واقعی ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نعرہ نہیں لگایا کہ ’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ۔نہ انہیں یہ بات کبھی سمجھ آسکتی ہے کہ قیام پاکستان کیا ہے۔انہیں یہ کون بتائے گا کہ قائد اعظم علیہ رحمہ نے لاکھوں مسلمان کیوں شہید کرائے؟ کیوں ہماری بہن بیٹیوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگائیں؟ یہ جھنڈا کیوں لہرایا جاتا ہے یہ پریڈیں کیوں ہوتی ہیں ؟کیوں ہماری بہن بیٹیاں سکھ اٹھا کر لے گئے ؟اس لیے یہ کبھی کہتے ہیں کہ پاکستان روٹی ، کپڑے یا خوشحالی کے لیے بنا۔کیوں کیا قائد اعظم کو روٹی نہیں مل رہی تھی ، کوئی کپڑوں کا مسئلہ تھا جو صبح اٹھے اور پاکستان بنا دیا ؟کتا جب تک بھونکتاہے کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن جب کاٹنے لگے تو علاج لازم ہے ۔آخر کب تک ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔جس سے اپنے وزیر نہیں سنبھلتے وہ ملک کیا سنبھالے گا ۔جسے یہ بھی نہیں پتا ریاست مدینہ بنانے کے لیے کابینہ کے لوگ کس طرح کے چننے ہیں وہ ریاست مدینہ منورہ کا نظام کیسے لا سکتا ہے ۔فواد چوھدری کی سربراہی میں مسجد میں رقص و ڈھول ۔جس جس نے بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا سب شریک جرم ہیں۔گرجاگھر میںکوئی واقعہ ہو
توعدالت از خودنوٹس لے مگرجب اللہ کے گھرکی بےحرمتی کی کوشش کی جائے توسب خاموش۔اسلامی شعائر کے ساتھ مستقل چھیڑ چھاڑ جاری ہے ،ماضی کے ساتھ موجودہ حکومت میں بھی ، لگتا ہے کہ جامع پلانہے ۔ایسے وزیروں کے ہوتے ہوئے پاکستان کے مزید دشمنوں کی ضرورت نہیں ، جسے کلمے بھی نہ آتے ہوں اور مرزائیوں سے محبت میں مرا جا تا ہو۔یہ تمام جملے و رد عمل سماجی میڈیا پر ’ڈبو کو پٹہ کون ڈالے گا‘کے ہیش ٹیگ کے تحت چلتے رہے ۔ویسے ابھی اگست میں بلال سعید کی معافی ٹھنڈی نہیں ہوئی کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر اداکاروں و گلوکاروں کے ساتھ لاہور کی مسجد وزیر خان بھنگڑا ڈالنے پہنچ گئے ۔ ڈھول کی تھاپ پر اس قسم کے بھنگڑا سیشن کی کوئی توجیح نہیں ہو سکتی وہ بھی مسجد کے احاطے میں تو ممکن ہی نہیں ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان نے اس موقع پر پچھلی بار کی طرح ہمت کی اور جس طرح لاہور کی اس مشہور تاریخی مسجدوزیر خان میں ایک گانے کی شوٹنگ کے بعد طوفان ابھرا تھا تو اسلامی جمعیت طلبہ نے مسجد کا تقدس پامال کرنے کے خلاف احتجاج کے ساتھ وہاں ایک درس قرآن کی عوامی نشست کا اہتمام کیا تھا ۔ امیر عزیمت علیہ رحمہ نے اُس وقت بھی شدید رد عمل دیتے ہوئے مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس بار بھی اسلامی جمعیت طلبہ لاہورنے یہی کاوش کی اورمسجد وزیر خان کے اسی احاطے میں درسِ قرآن کا اہتمام کیا جہاں گزشتہ روز وفاقی وزیر فواد چودھری نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے کا اہتمام کیا تھا۔ناظمِ لاہور نے درسِ قرآن پیش کیا جس میں اندرون لاہور کے سیاسی سماجی و تاجر برادری کے رہنما بھی موجود تھے۔معروف سماجی رہنما وسوشل میڈیا ایکٹیوسٹ شہیر سیالوی نے بھی وہاں نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد کو مدعو کیا تاکہ مسجد کے تقدس کے ساتھ ہونے والے اس طرح کے اقدامات پر رد عمل دیا جائے ۔ اس ٹرینڈ میں تحریک لبیک ہی چھائی رہی اور کوئی18گھنٹے تک یہ ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں چھایا رہا۔اس کے بعد اگلے دن دوبارہ ’ فواد چوہدری معافی مانگو‘ اور اور ’شہیر ورسز ڈبو ‘کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں چھائے رہےجن میں دنیا بھر سے پاکستانی عوام نے بھر پور غصہ نکالا۔اچھا یہ بات میں نے یقینا ً سب نے نوٹ کی ہوگی کہ ناچنے والے اداکار شان و علی ظفر پر اتنے کیا کوئی بم نہیں گرائے گئے جتنے فواد چوھدری پر کتے کی تصویر کے ساتھ بم گرائے گئے۔اس سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اقتدار کی مسند کتنی اہم ذمہ داری ہے ۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ علی سد پارا کے لیے علی ظفر نے گانا بنایا تو اُس عظیم خدمت پر ضرور ایک ٹرینڈ بن گیا ۔
سندھ کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں ایک تو کراچی کے علاقے ملیر کی اہم نشست تھی پی ایس88۔ اس نشست پر پچھلی بار پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی تھی جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف اور تیسرے پر بالترتیب تحریک لبیک ، ایم کیو ایم اور ایم ایم اے تھیں۔ضمنی الیکشن کے معرکے میں کہیں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ ضمنی الیکشن ہے ، جماعت اسلامی کے سوا تمام ہی پارٹیاں بشمول کئی آزاد امیدوار بھی کھڑے ہوئے تھے ۔بیلٹ پیپر پر 15نشانات و امیدوار تھے۔نتائج کے مطابق اول تو پیپلز پارٹی رہی لیکن دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کی جگہ تحریک لبیک نے لے لی ۔ اس پر سوشل میڈیا پر خوب شور مچا یا گیا ۔ ہوا یہ بھی کہ الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے رہنما و رکن اسمبلی حلیم عادل شیخ کے بھائی کی ناجائز زمینوں پر سے سندھ حکومت نے قبضہ خالی کرایا۔ اس کے بعد الیکشن والے دن پابندی کے باوجود موصوف اسلحہ برداروں کے ساتھ پولنگ اسٹیشن پہنچے جہاں گرما گرمی ہوئی اور وہ گرفتار ہوئے ۔ پیپلز پارٹی بدمعاش پارٹی، ملیر کا نشان تیر ، ووٹ فار کائیٹ، ملیر لبیک کا کے ہیش ٹیگ کے تحت سوشل میڈیا پر خوب جنگ چلتی رہی۔اس بار تو ووٹ ڈالنے کی کئی ویڈیوز بھی اور بیلٹ پیپر بھی شیئر کیے گئے اپنی وفاداریاں نبھانے اور الیکشن کے عمل کی شفافیت پر سوال اٹھانے کے لیے ۔
پاکستان کے کم عمر کوہ پیما کی تلاش اس ہفتہ اُن کے انتقال کی خبروں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی جس کے بعد اُنہیں سماجی میڈیا پربھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا۔دوسری جانب ’پاوری ہو رہی ہے‘ کا ٹرینڈ بدستور ٹرینڈ لسٹ میں گھوم پھر کر آتا رہا۔ سوشل میڈیا کے عمومی استعمال کے دوران بنائی گئی پاکستانی خاتون کی ویڈیو حد درجہ مقبول ہوئی اور تین جملے اتنے زبان زد عام ہوئے کہ موصوفہ کو ٹاک شوز میں مدعو کر کے ملک کی کوئی خاص شخصیت بنا دیا گیا۔دوسری جانب ایک اور پاکستانی خاتون جنہوں نے اے سی سی اے میں عالمی سطح پر پوزیشن لی تھی اُن کو پذیرائی نہ دینے پر بھی خوب طعن و تشنیع جاری رہی ، یہاں تک کہ الیکٹرانک میڈیا نے توجہ دیکھتے ہوئے دونوں خواتین کو اپنے پاس مدعو کرلیااور ناظرین کی بھر پور ’ریٹنگ‘ حاصل کی۔
اس ہفتہ مزید دو زیادتی کے کیسز سوشل میڈیا پر توجہ دلاتے رہے کہ یہ جرائم ایسے صرف انصاف مانگنے سے کم نہیں ہوں گے ۔ کراچی میں گلشن حدید کی رہائشی ایک طالبہ کو اغوا کرکے اجتماعی زیادتی
کا نشانہ بنایا گیا ، بعد ازاں دو افراد گرفتار بھی ہوئے جبکہ دادو میں ایک ۳سالہ معصوم بچی کو جنسی درندوں نے نشانہ بنایا مگرپولیس نے اُن مجرموں کی گرفتاری بھی کی ۔ اب سب کو مسئلہ یہی لگتا ہےکہ عدالت سے چھوٹ جائیں گے اس لیے انصاف مانگتے رہے ۔
پڑوس میں بھارت بدستور کسانوں کے خلاف اقدامات کی آگ میں جلتا رہا۔ یو پی ’اناؤ ‘میںکسان کی 2بیٹیوں کی تشدد زدہ لاشیں ملیں اور ایک تیسری انتہائی تشدد زدہ حالت میں ہسپتال لے جائی گئی۔ اس واقعہ کے بعد پورے بھارت میں شور مچ گیا۔ سوشل میڈیا پر بھی بی جے پی دور حکومت میں عورتوں کی عدم حفاظت پر بھرپور شور مچایا گیا۔اسی طرح بھارت کے دو صوبوں میں پیٹرول کی قیمت100روپے لیٹر ہونے پر بھی پاکستان کی طرح مہنگائی بم کا خوب شور مچتا نظر آیا۔بھارت میں ہر صوبے میں پیٹرول قیمتوں میں فرق ہےمگر سو روپے کہیں نہیں پہنچا ہوا کم سے کم نئی دہلی میں89 روپے ہے۔
ترکی میں اس ہفتہ ’لیلتہ الراغب ‘ کا ٹرینڈ سوشل میڈیا پر اچھا لگا۔یہ ایک ترک مسلم تہوار ہے جس کی تاریخ سولہویں صدی میں روایت عثمانی سلطان سلیم دوم سے جڑی ہے ۔ اس رات
کے معمولات کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رات اُس وقت کے شیخ الاسلام کی تائید کے ساتھ اللہ سے تعلق جوڑنے اور خوب دعا ئیں کرنےسے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کی تھیم تسلسل سے بابرکت مہینوں کی آمد سے بھی جڑی ہے یعنی رجب، شعبان، رمضان۔ماہ رجب کی پہلی جمعرات کی شب میں مساجد کے میناروں کو خوبصورتی سے روشن کیا جاتا ہے، اسلیے ان کو قندیل کی رات بھی کہتے ہیں ۔ترکی اور مسلم بلقان جماعتوں میں یہ شب آج بھی منائی جاتی ہیں ۔سوشل میڈیا پر ترک مسلمان بھائی خوب دعائیہ کلمات سے اس ٹرینڈ کو چلاتے رہے اور خوبصورت مساجد وروشن میناروں کی تصاویر سے سب کو جوڑتے رہے۔
اس ہفتہ ترکی بھی عالمی خبروں میں رہا کیونکہ صدر رجب طیب ایردوان نےایک بار پھر امریکا کی ڈکٹیشن سے انکار کرتے ہوئے اُسکے مطالبات مسترد کردیے اور لیبیا میں فوج تعینات رکھنے کا اعلان کردیا۔یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی روس کے صدر سے بھی تعلقات میں فروغ پر آن لائن ملاقات کر کے عالمی طاقتوں کو بڑا ٹھوس پیغام دیا۔اس ملاقات میں ترک صدر نے روسی صدر کو بتا دیا کہ شام کے مسئلے کا فوری حل مشترکہ مفادات کا حامل ہے اس کے علاوہ لیبیا میں بھی امن و استحکام کے قیام کا جو موقع پیدا ہوا ہے اسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔اب لیڈر شپ کی مزید کیا صفات بیان کی جائیں ، باقی تو آپ ارتغرل و عثمان میں دیکھ ہی رہے ہوںگے ۔
ہالینڈ کی، ترکی اور اسلام دشمن انتہائی دائیں بازو کی حامی،فریڈم پارٹی کے چئیر مین ملعون گیرٹ وِلڈر کی حالیہ ٹوئیٹ پر بھی سخت رد عمل آیا ۔ ملعون نے سوشل میڈیا پر ترک صدر کودہشت گرد کہا ، کیونکہ صدر ایردوان نے اس کے خلاف کریمنل کمپلینٹ لاج کی تھی ۔ جس کا بدلہ وہ موقع دیکھ کر صرف سوشل میڈیا پر اتارنے کی کوشش کر کے اپنے آپ کو مقبول کرواتا ہے ۔ترکی کی حزب اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ترجمان عمر چیلک نے صدر رجب طیب ایردوان کو ہدف بنا کر استعمال کئے گئے بدصورت بیانات پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ “ہمارے صدر پر حملہ کرنے والا یہ فاشسٹ دوسری جنگ عظیم میں جی رہا ہوتا تو اس وقت ملعون نازی کے طور پر یاد کیا جاتا اور اگر اس وقت مشرق وسطیٰ میں جی رہاہوتا تو داعش میں شامل ایک قاتل ہوتا۔‘