اپنے بزرگوں کی حفاظت کے لیے
”ڈاکٹر صاحب! میں نے دو ماہ سے ماں سے سر پر ہاتھ نہیں رکھوایا۔ ہمارے معاشرے میں بزرگوں سے شفقت کے لیے سر پر اُن کا ہاتھ رکھوانا بہت پرانا روایتی طریقہ ہے۔ میں اماں کے کمرے میں جاتا ہوں ماسک لگا کر۔ ان کے پائوں دباتا ہوں اور باہر آجاتا ہوں۔ ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ کہیں اماں کو کورونا نہ لگ جائے۔“
ہمارے اسپتال کے میل نرس نے اپنی یہ داستان سنائی۔
اس اسپتال میں 7-6 ڈاکٹروں کو کورونا ہوچکا ہے۔ مرد و خواتین نرس، لیبارٹری کے افراد، مریضوں کی ابتدائی رجسٹریشن کرنے والے، اور چوکیدار سمیت مختلف شعبوں کے افراد متاثر ہوچکے ہیں۔
ہمارے جاننے والے چند ڈاکٹر آئی سی یو میں داخل ہوچکے ہیں۔ اسپتال کے ایمرجنسی شعبے کے تو اکثر افراد کو کورونا ہوچکا ہے۔
ایک سینئر ڈاکٹر صاحب کو کورونا ہوا، انہوں نے گھر میں احتیاط نہ کی۔ جب کورونا کا پتا چلا اور احتیاط کی اُس وقت تک والدہ، والد اور دادی اماں کو کورونا لگ چکا تھا۔ خود اسپتال میں داخل رہے، دادی اماں کو فالج ہوا، والدہ کو دل کا دورہ پڑا، والد صاحب کی خون کی نالیوں میں خون جم گیا اور انہیں پھیپھڑوں کا مسئلہ ہوا جس کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ اب ڈاکٹر صاحب ذہنی طور پر نارمل نہیں ہیں۔ اکثر بیٹھے بیٹھے رو پڑتے ہیں، اداس رہتے ہیں۔ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ میری وجہ سے میرے بزرگوں کو تکلیف پہنچی، اگر میں احتیاط کرلیتا تو میرے بزرگ تکلیف سے بچ جاتے۔ ڈاکٹر صاحب خود کو والد صاحب کی موت کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ اس واقعے نے مجھے اتنا متاثر کیا ہے کہ ڈر کے مارے میں اپنی ماں کے پاس نہیں جاتا۔ کورونا کی وبا آنے کے بعد دنیا بھر میں ڈر اور خوف کی فضا ہے۔
کورونا نے دنیا میں انسانوں کے سوچنے، سمجھنے سمیت ہر چیز کو تبدیل کردیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 120 برس میں دنیا میں کئی جنگیں ہوئیں۔ پہلی جنگِ عظیم ہوئی، دوسری جنگِ عظیم ہوئی، انگریزوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا، سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا، دنیا میں بہت سے نئے ملک وجود میں آئے۔ نیا کلچر، نئی سوسائٹی وجود میں آئی۔ روس (USSR) ٹوٹ گیا، دنیا میں بہت سے نئے ممالک بنے۔ 9/11 نے دنیا کو یکسر تبدیل کردیا۔ 9/11 سے پہلے کی دنیا اور بعد کی دنیا مختلف تھی۔ اس نئی دنیا میں خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں دنیا بھر میں اضافہ ہوا۔ لیکن 2019ء میں کورونا کے آنے کے بعد دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی آئی ہے جو پچھلے سو سال کی تبدیلیوں سے بڑی ہے۔
خوف و ہراس اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ امیر، غریب، ترقی یافتہ ممالک اور غریب ممالک… سب کے تعلقات، سماجی، معاشرتی و معاشی معاملات میں تبدیلیاں آئی ہیں… اور تو اور خاندان کے تعلقات کو بھی کورونا نے بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس کی ایک مثال ہمارا ڈسپنسر ہے جو اپنی والدہ سے بھی نہیں ملتا، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اسے اسپتال سے کب کورونا لگ گیا ہو، اور اس کی ماں اس کی وجہ سے کورونا میں متبلا ہوجائے۔
اسپتال کے عملے کے علاوہ بینک کا عملہ، لوگوں کے سماجی مسائل کے حل کے لیے قائم شعبہ جات، سب ہی کے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ ان کو سمجھایا کہ گھر آکر فوراً کپڑے تبدیل کریں، ماسک پہنیں، نہا دھوکر نیا ماسک لگائیں اور ماں کی خدمت کریں۔
ماں یا دیگر بزرگوں کے پاس جائیں تو اُس وقت ان کو بھی ماسک دیں، خود بھی ماسک لگائیں۔ جن افراد کے گھر میں بزرگ ہوں وہ شادی بیاہ کی تقریبات، جنازے اور کسی بھی رش کی جگہ جو بند ہو، جانے سے گریز کریں۔
یاد رکھیں آپ کی کوششیں آپ کے بزرگوں کی حفاظت کریں گی، اور کسی حادثے یعنی کورونا لگنے پر ممکنہ صدمے سے بچائیں گی، جو ساری عمر آپ کو غم میں مبتلا رکھے گا۔