اسلام د عورت کےتحفظ کا ضامن

585

عورت اسلامی دائرئہ حدود میں رہ کر اپنا آپ منوا سکتی ہے چاہے وہ گھر کی چار دیواری کے اندر ہو یا گھر سے باہر ملازمت وغیرہ کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے۔ دین اسلام کے بارے میں ’’لبرل‘‘ لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت پر پابندیاں عائد کرکے اسے گھر کی چار دیواری میں قید کردیا ہے۔ جبکہ میرے دینِ اسلام نے تو ’’عورت‘‘ ذات کو معاشرے کی معتبر اور معزز ہستی بنا کر گھر کی ملکہ بنادیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ظلم و ستم کی چکی میں پسی جس عورت کو نیست و نابود کردیا گیا تھا، حقیر و فقیر بنادیا گیا تھا، اس مظلوم عورت کو دین اسلام نے جو رتبہ و اعزاز بخشا ہے وہ کسی مذہب اور قوم میں نہیں دیا گیا… انھی تعلیماتِ اسلامی سے آراستہ و مزین ہوکر خواتینِ اسلام نے گھر اور گھر سے باہر میدانِ جنگ میں بھی اپنی جرأت و دانش مندی سے تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثال تاقیامت روشن اور قابلِ تحسین رہے گی۔
تعلیماتِ اسلامی سے مزین ان ہی خواتین نے بحیثیت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی گھروں، اور خاندانوں کو مستحکم کیا۔ ایسی ہی خواتینِ اسلام، امہات المومنین، صحابیات اور مومن عورتیں ہم سب کی آئیڈیل ہیں۔ آج کی لبرل سوسائٹی کے دلدادہ، عورتوں کے لیےجو حقوق چاہتے ہیں ان ”لبرل حقوق“ کو حاصل کرکے نہ ہی خواتین گھر گرہستی، نہ ہی چادر و چار دیواری کو روشنی اور استحکام بخش سکتی ہیں، نہ ہی اپنے ارد گرد بسے رشتوں کے ساتھ انصاف کرسکتی ہیں۔
تاریخِ اسلام کے صفحے پلٹیں تو ہمیں مسلمان خواتین کے بیش بہا کارنامے نظر آتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دینِ اسلام نے خواتین کو گھر کی چار دیواری تک محدود کردیا ہے اُن کی یہ خام خیالی ہے۔ جہاد اور غزوات کے مواقع پر ان مومن عورتوں نے آپؐ کی اجازت سے شرکت کی اور ان کے کارنامے تاریخ کے صفحات پر تاقیامت روشن رہیں گے۔ ان کی جرأت، دلیری، جوش کو ہم سلام کرتے ہیں۔ اُم سلیمؓ باوجود حاملہ ہونے کے حنین کی لڑائی میں شریک ہوئیں، ان کے پاس خنجر تھا۔ آپؐ کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آئے گا تو اسے بھونک دوں گی۔خیبر کی لڑائی میں بھی خواتینِ اسلام نے شرکت کی اور بھرپورحصہ ادا کیا۔ اکثر لڑائیوں کے مواقع پر ان معتبر خواتین ِاسلام نے مسلمان زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی اور خدمات کے کاموں کو انجام دیا۔ یہ خواتین پانی کے مشکیزے بھر کر لاتیں اور مجاہدین کو پانی پلاتیں… دیکھا جائے تو ان خواتین ِاسلام نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ڈاکٹری اور نرسنگ کے فرائض کی انجام دہی کی۔ یہی نہیں بلکہ یہ معتبر خواتینِ اسلام بہترین مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں تھیں جنہوں نے ہر ’’روپ‘‘ میں اپنے فرائض کو بہترین طریقے اور عمدگی سے اس طرح انجام دیا جیسا کہ دینِ اسلام کی تعلیمات تھیں… ان معتبر مائوں کی گودوں میں پرورش پانے والے بیٹوں نے آنے والے وقت میں تاریخ رقم کی۔ جیسا کہ حضرت خنساءؓ جو بہترین شاعرہ بھی تھیں، انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کی اس طرح تربیت کی کہ ان کے دل میں اسلام کی محبت اس طرح گھر کر گئی کہ وہ چاروں سپوت جنگِ قادسیہ میں یکے بعد دیگرے شہادت سے ہم کنار ہوکر اسلام کا سر بلند کرنے کا باعث بنے۔
اسی طرح مومن عورتوں نے لڑائیوں میں نہ صرف خود حصہ لیا بلکہ شوہروں اور بیٹوں کو بھی حوصلہ دیا۔
بہت سی متمول اور خوشحال گھرانوں کی مومن عورتوں کو شادی کے بعد تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا لیکن صبر و شکر سے شوہروں کی خدمت اور بچوں کی تربیت میں مصروفِ عمل رہیں اور کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ ان ہی خواتینِ اسلام نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اس طرح اسلامی تعلیمات و نقوش کے مطابق کی کہ آج ہم ان کا نام نہ صرف عزت و احترام سے لیتے ہیں بلکہ رشک کرتے ہیں۔ سردارانِ جنت کی والدہ ماجدہ، آپؐ کی سب سے چہیتی بیٹی فاطمۃ الزہرہؓ جنہیں آپؐ کا عکس بھی کہا جاتا ہے، یہ لاڈلی دختر خدیجہؓ جب علیؓ کے عقد میں آئیں تو ایک ’’مکمل‘‘ بچھونا بھی نہ تھا۔ سخت محنت و مشقت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگیں۔ نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ غربت وتنگدستی تھی۔ چکی پر آٹا پیستیں تو ہاتھوں میں گٹے پڑجاتے، لیکن اُف تک نہ کرتیں۔ ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے کہنے پر آپؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضری دی کہ مالِ غنیمت میں آئی ہوئی کنیزوں میں سے ایک کنیز عنایت فرمائیں ،لیکن شرم و حیا کی یہ انتہا تھی کہ عرض نہ کر سکیں۔ حضرت علیؓ نے آپؐ کو آنے کی وجہ بتائی تو حضور اکرمؐ نے ’’تسبیح فاطمہ‘‘ پڑھنے کو کہا۔ ہم آج ان اعلیٰ و معتبر خواتین سے اپنا موازنہ کریں، کتنے سکھ حاصل ہیں ہمیں، پھر بھی لبوں پر شکوہ رہتا ہے۔ ہمیں ان معزز خواتین کی تقلید کرنی چاہیے، ان ہی جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
٭…٭
آج بھی ہمارے آس پاس ایسی معتبر مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں ہیں جو ان خواتینِ اسلام کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہیں، گرچہ اُس ’’مرتبے‘‘ پر تو نہیں لیکن ان کا دامن شرم و حیا سے لبریز ہے، اور مصائب ِدنیا کا بھی سامنا کررہی ہیں۔ میرے اردگرد ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں جو گھر، گھرداری، ملازمت، حقوق العباد کی ادائیگی، تنگ دستی کے باوجود شرم و حیا کا دامن تھامے زندگی گزار رہی ہیں۔ ان سب کا کہنا یہ ہے کہ الحمدللہ اس ’’اسلام‘‘ نے نہ صرف ہمیں تحفظ و عزت بخشی ہے بلکہ ہمارے کاموں میں، معاملات میں رب نے آسانیاں پیدا کی ہیں، ہم عزت سے زندگی گزار رہی ہیں، معاشرہ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اگر ہم آج کی ’’بے باک عورت‘‘ کی طرح ’’آزادی‘‘ سے گھر سے باہر نکلتیں تو نہ ہمیں وہ وقار و تحفظ حاصل ہوتا، نہ ہمیں اپنے معمولاتِ زندگی میں آسانیاں محسوس ہوتیں، الحمدللہ ہمیں اپنے طرزِعمل اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے گوناگوں سکون اور راحت محسوس ہوتی ہے جس کا اندازہ بھی آج کی لبرل معاشرے کی دلدادہ یہ خواتین نہیں کرسکتیں۔
٭…٭
میرے پیارے دین نے استحکامِ معاشرہ اور خاندانوں کو مضبوط اور پُرامن بنانے کے لیے حقوق العباد کی تعلیمات سے ہمیں نوازا ہے، جن پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف انسان خود سکون و راحت سے زندگی گزار سکتا ہے بلکہ آس پاس کے لوگ بھی سُکھ پاتے ہیں۔ درگزر، صبر، شکر، ایثار، محبت، حیا، اتحاد، شفقت، انکسار، غصہ اور ضد سے پرہیز، نرمی، خوش اخلاقی وغیرہ… یہ وہ خوبیاں ہیں جن کو خوبصورت لڑی میں پروکر بندہ اپنے آپ کو مزین و آراستہ کرلے تو سب کو نہ صرف ان کے حقوق مل جاتے ہیں بلکہ ماحول معطر ہوجاتا ہے، کہ ایک چھت تلے رہنے والے محبتوں کے ان اٹوٹ رشتوں میں جڑ جاتے ہیں۔ خصوصاً مذکورہ بالا خوبیوں سے مزین مسلمان عورت اپنے گھر اور خاندان کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ شوہر، بیٹا، بھائی اور باپ جن کے خاندان میں ایسی مسلمان عورتیں موجود ہوں… (سبحان اللہ)
٭…٭
میں اپنی تحاریر میں اکثر و بیشتر ایسی معتبر خواتین کا ذکر کرتی رہتی ہوں جو اپنے خاندانوں کے لیے اللہ کا ایک ’’تحفہ‘‘ ہیں۔ قابلِ تحسین ہیں ایسی بہنیں اور بیٹیاں جو مصائب کے باوجود اللہ کے ذکر سے بھی غافل نہیں… رقیہ (فرضی نام) بھی ان معزز خواتین میں سے ایک ہیں… جوان ہوئیں تو والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ یہ خوابوں کو سجانے اور پانے کی عمر ہوتی ہے، لیکن رقیہ نے اپنی مکمل توجہ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی تعلیم و تربیت میں لگادی… ایک مسلمان ماں کی طرح ان کی دیکھ بھال کی… ان کی شادیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوئیں تو لوگوں نے انہیں شادی کرنے کا مشورہ دیا۔ ’’عمر کی حسین بہاریں‘‘ گزر چکی تھیں لیکن رشتے داروں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے پُرزور اصرار پر وہ جنید کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔ لیکن شاید زندگی میں مزید امتحان باقی تھے۔ بچے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ شوہر کا انتقال ہوگیا، صرف چند سال کی خوشیاں تھیں، لیکن ان مسلمان خاتون نے ہمت نہیں ہاری، جس طرح ماضی میں وہ اپنے بھائی بہنوں کی تعلیم و تربیت کرتی رہیں اسی طرح انہوں نے ’’کمر کس‘‘ لی، اپنا کیٹرنگ کا کام دوبارہ شروع کیا، قرآنی تعلیمات کی کلاسیں بھی باقاعدگی سے اٹینڈ کررہی ہیں۔ اس دوران کچھ بیماری میں بھی مبتلا رہیں، دو آپریشن ہوچکے ہیں، لیکن شرم و حیا کے دامن میں لپٹی ان خاتون نے کہیں بھی اسلامی تعلیمات کو فراموش نہیں کیا۔ گھر داری، بچوں کی تعلیم و تربیت، اپنا کیٹرنگ کا کام… ان سب فرائض کو انجام دینے کے لیے وہ گھر سے باہر بھی نکلتی ہیں، بلکہ بقول ان کے ”مجھے دو تین مرتبہ گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے“۔ جوان بیٹی کو کالج چھوڑنا، پھر لینا بھی انہی کی ذمہ داری ہے… ان خاتون کو دیکھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ رب العزت نے ’’مسلمان عورت‘‘ کو کمزور نہیں بنایا، اگر وہ حیا کے گوہر سے آراستہ ہو کر اپنے فرائض انجام دے تو اس کی عزت، اس کا وقار اور بلند ہو جاتا ہے۔ میرا رب بھی ایسی عورت سے نہ صرف راضی رہتا ہے بلکہ وہی تو ہے جو سب کو سنبھالے ہوئے ہے… انہیں گرنے نہیں دیتا… سبحان اللہ…
وہ ’’نادان‘‘ جو ’’پردہ اور حیا‘‘ کو عورت کی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں، ایسی ہی باوقار، حیادار خواتین ان کے سوالات اور تنقید کا بھر پور مثبت جواب ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’حیا انسان کے عقلمند اور دانا ہونے کی علامت ہے۔‘‘
یہاں ان سطور کے حوالے سے ایک بات ضرور کہوں گی کہ جن علاقوں اور برادریوں میں خواتین کو غیرت و عزت کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، یا ظلم کی چکی میں پیسا جارہا ہے، ان کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور غفلت ہے۔ اسلام نے جو حقوق مسلم خواتین کو دیئے ہیں ان کی پاسداری کرنے سے درج بالا مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ان شاء اللہ اس بارے میں ضرور کسی تحریر میں بیان کروں گی… یہاں صرف یہ کہوں گی کہ اے لوگو! اسلام نے عورت کو ’’پابندِ سلاسل‘‘ نہیں کیا ہے، بلکہ عظمت کی بلندیوں پر پہنچایا ہے، سبحان اللہ، جس پر ہم مسلمان خواتین کو فخر ہے۔

حصہ