کی تائید کریں گے… آپ صبح گھر سے آفس جانے کے لیے روانہ ہوئے قمیص سفید رنگ کی سوٹ ہلکے رنگ کا …راستے میں گاڑی خراب ہو جاتی ہے قریب میں کوئی مکینک بھی نہیں ہے آپ مجبور ہیں گاڑی کا بونٹ کھول کر اپنے دونوں ہاتھ کالے کرنے کے لیے اِدھر آپ نے ہاتھ کالے کیے اور اُدھر کھجلی آپ سے بغل گیر ہوئی یعنی آپ کی بغل پر حملہ آور ہوئی اب آپ کیا کریں گے قمیض اور سوٹ داغ دار نہیں کر سکتے ابھی آفس بھی جانا ہے ادھر گاڑی خراب ہونے کی جھنجھلاہٹ ادھر کھجلی کی شدّت عجیب و غریب صورتِ حال ہے بہرحال آپ کسی طرح ہاتھوں کو صاف کریں گے اور جائے وقوعہ پر اپنے ہاتھ لے جا کر کھجلانے کا عمل شروع کریں گے اس وقت جو راحت آپ کو نصیب ہوگی اس کا اندازہ بخوبی آپ کو ہوگا اگر آپ اس طرح کے کسی حالاتِ ناساز گار سے گزرے ہیں تو… بہت ممکن ہے اس وقت یہ تحریف شدہ شعر آپ کے ذہن میں آ جائے…۔
نہ نہانے میں نہ محبوب کے کاشانے میں
چین ملتا ہے تو بھیّا مجھے کھجلانے میں
کھجلی بڑی ظالم شہ ہے اس وقت اپنا رنگ دکھاتی ہے جب انسان کے دونوں ہاتھ کسی دوسرے عمل میں مصروف ہوتے ہیں مثلاً خاتونِ خانہ آٹا گوندھ رہی ہیں دونوں ہاتھ آٹے سے سنے ہوئے ہیں ایسے نازک وقت میں ناک میں کھجلی ہونا لازمی ہے کیسی گمبھیرصورتِ حال ہے اسے صرف خاتونِ خانہ ہی سمجھ سکتی ہیں۔
دورانِ نماز اکثر احباب کے جسم کے مختلف حصّوں میں کھجلی اس طرح شروع ہوجاتی ہے گویا کھجلی منتظر تھی کہ بندہ نماز میں کھڑا ہو اور یلغار شروع ہو جائے کچھ نمازی بھائی برداشت کر لیتے ہیں جبکہ کچھ اس فتوے پر عمل کرتے ہیں کہ یہ ایک فطری عمل ہے جسے علماء کرام نے جائز قرار دیا ہے لہٰذا ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔
کھجلی اس وقت بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے جب بندہ ویگن میں محوِ سفر ہو اور کھڑا بھی ہو ویگن اپنے چاہنے والوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے بندہ نہ دائیں مڑ سکتا ہے نہ بائیں اس کا ایک ہاتھ ویگن کے اوپر کا ڈنڈا پکڑے ہوئے ہوتا ہے دوسرے ہاتھ میں اس کا بیگ یا کبھی کبھی بریف کیس بھی ہوتا ہے اب ایسی صورتحال میں جبکہ’’ نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی ‘‘اگر کھجلی بندے کی کمر کے پچھلے حصے کو نشانہ بناتی ہے تو بندہ کیا کرے گا کس طرح اپنی پیاس بجھائے گا یہی کرے گا نا کہ دائیں ہاتھ جو ویگن کا ڈنڈا پکڑے ہوئے ہے اسے خالی کرے گا بمشکل تمام ہاتھ پیچھے لے جائے گا اور آہستہ آہستہ کھجلانے کا عمل شروع کرے گا مگر اسے یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وہ اپنی کمر نہیں بلکہ پیچھے کھڑے ہوئے شخص کی توند کھجلا رہا ہے کیونکہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی توند موصوف کی کمر میں پیوست ہوکر یکجان ہو چکی ہے ۔
کھجلی ایک ایسا عملِ راحتِ جاں ہے کہ جب کھجلی زدہ انسان اس عمل میں مصروف ہوتا ہے تو اس وقت اسے کچھ اچھا نہیں لگتا سوائے کھجلانے کے۔ اکثر احباب کے کان میں کھجلی اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی سے محوِ کلام ہوتے ہیں بلاتکلّف یہ سوچے بغیر کہ مخاطب کون ہے میز پر پڑے کاغذ کی ایک پُھریری بناتے ہیں اور اسے کان میں ڈال کر کبھی دائیں کبھی بائیں گھمانا شروع کر دیتے ہیں مخاطب بڑے غور سے ان کے چہرے کے تغیّرات کا مشاہدہ کرتا ہے جو اس وقت قابل ِدید ہوتا ہے۔
ہمارے شعراء کرام نے بھی لفظ’ کھجلانا‘ استعمال کر کے اپنے اشعار میںاچھی خاصی کھجلی پیدا کی ہے، ایک مصرعہ ہے…۔
ـ’’خدا نے ہاتھ دیے ہیں بدن کھجانے کو‘‘۔
استاد ابراہیم ذوق ؔنے بھی اپنے تلوے کی کھجلاہٹ کوکیا خوب شعری پیراہن دیا ہے…۔
رخصت اے جوشِ جنوں زنجیرِدر کھڑکائے ہے
مژدہ خارِ دشت اب تلوا مرا کھجلائے ہے
بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ اگر ہاتھ میں کھجلی ہو تو پیسہ آنے والا ہے اگر پیر میں ہو تو سفر کرنے والا ہے اور اگر سارے جسم میں ہو تو اسے خارش کہتے ہیں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ڈاکٹر بیٹھا اپنا ہاتھ کھجلا رہا ہے۔