(بیسواں حصہ)
تخفیفات کے عام اصول
اسلامی قوانین میں حالات اور ضروریات کے لحاظ سے احکام کی سختی کو نرم کرنے کی بھی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فقہ کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے الضرورات تبیح المحظوراتِ اور المشقۃ تجلب التیسیر۔ قرآن مجید اور احادیث نبویؐ میں بھی متعد مواقع پر شریعت کے اس قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا مثلاً
’’اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں ڈالتا۔‘‘ (البقرہ: 286)۔
’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (البقرہ : 185)۔
’’اس نے تم پر دین میں سخت نہیں کی ہے۔‘‘ (الحج: 10)۔
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دین وہ ہے جو سیدھا سادا اور نرم ہو۔ اسلام میں ضرر اور ضرار نہیں ہے۔‘‘
پس یہ قاعدہ اسلام میں مسلم ہے کہ جہاں مشقت اور ضرر ہو وہاں احکام میں نرمی کر دی جائے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہر خیالی اور وہمی ضرورت پر شریعت کے احکام اور خدا کی مقرر کردہ حدود کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اس کے لیے بھی چند اصول اور ضوابط ہیں جو شریعت کی تحقیقات پر غور کرنے سے با آسانی سمجھ آسکتے ہیں۔
اولاً یہ دیکھنا چاہیے کہ مشقت کس درجہ کی ہے۔ مطلقاً ہر مشقت پر تو تکلیف شرعی رفع نہیں کی جاسکتی‘ ورنہ سرے سے کوئی قانون ہی باقی نہ رہے گا۔ جاڑے میں وضو کی تکلیف‘ گرمی میں روزے کی تکلیف‘ سفرِ حج اور جہاد کی تکالیف‘ یقینا یہ سب مشقت کی تعریف میں آتی ہیں‘ مگر یہ ایسی مشقتیں نہیں ہیں جن کی وجہ سے تکلیفات ہی کو سرے سے ساقط کر دیا جائے۔ تخفیف یا اسقال کے لیے مشقت ایسی ہونی چاہیے۔ جو موجبِ ضرر ہو‘ مثلاً سفر کی مشکلات‘ مرض کی حالت‘ کسی ظالم کا جبر و اکراہ‘ تنگ دستی‘ کوئی غیر معمولی مصیبت‘ فتنۂ عام یا کوئی جسمانی نقص۔ ایسے مخصوص حالات میں شریعت نے بہت سے احکام میں تخفیفات کی ہیں اور ان پر دوسری تخفیفات کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔
ثانیاً تخفیف اسی درجہ کی ہونی چاہیے جس درجہ کی مشقت اور مجبوری ہے‘ مثلاً جو شخص بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اس کے لیے لیٹ کر پڑھنا جائز نہیں۔ جس بیماری کے لیے رمضان میں دس روزوں کا قضا کرنا کافی ہے اس کے لیے پورے رمضان کا افطار ناجائز ہے۔ جس شخص کی جان شراب کا ایک چلّو پی کر یا حرام چیز کے ایک دو لقمے کھا کر بچ سکتی ہے وہ اس حقیقی ضرورت سے بڑھ کر پینے یا کھانے کا مجاز نہیں ہے۔ اسی طرح طبیب کے لیے جسم کے پوشیدہ حصوں میں سے جتنا دیکھنے کی واقعی ضرورت ہے اس سے زیادہ دیکھنے کا اس کو حق نہیں۔ اس قاعدہ کے لحاظ سے تمام تخفیفات کی مقدار‘ مشقت اور ضرورت کی مقدار پر مقرر کی جائے گی۔
ثالثاً کسی ضرر کو دفع کرنے کے کوئی ایسی تدبیر اختیار نہیں کی جاسکتی جس میں اتنا ہی یا اس سے زیادہ ضرر ہو بلکہ صرف ایسی تدبیر کی اجازت دی جاسکتی ہے جس کا ضرر نسبتاً خفیف ہو۔ اسی کے قریب قریب یہ قاعدہ بھی ہے کہ کسی مفسدہ سے بچنے کے لیے اس سے بڑے یا اس کے برابر کے مفسدہ میں مبتلا ہو جانا جائز نہیں۔ البتہ یہ جائز ہے کہ جب انسان دو مفسدوں میں گھر جائے اور کسی ایک میں مبتلا ہونا بالکل ناگزیر ہو تو بڑے مفسدہ کو دفع کرنے کے لیے چھوٹے مفسدہ کو اختیار کرے۔
رابعاً جلب مصالح پر دفع مفاسد مقدم ہے‘ شریعت کی نگاہ میں بھلائیوں کے حصول اور مامورات و واجبات کے ادا کرنے کی بہ نسبت برائیوں کو دور کرنا اور حرا سے بچنا اور فساد کو دفع کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے اسی لیے وہ مشقت کے موقع پر مامورات میں جس فیاضی کے ساتھ تخفیف کرتی ہے‘ اتنی فیاضی ممنوعات کی اجازت دینے میں نہیں برتتی۔ سفر اور مرض کی حالتوں میں‘ نماز‘ روزے اور دوسرے واجبات کے معاملے میں جتنی تخفیفیں کی گئی ہیں اتنی تخفیفیں ناپاک اور حرام چیزوں کے استعمال میں نہیں کی گئیں۔ خامساً مشقت یا ضرر کے زائل ہوتے ہی تخفیف بھی ساقط ہو جاتی ہے‘ مثلاً بیماری رفع ہو جانے کے بعد تیمم کی اجازت باقی نہیں رہتی۔
مسئلہ سود میں شریعت کی تخفیفات
مذکورہ بالا قواعد کو ذہن نشین کر لینے کے بعد غور کیجیے کہ موجودہ حالات میں سود کے مسئلے میں احکامِ شریعت کے اندر کس حد تک تخفیف کی جاسکتی ہے۔
-1 سود لینے اور سود دینے کی نوعیت یکساں نہیں ہے۔ سود پر قرض لینے کے لیے تو انسان بعض حالات میں مجبور ہو سکتا ہے لیکن سود کھانے کے لیے درحقیقت کوئی مجبوری پیش نہیں آسکتی۔ سودپر تو وہی لے گا جومجبور ہوگا۔ مال دار کو ایسی کیا مجبوری پیش آسکتی ہے جس میں اس کے لیے حرام حلال ہو جائے۔
-2 سودی قرض لینے کے لیے بھی ہر ضرورت مجبوری کی تعریف میں نہیں آتی۔ شادی بیاہ اور خوشی و غمی کی رسموں میں فضول خرچی کرنا کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے۔ موٹر خریدنا یا مکان بنانا کوئی واقعی مجبوری نہیں ہے۔ عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا یا کاروبار کو ترقی دینے کے لیے روپیہ فراہم کرنا کوئی ضروری امر نہیںہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے امور جن کو ’’ضرورت‘‘ اور ’’مجبوری‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جن کے لیے مہاجنوں سے ہزاروں روپے قرض لیے جاتے ہیں‘ شریعت کی نگاہ میں ان کی قطعاً کوئی وقعت نہیں اور ان اغراض کے لیے جو لوگ سود دیتے ہیں وہ سخت گناہ گار ہیں۔ شریعت اگر کسی مجبوری پر سودی قرض لینے کی اجازت دے سکتی ہے تو وہ اس قسم کی مجبوری ہے جس میں حرام حلال ہو سکتا ہے۔ یعنی کوئی سخت مصیبت جس میں سود پر قرض لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو‘ جان یا عزت پر آفت آگئی ہو‘ یا کسی ناقابل برداشت مشقت یا ضرر کا حقیقی اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں ایک مجبور مسلمان کے لیے سودی قرض لینا جائز ہوگا‘ مگر وہ تمام ذی استطاعت مسلمان گناہ گار ہوں گے جنہوں نے اس مصیبت میں اپنے اس بھائی کی مدد نہ کی اور اس کو فعلِ حرام کے ارتکاب پر مجبور کر دیا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس گناہ کا وبال پوری قوم پر ہوگا‘ کیوں کہ اس نے زکوٰۃ و صدقات اور اوقاف کی تنظیم سے غفلت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے افراد بے سہارا ہو گئے اور ان کے لیے اپنی ضرورتوں کے وقت ساہوکاروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔
-3 شدید مجبوری کی حالت میں بھی صرف بقدر ضرورت قرض لیا جا سکتا ہے اور لازم ہے کہ استطاعت بہم پہنچتے ہی سب سے پہلے اس سے سبکدوشی حاصل کی جائے‘ کیوں کہ ضرورت رفع ہو جانے کے بعد سود کا ایک پیسہ دینا بھی حرام مطلق ہے۔ یہ سوال کہ آیا ضرورت شدید ہے کہ نہیں اور اگر شدید ہے تو کس قدر ہے اور کس وقت وہ رفع ہو گئی‘ اس کا تعلق اس شخص کی عقل اور احساس دین داری سے ہے جو اس حالت میں مبتلا ہوا ہو۔ وہ جتنا زیادہ دین دار اور خدا ترس ہوگا اس کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہوگا‘ اتنا ہی زیادہ وہ اس باب میں محتاط ہوگا۔
-4 جو لوگ تجارتی مجبوریوں کی بنا پر یا اپنے مال کی حفاظت یا موجودہ انتشار قومی کی وجہ سے اپنے مستقبل کی طمانیت کے لیے بینکوں میں روپیہ جمع کرائیں یا انشورنس کمپنی میں بیمہ کرائیں یا جن کو کسی قاعدہ کے تحت پراویڈنٹ فنڈ میںحصہ لینا پڑے‘ ان کے لیے لازم ہے کہ صرف اپنے راس المال ہی کو اپنا مال سمجھیں اور اس راس المال سے بھی ڈھائی فیصدی سالانہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں کیوں کہ اس کے بغیر وہ جمع شدہ رقم ان کے لیے ایک نجاست ہوگی‘ بشرطیکہ وہ خدا پرست ہوں‘ زر پرست نہ ہوں۔
-5 بینک یا انشورنس کمپنی پراویڈنٹ فنڈ سے سود کی جو رقم ان کے حساب میں نکلتی ہو‘ اس کو سرمایہ داروں کے پاس چھوڑنا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ ان مفسدوں کے لیے مزید تقویت کی موجب ہوگی۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس رقم کو لے کر ان مفلس لوگ پر خرچ کر دیا جائے جن کی حالت قریب قریب وہی ہے جس میں حرام کھانا انسان کے لیے جائز ہوجاتا ہے۔ (اس تجویز کو میں اس لیے بھی صحیح سمجھتا ہوں کہ حقیقت میں سود غریبوں کی جیب ہی سے آتا ہے‘ حکومت کا خزانہ ہو یا بینک یا انشورنس کمپنی سب کے سود کا اصل منبع غریب کی جیب ہی ہے۔
-6 مالی لین دین اور تجارتی کاروبار میں جتنے منافع سود کی تعریف میں آتے ہوں یاجن میں سود کا اشتباہ ہو‘ ان سب سے حتیٰ الامکان احتراز نہ ہو تو وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو نمبر 5 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ایک ایمان دار مسلمان کی نظر جلبِ منفعت پر نہیں بلکہ دفع مفاسد ہونی چاہیے۔ اگر وہ خدا سے ڈرتا ہے اور یوم آخر پر اعتقاد رکھتا ہے تو حرام سے بچنا اور خدا کی پکڑ سے محفوظ رہنا اس کے لیے کاروبار کی ترقی اور مالی فوائد کے حصول سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے۔
یہ تخفیفات صرف افراد کے لیے ہیں اور بدرجہ آخر انکو ایک قوم تک بھی اس حالت میں وسیع کیا جاسکتا ہے جب کہ وہ غیروں کی محکوم ہو اور اپنا نظام مالیات و معیشت خود بنانے پر قادر نہ ہو۔ لیکن آزاد و خود مختار مسلمان قوم جو اپنے مسائل خود حل کرنے کے اختیارات رکھتی ہو‘ سود کے معاملے میں کسی تخفیف کا مطالبہ اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ سود کے بغیر مالیات اور بینکنگ اور تجارت و صنعت وغیرہ کا کوئی معاملہ چل ہی نہیں سکتا اور اس کا کوئی بدل ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ چیز اگر علمی اور عملی حیثیت سے غلط ہو اور فی الواقع ایک نظامِ مالیات سود کے بغیر نہایت کامیابی کے ساتھ بنایا اور چلایا جا سکتا ہو تو پھر مغربی سرمایہ داری کے طریقوں پر اصرار کیے چلے جانا بجز اس کے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ خدا سے بغاوت کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔