کہاوت کہانی

236

یہ منہ اور مسور کی دال

اس کہاوت سے ایک قصہ وابستہ ہے۔
مغلیہ حکومت کی آخری سانسیں تھیں ۔ بادشاہ وقت کا خزانہ خالی تھا اور سلطنت فقط نام کی ہی رہ گئی تھی۔ شاہی باورچی بھی اِدبار(پریشانی) کا شکار ہو کر قسمت آزمانے شہر سے باہر چلا گیا اور ایک راجہ صاحب کے دربار میں جا کر ملازمت کا خواستگار ہوا۔ جب راجہ صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ شخص شاہی باورچی رہ چکا ہے تو امتحان کی غرض سے اس کو مسور کی دا ل پکانے کو کہا۔ ساتھ ہی وزیر خزانہ کو حکم دیا کہ باورچی اخراجات کے لیے جتنی رقم مانگے اس کو فراہم کر دی جائے۔ شام کو جب راجہ صاحب کے سامنے مسور کی دال آئی تو وہ اتنی لذیذ تھی کہ راجہ صاحب تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔ یک لخت ان کو یاد آیا کہ باورچی کبھی شاہان مغلیہ کی خدمت میں رہ چکا تھا۔ گھبرا کر پوچھا کہ’’ اس دال پر کتنے روپے خرچ ہوئے ہیں ؟‘‘۔ باورچی نے دست بستہ عرض کی’’ حضور! دو پیسے کی دال تھی اور بتیس روپے کے مصالحے‘‘۔ راجہ صاحب کے چھکے چھوٹ گئے۔ فرمایا’’ دو پیسے کی دال میں بتیس روپے کے مصالحے؟ بھلا ایسے کیسے کام چلے گا؟‘‘۔ باورچی نے شاہی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اس نے کب ایسی بات سنی تھی۔ اسی وقت جیب سے بتیس روپے اور دو پیسے نکال کر راجہ صاحب کے سامنے رکھے دیے اور یہ کہہ کر چل دیا کہ ’’صاحب یہ رہے آپ کے پیسے۔ یہ منہ اور مسور کی دال!‘‘۔
یہ کہاوت تب استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص ایسی فرمائش کرے جس کا خرچ اٹھانے کی اجازت اس کی جیب نہ دے۔

حصہ