آج کی غزل، زندگی کے مسائل کی آئینہ دار ہے، رفیع الدین راز

193

ایک زمانہ تھا کہ بہاریہ شاعری میں محبوب کی سراپا نگاری ہوتی تھی‘ ہر شاعر گل و بلبل‘ لب و رخسار کی باتیں کرتا تھا۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک نے شعرا میں یہ تحریک پیدا کی کہ وہ زندگی کے مسائل کو شاعری میں شامل کریں کیوں کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور مظلوم کی حمایت کرنا شاعری کا غیر تحریری منشور ہے‘ مزاحمتی شاعری اسی نکتۂ نظر کی پیداوار ہے اب خوش آئند صورت حال یہ ہے کہ غزل میں زندگی موجود ہے‘ معاشرے میں پھیلے ہوئے تمام مسائل کی نشاندہی غزل میں نظر آرہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار امریکا میں مقیم پاکستانی شاعر رفیع الدین راز نے بزم تقدیس ادب پاکستان کراچی کے مشاعرے میں کیا-
انہوں نے اپنی صدارت میں ہونے والے اس مشاعرے میں مزید کہا کہ دبستان کراچی میں ادبی محفلیں ہو رہی ہیں بہت اچھی شاعری سامنے آرہی ہے‘ دبستان پنجاب کی اردو نوازی کے سبب اردو زبان و ادب ترقی کر رہی ہے۔ ناظم مشاعرہ احمد سعید خان نے کہا کہ شعرا بہت حساس ہوتے ہیں‘ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو لکھتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ ان کی نگاہیں آنے والے زمانے پر ہوتی ہیں وہ ہمیں حال و مستقبل سے باخبر رکھتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ کراچی کے تمام شعرا ہمارے مشاعروں کا حصہ بنتے رہے ہیں‘ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔
بزمِ تقدیس ادب کے اس مشاعرے کے صدر رفیع الدین راز تھے۔ ساجد رضوی اور ظہور الاسلام جاوید مہمانان خصوصی تھے۔ حیدر رضا زیدی اور اکرم رازی نے ترنم سے نعتیہ اشعار پیش کیے جب کہ صدر‘ مہمانان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ڈاکٹر مظہر حامد‘ آصف رضا رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ علی اوسط جعفری‘ عبیداللہ ساگر‘ حامد علی سید‘ سخاوت علی نادر‘ محمد گوہر‘ آسی سلطانی‘ احمد خیال‘ الحاج نجمی‘ اکرام الحق اورنگ‘ افضل ہزاروی‘ تنویر سخن‘ واحد رازی‘ ضیا حیدر زیدی‘ شائق شہاب اور چاند علی چاند نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔

عبدالمجید محور کے لیے تقریبِ پذیرائی اور مشاعرہ

کراچی میں جو تنظیمیںاردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں ان میں بزمِ شعر و سخن بہت اہمیت کی حامل ہے‘ اس ادارے کے عہدیداران و اراکین شاعر نہیں ہیں پھر بھی مشاعرے اور ادبی پروگرام کراتے رہتے ہیں۔ اس تنظیم میں باقاعدہ خفیہ ووٹنگ کے ذریعے عہدیداروں کا انتخاب ہوتا ہے یہ جمہوریت پسند لوگوں کی تنظیم ہے اس تنظیم کے تحت مورخہ 13 فروری 2021ء کو عبدالمجید محور کے لیے تقریب پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں رفیع الدین راز صدر تھے‘ رونق حیات اور نسیم شیخ مہمانانِ خصوصی تھے۔ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوت کلامِ مجید کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی۔ نورالدین نور نے نعت رسولؐ پیش کی۔ تقریب کے پہلے مقرر نظر فاطمی نے کہا کہ عبدالمجید محور بڑی دل جمعی سے اشعار کہہ رہے ہیں یہ اعجاز رحمانی کے قابل فخر شاگردوں میں شامل ہیں‘ ان کی شاعری میں زبان و بیان کی خوبیاں موجود ہیں۔ اختر سعیدی نے عبدالمجید محور کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ رونق حیات نے کہا کہ عبدالمجید محور ‘قمر جلالوی کے دبستان کا ایک درخشاں ستارہ ہے جو شعر و سخن کے میدان میں ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے رفیع الدین راز نے کہا کہ عبدالمجید محور بہت نفیس انسان ہیں ان کے لیے محفل سجانا ایک اچھا عمل ہے انہوں نے مزید کہا کہ شاعری کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ بزم شعر و سخن کے جنرل سیکرٹری عبید ہاشمی نے کہاکہ ادب کی پروموشن میں ہر شخص کا حصہ ہونا چاہیے کیوں کہ ادب برائے زندگی ہے شعرائے کرام کی اہمیت یہ ہے کہ وہ بڑے سے بڑا واقعہ یا کوئی اہم مسئلہ صرف دو مصرعوں میں بیان کر دیتے ہیں مزید یہ کہ شاعری ہمیں ذہنی آسودگی فراہم کرتی ہے۔ بزم شعر و سخن کے سابقہ صدر طارق جمیل نے کہاکہ خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی میں تواتر کے ساتھ ادبی تقریبات ہو رہی ہیں ورنہ پہلے امن وامان کے مسائل سے زندگی کا ہر طبقہ پریشان تھا انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کی مزید ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یہ زبان سرکاری اداروں میں عملی طور پر نافذ ہو۔ صاحبِ اعزاز عبدالمجید محور نے کہا کہ وہ بزم شعر و سخن کے ممنوں و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے یہ پروگرام ترتیب دیا اس مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ رونق حیات‘ نسیم شیخ‘ حنیف عابد‘ عبدالمجید محور‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ احمد سعید خان‘ سخاوت علی نادر‘ نورالدین نور‘ تنویر سخن‘ عطا محمد تبسم‘ شائستہ سحر‘ شائق شہاب‘ یحییٰ چوہان‘ ڈاکٹر ثمر گل‘ حمیرا ثروت صدیقی اور چاند علی چاند شامل تھے۔ اس تقریبات میں بزم شعر و سخن کی جانب سے عبدالمجید محور کو شیلڈ اور تحائف پیش کیے گئے جب کہ دوسرے لوگوں نے بھی عبدالمجید محور کو تحفے پیش کیے۔

حصہ