آسیہ بنتِ عبداللہ کی کتاب ’’گمنام سپاہی‘‘ مائوں کے لیے تربیت کی کئی راہیں کھولتی ہے۔ بچوں سے بات کرنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ کہانی، کہانی میں اللہ اور رسولؐ کی محبت کا عرق پلاتی ہے۔ پاکستان سے محبت کا قرینہ سکھاتی ہے۔ وقت کی اہمیت کے ساتھ اس کی قدر اور صحیح استعمال کا احساس دلاتی ہے۔ یہ کہانی کی ایک ایسی کتاب ہے جسے بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی پڑھنا چاہیے۔
شر کا طوفان جس طرح ہمارے معاشرے، خاندان اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ بہا لے جانے کی تگ و دو میں ہے ایسے میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے محاذ پر ڈٹ جائے، جو کچھ بن پڑے، کرے۔
اس کہانی میں والدین سے محروم بچے تربیت ہی کے سہارے تعلیم اور خدمت کے میدان میں آگے بڑھتے ہیں۔ ’’گمنام سپاہی‘‘ کی تربیت حاصل کرکے ان لاکھوں اور کروڑوں گمنام سپاہیوں کے لشکر میں شامل ہوتے ہیں جو ہر زمانے میں باطل سے برسرِپیکار رہے۔
مصنفہ ’’گمنام سپاہی‘‘ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’اس کی کوئی وردی ہے نہ عہدہ، نہ گریڈ ہے نہ تنخواہ۔ گمنام سپاہی کا اجر صرف اللہ رب العالمین کے پاس سے ہی ملے گا اور بہت خوب ملے گا۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے خود بھی اس کارگاہِ حیات میں ایک بھرپور گمنام سپاہی کی طرح ہی زندگی گزاری۔ اللہ ان کی ہر قلمی اور علمی کوششوں کو قبول فرمائے۔
انتہائی ارزاں قیمت پر تربیت کا یہ ’’اوزار‘‘ ہر گھر کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کو ڈاکٹر صفیہ سلطانہ صدیقی نے شائع کیا ہے۔ سرورق مصنفہ کے بیٹے مشہور آرٹسٹ اے کیو عارف نے بنایا ہے جن کو صدارتی اعزاز ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ کے علاوہ بہت سے ایوارڈ حاصل ہوئے ہیں۔ کتاب کے اختتام پر وہ اپنی والدہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’میں آج جو کچھ بھی ہوں سب امی کی دعائوں سے اللہ نے مجھے عطا کیا ہے، اور میرا گھرانہ اللہ کے بعد امی جان کا سب سے زیادہ شکر گزار ہے۔ مجھے اب تک جتنے ایوارڈ ملے ہیں اُن میں سب سے بڑا ایوارڈ یہ ہے کہ میں آسیہ بنت ِعبداللہ صدیقی کا بیٹا ہوں۔‘‘
یقینا سعادت مند اولاد ہر ماں کے لیے اللہ کی طرف سے خاص تحفہ ہوتی ہے اور یہ تحفہ آسیہ بنت ِ عبداللہ کو حاصل ہے۔