بچپن میں یہ واقعہ اپنی والدہ کی زبانی سنا تھا کہ حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے ایک نیک اور حق پرست مسلمان گزرے ہیں۔حضرت بایزید بسطامیؒ سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ درجہ کیسے حاصل ہوا۔ان کا جواب تھا کہ یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔وہ فرماتے ہیں میری والدہ بڑی ضعیف تھیں۔ایک رات انہوں نے پانی مانگا ۔اتفاق سے گھر میں پانی موجود نہیں تھا ۔باہر کنوں سے پانی لانا تھا ۔ سخت سردی کی رات تھی، بہر حال میں کنواں سے پانی لایا ۔جب میں پانی لیکر گھر پہنچاتو میری والدہ سو چکی تھیں۔میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ انہیں جگایا جائے۔ اگر میں پانی ان کے پاس رکھ دوں توجاگنے پر انہیں پتا نہیں ہوگا کہ پانی ان کے پاس رکھا ہے لہٰذا میں ان کے جاگنے تک پانی کا پیالہ لئے ان کے پاس ہی کھڑا رہا،یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ جب ان کی آنکھ کھلی وہ یہ دیکھ کر بڑی حیران ہوئیں کہ میرے بیٹے نے سردی کی رات کھڑے کھڑے گزار دی لٰہذا انہوں نے مجھے ڈھیروں دعائیں دیں ا ور میری بلندی درجات کی دعائیں کیں۔آج جو میں ہوں ان کی دعاؤں کی وجہ سے ہوں حضرت بابزید بسطامی کا یہ واقعہ خدمت میں عظمت کی نادر مثال ہے۔
جنت کا تصور آتے ہی ذہن میں خوبصورت خیالات کاتانابانا سا بننے لگتاہے۔ایک دلفریب حسین وادی جہاں خوب دلآویز اور شفاف نہریں بہہ رہی ہوں ۔گھنے اور پھل دار درختوں کا سایہ ہو۔کھانے پینے کی ہر شے موجود ہو۔ہر من چاہی شے باآسانی دستیاب ہو۔جہاں ہر جائز خواہش پلک جھپکنے سے پہلے ہی بروقت و باآسانی پوری ہوجائے۔ جب ہم نہریں، محلات، جنتی پھل، خیمے، سونا، موتی اور ریشم دیکھیں گے۔جہاں کوئی دکھن،جلن،حسد کینہ،فریب اور دغا بازیوں کا شائبہ تک نہ ہو۔جہاں کوئی کسی کی غیبت کرے اور نا ہی چغلی۔جہاں نفرت نہ ہو۔جہاں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہ ہو۔جہاں صرف امن ،پیار ،محبت،چین،سکھ اور آسودگی ہو۔جہاں موت کا خوف نہ ہو۔جہاں اپنے آپ سے پیار ہو۔جہاں کا ہر شخص پیارا ہواورجہاں صرف آسانیاں ہی آسانیاںہوں۔
کبھی جنت کا تصور کریں تو یہ دلکش خیالات ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ جہاں ہم اپنے بچھڑے ہوؤں سے باآسانی ملاقات کرسکیں گے۔جہاں ہر مریض شفایاب ہو۔سدا کا نابینا بھی بیناہوجائے۔سدا غمگین مسرور۔کمزور لاغر بوڑھا جوان توانا اور خوبصورت ہوجائے۔جہاں ہر فانی شے لافانی ہوجائے۔ایسی ہی ہوگی نا جنت۔جنت کا تصورتو کبھی میرے اور آپ کے ذہنوں میں آ ہی نہیں سکتا۔کیونکہ وہ تو ایسی جگہ ہے جو نا کسی آنکھ نے دیکھی نا کسی کان نے اس کے بارے میں سنا۔لیکن اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔اسی لیے خالق کائنات نےانسانوں کو والدین جیسی ہستی دے کراپنے بندوں کو جنت سے متعارف کروایا ہے۔
والدین ہی تو ہیں جو ہمیں اس دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں۔والدین کی بچپن سے جوانی تک ہر قدم پر رہنمائی اس بے رحم دنیا کی خطرناک چالوں سے اپنی اولادکو حد درجہ محفوظ رکھتی ہے۔ماں پیدائش سے کئی ماہ پہلے ہی سے اپنی اولاد کے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھتی ہے۔پھر پیدائش کی تمام تکالیف اپنے اوپر سہہ کر اولاد کو دنیامیں لانے کا موجب بنتی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِسایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے ۔ اس کی گرم گود سردی کااحساس نہیں ہونے دیتی ۔بچے کی پیدائش سے لے کر اسکے جوان ہونے تک کے تمام اخراجات باپ اپنے خون پسینے کی کمائی سے پورا کرتاہے۔زندگی کے ہر موڑ ہر امتحان ہر آزمائش میں ماں اور باپ اپنے کمزور اور ناتواں جانوں کا بوجھ لیئے اولادکے لیے ایک مضبوط ڈھال کی صورت میں اپنی عمر کے آخری حصے تک ایک مضبوط چٹان کی مانند کھڑے رہتے ہیں۔تاکہ اولاد اس بھری دنیا میں اپنے آپ کو اکیلا اور تنہا محسوس نا کرے۔
اولاد چاہے جتنی بھی بڑی،قد آور،مضبوط اور طاقتور کیوں نہ ہوجائے والدین کی نظر میں وہی مقام رکھتی ہے۔جیسے بچپن میں وہ اسکی قدم قدم پر رہنمائی کیا کرتے تھے۔اسی لئے انکی شفقت اور محبت بھری رہنمائی کو ہر گز نظر انداز یا فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔
والدین کی قدر اور انکی اہمیت کا اندازہ اولاد کو ٹھیک اس وقت ہوتاہے جب وہ خود اس مرتبے پر پہنچتی ہے۔وہ اپنے والدین پر ہونے والی مشکلات اور آزمائشوں کاصحیح طور پر اندازہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
دنیا کا ہر مذہب ہر تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک سب سے اہم ہے اور ان کا ادب و احترام ہر حال میں ضروری ہے۔ اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے اہم اور اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے۔
ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اے بندو! تم میرا شُکر کرو اور اپنے والدین کا شُکر ادا کرو، تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے-” ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے”تیرے پروردگار کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کےعلاوہ کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو-” سورۃ الاسراء میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : ’’ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ جو کچھ تمہارے دلو ں میں ہے اسے تمہارا رب بہ خوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے فرمایا: فلاں شخص برباد ہو ۔ دوسری سیڑھی پر چڑھتے ہوئے پھر یہی الفاظ کہے اور تیسری سیڑھی پر جب قدم رکھا تو پھر یہی الفاظ دہرائے۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ کون برباد ہو؟ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ایسا آدمی جو رمضان کا مہینہ پا کر بھی اپنے گناہ معاف نہ کراسکے، وہ آدمی برباد ہو۔ جو میرا نام سن کر مجھ پر درود نہ بھیجے، وہ آدمی بھی برباد ہو۔ اور جو بوڑھے والدین کو پاکر بھی اپنی مغفرت نہ کراسکے اور جنت میں نہ جاسکے۔‘‘ (مسلم)۔
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والدین کی خدمت کرنا تمہارے لیے جہاد ہے۔‘‘ (بخاری)۔
ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت رسول کریم ﷺ سے پوچھا وہ کون سا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ وقت مقررہ پر عبادت کرنا، پوچھنے والے نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل؟ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حُسن سلوک۔‘‘ (بخاری)۔
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں ۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔(صحیح بخاری)۔
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حُسن سلوک کرے (اور اپنے عزیزواقارب کے ساتھ بنا کر رکھے) اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔(مسند احمد بن حنبل)۔
ماں باپ کے آگے صرف تین وقت کی روٹی رکھ دینا ہی کافی نہیں ہے۔والدین کی اطاعت، فرمابرداری، ادب و آداب ہی باادب اور کامیاب انسان بناتے ہیں۔والدین کی دعائیں کامیابی کا زینہ ہیں جس کی بدولت آپ ایک کامیاب انسان بن کر ملک وقوم کا نام روشن اوراپنا جنت میں داخلہ ممکن بناسکتے ہیں۔ والدین کے غصے کے آگے آپ کی برداشت اور غفودرگزر ادب و آداب کی بہترین قابل تعریف مثال ہے۔ والدین کی ناراضی وقتی ہوتی ہے اور آپ کے اس عملی مظاہرہ سے والدین کے دل میں آپ کی جگہ بن جائے گی اور ان کی شفقت و محبت میں مزید بہتری آئے گی۔ آپ کی تقلید میں چھوٹے بہن بھائی اور گھر کے دیگر افراد بھی آپ کے نقش قدم پر چلیں گے۔اور پھر گھر جنت کانمونہ بن جائے گا۔
ہمارے والدین ہمارے لیئے باعثِ برکت اور رحمت ہیں۔یہی ہماری جنت ہیں۔ اس لیے ہمارا بھی فرض ہے کہ والدین کا حددرجہ خیال رکھیں۔ ان کہ کہنے سے پہلے ہر چیز اور سہولت ان کو فراہم کردیں۔ان کی خدمت کریں۔ کیونکہ ان ہی کی بدولت ہماری جنت اور جہنم ہے۔