(قسط نمبر 6)
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جُنوں میرا
جہاز میں جسمانی سفر کے ساتھ ساتھ ذہنی مشقت بھی جاری رہی، بلکہ ایک دوسرا سفر، تاریخ کا سفر شروع ہوگیا۔ اس سفر کا پہلا پڑائو چھٹی صدی عیسوی کا وہ لمحہ تھا جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ترکوں نے ماوراء النہر کے علاقوں ترکمانستان، منگولیا، چین، سائبیریا، برصغیر، فارس سے ایشیائے کوچک ہجرت کی۔ معاشی بدحالی کا شکار ترکوں نے ایک طرف تو سلاجقہ کی کئی ریاستیں بنا ڈالیں، تو دوسری طرف 22 ہجری میں صحابیِ رسولؐ سیدنا عبدالرحمٰن بن ربیعہ کے ذریعے اسلام اور مرکز خلافتِ راشدہ سے تعلقات استوار کیے۔ سیدنا عثمانؓ کے عہدِ خلافتِ راشدہ میں تو یہ جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے، اور بڑھتے بڑھتے اسلامی سلطنت میں ان کا اثر رسوخ اس قدر گہرا ہوگیا کہ عباسیوں کے خاص معتمد قرار پائے اور سلطنت کے اہم مناصب پر فائز ہوئے۔
گیارہویں صدی عیسوی میں سلاجقہ کی ایک متحد قوت اور سلطنت تشکیل پائی۔ سردار طغرل بیگ نے بکھرے ہوئے سلاجقہ کو یکجا کیا۔ اس اتحاد کو اُس کے بھتیجے الپ ارسلان نے استحکام بخشا۔ سلاجقہ کے سیاسی مقام اور فتوحات کی تاریخ اور داستان بہت طویل ہے جو ترکوں کی شجاعت اور جراں مردی کی دلکش تصویر بھی ہے۔ عظیم سلجوتی مملکت کا خاتمہ 524ھ/ 1128 عیسویں میں ہوا۔ تاریخ نے نیا ورق پلٹا اور ’’سلطنتِ عثمانیہ‘‘ کا دروازہ کھلا۔
بابِ خلافت
تصوراتی اور ذہنی سفر کا دوسرا نشانِ راہ ترکوں کی سیاسی، معاشی، مذہبی اور قومی، عالمی تاریخ کا رفیع الشان باب سلطنتِ عثمانیہ کا قیام، خلافت کا احیاء، اسلام کا بطور نظام مملکت و سیاست نفاذ، اور 621 سال تک یورپ، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے کم و بیش چالیس ملکوں اور پانچ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر ناقابلِ فراموش حکومت و اقتدار کا سنہرا دور اور قابلِ فخر باب ہے۔ اندازہ لگائیے حکومت و سلطنت کی وسعت کا کہ جس کے انتظامی صوبوں کی تعداد 29 تھی۔ اس سلطنت کے بانی عثمان اوّل تھے، جن کے بیٹے اورخان بن عثمان نے اسے استحکام بخشا۔ فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح، ارطغرل غازی، سلطان مراد اِن کے قومی ہیرو تھے۔ ان کے ساتھ ہزاروں امراء، حکام اور فوجی قائدین کے کارنامے بھی اس سنہری باب کی روشن کرنیں ہیں۔
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
مولانا محمد علی جوہرؒ اور ان کے بھائی شوکت علیؒ کی خلافت کے تحفظ و بقاء کے لیے طویل جدوجہد جس میں برصغیر سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے دامے، درمے اور سخنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اس لیے تھی کہ سلطان عبدالحمیدؒ نے احیائے اسلام اور نشاۃ ثانیہ کے لیے حیران کن حد تک بے مثال کارنامے سرانجام دیے۔
تصوراتی سفر کی ایک اہم منزل، سلطان عبدالحمیدؒ کا عہدِ خلافت تھا، جہاں کچھ زیادہ وقت لگ گیا، اس لیے کہ اس شخص کے دامنِ خلافت پر اسلام سے گہری وابستگی کا تمغا سجا ہوا تھا۔ سلطان نے جہاں یورپی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کیا، وہاں کے سفر کیے، ان پر غور و فکر کرکے انہیں اپنے زیر تسلط علاقوں میں رائج کرنے کی کوشش کی، وہیں اُس کا پختہ نظریہ یورپ کی فکری و تہذیبی یلغار کا راستہ روکنا بھی تھا۔ اس نے شعوری اور عملی طور پر اس کے حوالے سے اقدامات کیے۔ بے شمار فلاحی اقدامات اور فوجی اصلاحات کے ساتھ اخوتِ اسلامی اور اتحادِ بین المسلمین کو فروغ دے کر سلطنتِ عثمانیہ کی پہچان ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کو بنا ڈالا۔ سلطان کے بے شمار کارناموں میں سے ایک انتہائی قابلِ ذکر و فخر کارنامہ شام و دمشق سے مدینہ تک ریلوے لائن کی تعمیر اور ٹرین سروس کا آغاز تھا۔ 1908ء میں پہلی ٹرین مدینہ پہنچی۔ اس سے چالیس دن کا سفر بیس دنوں تک محدود ہوگیا۔
وائے ناکامی۔ متاعِ کارواں جاتا رہا
یہودیوں اور عیسائیوں نے حسبِ روایت مسلمانوں اور اس عظیم خلافتِ عثمانیہ کے خلاف مسلسل سازشیں کیں اور عظمت و شوکتِ اسلام کا یہ عظیم نشان اور وحدتِ اُمت کا یہ فقیدالمثال مظہر، 36 خلفائے عثمانیہ کے تخت و تاج کو سلامِ عقیدت و محبت پیش کرنے کے بعد 1922 عیسوی میں صفحۂ ہستی سے تو مٹ گیا، البتہ تاریخ کے صفحات پر امر ہوگیا۔
قرآنِ عظیم نے یہود و نصاریٰ سے دوستی، نیاز مندی، رازداری اور گہرے روابط سے بارہا منع کیا۔ مگر ہم بدنصیب مسلمان عطار کے اسی لونڈے سے دوا لینے پر اس طرح مجبور کردیے گئے کہ احساسِِ زیاں سے بھی عاری ہوگئے۔ رازداری، گلوبل ویلیج، عالمی تقاضوں، انسانیت کے مفادات، امنِ عالم کی سلامتی اور تحفظ و بقاء کے نام پر اس طرح ریجھائے، بہلائے، پھسلائے گئے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنے جسم و جاں، تہذیب و ثقافت، حتیٰ کہ قومی و ملّی مفادات اور دینی مسلّمات پر بھی حاوی کربیٹھے۔ شاید یہی کچھ خلافتِ عثمانیہ میں 20 ویں صدی میں ہوا، اور شاید یہی اکیسویں صدی میں 50 سے زائد اسلامی سلطنتوں میں 2 ارب مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔
ترکوں کی پہلی مہمان نوازی
ذہنی سفر کے ابھی دو مقامات ہی طے ہوئے تھے کہ برتنوں اور ٹرالیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ تصور کی دنیا سے گردوپیش کی دنیا میں لوٹا تو معلوم ہوا کہ ہمارے میزبان ترک جہازی بھائی بہنیں ہمیں ترکی کھانے سے شادکام کرنے والے ہیں۔ ترکی کھانوں کے بارے میں خاصا سن رکھا تھا۔ دلکش رنگوں والے مختلف اقسام کے کھانے، لذت و نفاست اور ذائقے میں بے مثال تو تھے ہی، ترکی میں 8 دن کے سفر اور کھانوں کے مواقع پر ان کی بھاری بھرکم مقدار کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کا تذکرہ آگے چل کر کریں گے۔
رات کے سفر اور صبح کے حضر، اور ایئرپورٹ کی مشقت سے بھوک بھی جاگ چکی تھی اور اشتیاق بھی فزوں تر تھا کہ ترکی سرزمین سے پہلے ترکی ذائقہ تو چکھ ہی لیا جانا چاہیے۔ حدیثِ مبارک بھی ہے کہ جب کسی دوسرے شہر جائو تو پہلے وہاں کا نمک چکھ لو۔
فضائی میزبان نے ایک بھاری بھرکم سیل شدہ لفافہ پیش کیا، جس میں کچھ نمکین اور میٹھی غذائیں یکے از ڈبل روٹی وغیرہ، جوس، پانی شامل تھے۔ بڑی بے تابی سے کھانے لگے تو ایک دم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے صدر شعبہ عربی و اسلامیات پروفیسر ڈاکٹر غلام شمس الرحمٰن صاحب کے ساتھ چند سال پہلے ترکی میں پیٹ کی شدید خرابی کا واقعہ یاد آگیا۔ شاید کثرتِ طعام کے باعث یا تبدیلیِ خوراک کے سبب وہ ساری رات دردِ شکم سے تڑپتے رہے۔ کسی سے مدد بھی نہ لے سکے، نہ اپنی تکلیف بتا، سمجھا سکے۔ اگلی صبح اُن کے میزبان نے بتایا کہ میڈیکل اسٹور یا ڈسپنسری تو آپ کے ہوٹل سے چند قدموں کے فاصلے پر موجود تھی۔
مسافرانِ ترکی کے لیے یقیناً دو آزمائشیں ہیں۔ ایک زبانِ ترکی نمی دانم۔ دوسرا ترکی کھانوں کا اشتہاء۔ ہم پاکستانی بھی کیا کریں! ایک تو پیسے پورے کرنے کا شوق، دوسرا قوتِ گویائی (ترکی زبان) سے ناواقفیت، تیسرا اشتہاء انگیز، رنگ برنگے کھانوں کا طویل اور وافر سلسلہ۔ بہرحال احتیاط بھی لازم ہے، اور شدتِ شوق پر قابو بھی… اور حسبِ مزاج پاکستانی ادویاتِ لکڑ ہضم، پتھر ہضم کا ساتھ بھی!!
اب تو آجا، کہ ترا انتظار کرتے کرتے
آنکھوں میں کھٹکنے لگی بینائی بھی
ترکی پہنچنے کا اشتیاق اس قدر تھا کہ حواسوں پر طاری تھا۔ رات کا سفر، رَت جگا، اور کبھی اسکرین کے اعداد و شمار دیکھتے اور کبھی کھڑکی سے نیچے جھانک کر ترکی کی محبوب سرزمین کو تلاش کرتے۔ شاعر نے تو اپنے اشتیاق کا اظہار کسی ’’محبوب‘‘ یا ’’محبوبہ‘‘ کے وَصل کے اشتیاق اور جذبوں سے مغلوب ہوکر اس شعر میں کیا تھا، مگر ہمیں یہ شعر ترکی کی فضائوں، ہوائوں اور سرزمین کی سرشاری میں یاد آگیا۔ اگست سے شروع ہونے والا وفورِ شوق اب نومبر کی تیسری صبح کو اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ سفر کی تھکاوٹ اور شدتِ انتظار نے اس شعر کو لفظاً لفظاً مجسم بامعنی کردیا۔
شوق ترا اگر نہ ہو ترے ’’سفر‘‘ کا امام
یہ حقیقت کچھ باعثِ تعجب نہیں کہ ترکی کے ساتھ دینی، روحانی، فکری اور ملّی رشتوں اور نئے ابھرتے ہوئے ترکی کو دیکھنے کی جستجو اگر ہمارے سفر کی امام نہ ہوتی، تو بلاشبہ محض عمارات، سڑکوں، لوگوں، کھانوں اور ہوٹل کی لابیوں کو دیکھنے کا نہ کوئی مقصد تھا نہ ہدف۔ ترکی اور اہلِ ترکی سے محبت کی تہ میں اخوت اور بھائی چارے کے ساتھ فکری اور روحانی رابطوں کے مضبوط سلسلے نے اس آتشِ عشق کو مزید بھڑکا دیا، اور ہم محبت و اخوتِ اسلامی میں سرشاری کی کیفیتوں سے لمحہ بہ لمحہ مزید دوچار ہوتے رہے۔ ترکی جو دل سے قریب مگر تاحال جسم سے دور تھا اس کی سرزمین پر قدم رکھنے اور محبت کی فضائوں کو سونگھنے کے لیے بے قرار و بے چین تھے۔
جہاز میں ہلچل
بصیرت کی نگاہ سے دل میں ترکی کی محبت کے جام پینے، تصورات کی آنکھ سے ترکی کی تاریخ اور قومی شکست و ریخت کے تاریخی اورق پلٹتے اور 2023ء میں ’’مردِبیمار‘‘ کو مکمل صحت یاب، توانا، متحرک، فعال اور مؤثر ہوتا دیکھنے کے اُمید افزاء خوابوں سے جہاز میں برپا ہونے والی ہلچل نے بیدار کردیا۔ تقریباً چھ گھنٹے کی فضائی اور خیالی اڑان اور پُرسکون ماحول کے بعد اس اچانک سرگرمی کا محرک سرزمینِ ترکی میں داخلے کی اطلاع تھی، اور یہ خبر کہ استنبول کا نیا اور شاندار اور دنیا کا جدید ترین، مصروف ترین اور بڑا ایئرپورٹ قریب سے قریب تر آرہا ہے۔
(جاری ہے)