قریباً ڈھائی سو سال سے، کہ جب سے قوموں میں اپنی قومی زبان کا احساس بیدار ہوا ہے، جنوبی ایشیا میں یہاں کے نئے حکمرانوں یا انگریزوں نے یہاں کی زبانوں میں اردو کی جائز حیثیت کو تسلیم کرلیا اور اسے تعلیمی اور سرکاری سطح پر استعمال کرنے، بلکہ فروغ دینے کی اپنی مصلحتوں کے تحت کوششوں کے ذیل میں متعدد ایسے کام کیے جو بہرحال اردو کی ترقی، وسعت اور پھیلاؤ میں کارگر ثابت ہوئے۔ اس طرح اردو کا رواج اور استعمال ہر معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے عالمی سطح پر اس حد تک بڑھ گیاکہ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں اردو تعلیمی و سرکاری زبان کی حیثیت سے ایک ناگزیر زبان کے طور پر تسلیم کرلی گئی، اور بیسویں صدی میں اس نے جنوبی ایشیا سے نکل کر مغرب میں یورپ اور امریکا و کینیڈا اور مشرق میں چین و جاپان تک میں وہاں کی ضرورتوں کے مطابق اپنا استعمال شروع کروا دیا تھا۔ تخلیقی و تصنیفی لحاظ سے اور اپنی مطبوعات کے توسط سے اس نے انیسویں صدی ہی میں دنیا بھر کے معروف، بڑے اور وقیع کتب خانوں میں اپنے خصوصی گوشے قائم کروا لیے اور مطبوعات کی فہرستوں نے الماریوں کی الماریاں بھرڈالیں! اس طرح حقیقتاً بیسویں صدی اردو کے عالمی استعمال اور تسلیم و قبولیت کا زمانہ ہے۔ چناں چہ اگر اقوامِ متحدہ نے آج اسے بطور عالمی زبان تسلیم کیا ہے تو اُس نے اس فیصلے میں حد درجہ سست روی، بلکہ عصبیت کا ثبوت دیا ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ کو اپنے سالانہ اجتماعات میں ہمارے حکمرانوں بمثل ضیا الحق کا اردو میں خطاب سن کر ہی یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اردو اس قابل ہے کہ اقوام عالم سے اس زبان میں بھی خطاب ممکن ہے، جب کہ تاریخی لحاظ سے تو اردو انیسویں صدی کے نصف اول ہی میں اس قابل ہوچکی تھی کہ سرکارِ انگریز سے مراسلت اردو میں شروع ہوچکی تھی، اور انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں انجینئرنگ اور طب کی تعلیم اردو میں دی جانے لگی تھی، اور تجارتی زبان کے طور پر بھی اس زبان نے بازاروں اور بینکوں میں اپنا گزر پیدا کرلیا تھا۔ پھر ایک سو سال کے بعد مملکتِ حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ کے قیام، اور اس میں سارے ہی مضامین کی نظری و عملی تعلیم جب باقاعدہ اردو میں دی جانے لگی تو اردو میں فارغ التحصیل ماہرین ِطب نے اسپتال بھی قائم کرنے شروع کیے اور انجینئروں نے ہندوستان بھر میں جہاں جہاں انھیں مواقع دیے گئے، اپنی بنائی ہوئی عالی شان اور کثیرالمنزلہ عمارتوں، پلوں، بندوں اور بیراجوں کے جال پھیلانے میں دیر نہ کی۔
لیکن افسوس، برطانوی ہند کے بعد دو نوتعمیر شدہ مملکتوں میں سے ایک مملکت بھارت میں تو ہندی کو وہاں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوگیا اور دستاویزی لحاظ سے ہر جگہ وہ انگریزی کے ساتھ استعمال کے قابل ہوگئی، مگر پاکستان میں آئینی طور پر قومی زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود ابھی تک یہ اپنی انفرادی قومی حیثیت پر فائز نہ ہوسکی۔ صرف انگریزی ہی ساری سرکاری اور قومی حیثیتیں رکھتی ہے، اور مثبت آئینی حیثیت کے باوجود ہماری مملکت کے انگریزی گماشتے یا انگریزوں کے ایجنٹ اردو کو اس کا جائز آئینی حق دینے پر قطعی آمادہ نہیں۔ ضیاالحق جیسا اردو کا سرپرست بھی اپنی ساری کوششوں میں ناکام کردیا گیا، اور آئین بھی ہر موقع پر پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
یہ کس قدر افسوس ناک اور باعث ِ شرم ہے کہ ہماری پچھلی اور موجودہ حکومت قومی زبان کے نفاذ کے معاملے میں لاتعلقی کے ساتھ ساتھ اعلانیہ توہینِ عدالت تک کی مرتکب ہورہی ہیں، اور ان کے ذمے داروں میں نہ کوئی اس بارے میں سوچ رہا ہے اور نہ ان میں سے کسی سے اس بات کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔ جب کہ یہ اس ضمن میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ پہلی بار عدالت ِ عظمیٰ پاکستان نے ملک میں دستور ِ پاکستان (1973ء)کی دفعہ 251 (1) کے عدم ِ نفاذ پر ایک دردمند اور باشعور پاکستانی شہری جناب کوکب اقبال خواجہ کی ایک درخواست کو پذیرائی بخشتے ہوئے بجا طور پر ان ذمے داروں کے بارے میں جو استفسار کیا تھاکہ اس دفعہ کا نفاذ اب تک کیوں نہ ہوسکا؟ اور اس کے ذمے دار کون کون ہیں؟ یہ معاملہ چار سماعتوں میں زیر ِ بحث آتا رہا اور تاریخیں بڑھتی رہیں، اور کوئی مناسب جواب کسی طرف سے نہیں مل رہا تھا، لیکن بالآخر بظاہر پچھلی حکومت نے کچھ تو مجبوراً کہ اب خود اُس کے وزیر اور افسران ِ بالا بھی انگریزی زبان پر پوری طرح قادر نہیں تھے اور ان کی کم علمی کے باعث تعلیم یافتہ طبقے میں ان کی بھد اڑرہی تھی، اور کچھ اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے اردو نافذ کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں یقین دہانیاں کرانے ہی میں عافیت سمجھی اور بعض خوش گوار اعلانات کردیے۔ ان اعلانات کی روسے وزرا بظاہرپابندرہے کہ وہ ملک اور بیرونِ ملک اپنی تقاریر اردو میں کریں گے، بیشتر قوانین کے تراجم اردو میں کردیے جائیں گے، سرکاری و انتظامی مجلسوں کے اجلاس کی کارروائیاںاب اردو میں ہوں گی۔ حکومتوں نے یہ تو کیا کہ ہر آئین میں اردو کے قومی زبان ہونے اور اسے آئین کی ایک شق قرار دینے میں تامل نہ کیا، اور اسے آئین کا حصہ بنایا، لیکن اسے نافذ کرنے کی بابت کسی حکومت یا حکمران نے اپنے دور میں کوئی سنجیدہ اور مؤثر پیش قدمی کبھی نہ کی۔ صرف ضیاالحق کا دور ایک استثنائی مثال ہے کہ ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں کے مقابلے میں اس ’’آمر‘‘ نے نہ صرف قومی زبان کی اہمیت و افادیت کا کھل کر اعتراف کیا، بلکہ اسے بہ حیثیت ذریعہ ٔ تعلیم اور بطور دفتری زبان نافذ کرنے کی ضرورت کو محسوس بھی کیا اور ہر دو کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔ سابقہ حکومتوں نے اردو کی ترقی کے لیے چند ادارے ضرور قائم کیے، لیکن کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کیا جسے اردو کی ترقی سے بڑھ کر اردو کے نفاذ یا اس کی ترویج کا کام سپرد ہوا ہو، جیسا ضیاالحق نے اپنے دور ِ حکومت کے دوسرے ہی سال ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ قائم کرکے ملک کی تاریخ میں نہایت منفرد اور قابل ِ قدر کام کیا، جسے پچھلی ’’جمہوری‘‘ حکومت نے ختم ہی کردیا کہ نہ رہے گا، بانس نہ بجے گی بانسری! اسے ختم کرکے اردو کے ایک عام اور بے اثر سے ادبی ادارے کی حیثیت دے کر ’’ادارہ ٔ فروغ قومی زبان‘‘ کا نام دیا ہے، اور جیسے اس طرح کے متعدد اداروں کے ہونے کے باوجود اس کی کوئی ضرورت باقی رہ گئی تھی! ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا خاتمہ دراصل اس سابقہ ’’جمہوری‘‘ حکومت کا کھلا اعلان تھا کہ اس ملک میں قومی زبان کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ اسی سیاسی جماعت کی حکومت کا تھا جس نے ماضی میں سندھ میں قومی زبان کے نفاذ کو سرکاری سطح پر سارے صوبوں سے ہٹ کر ایک دعوت ِ مقابلہ دیا یا چیلنج کیا تھا، اور بلوچستان، صوبۂ سرحد اور پنجاب کی طرح، جنھوں نے کھلے دل سے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا، سندھ میں سرکاری زبان بننے نہ دیا۔
ضیاالحق نے مقتدرۂ قومی زبان کو فروری 1981ء میں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ایسی سفارشات مرتب کرے کہ مرحلہ وار قومی زبان سرکاری و دفتری معاملات میں رائج ہوسکے۔ چناں چہ مقتدرہ نے ہنگامی بنیادوں پر فوراً ہی ایسی سفارشات مرتب کرکے پیش کردیں کہ تین سال کی مدت میں اردو بتدریج ہر سطح پر رائج ہوجاتی (راقم الحروف اُس زمانے میں مقتدرہ سے کئی حیثیتوں سے منسلک تھا اور ان مراحل کی ترتیب کا ایک راست اور چشم دید گواہ بھی تھا)۔ ان سفارشات کو کابینہ ڈویژن کے اجلاس منعقدہ 31 اکتوبر 1981ء میٖں تمام صوبائی حکومتوں، ڈویژنوں اور وزارتوں کے نمائندوں نے اصولاً منظور بھی کرلیا اور یہ توقع پیدا ہوگئی کہ ان سفارشات کو اسی سال کابینہ کے سامنے پیش کرکے منظور کرالیا جائے گا، اور یوں قومی زبان ان سفارشات کے مطابق نافذ کردی جائے گی۔ لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ نوکر شاہی نے یہ سفارشات دو سال تک کابینہ کے ایجنڈے ہی میں شامل نہ ہونے دیں۔ بصورتِ مجبوری و اصرار بالآخر یہ ایک ایسے عاجلانہ اجلاس میں پیش کی گئیں جب صدر مملکت بیرون ِ ملک روانہ ہونے والے تھے، اُن کے پاس وقت کم تھا کہ ان سفارشات پر مؤثر انداز سے فیصلے نہ ہوسکتے تھے۔ چناں چہ صرف چند شقوں پر گفتگو ہوسکی تھی کہ اجلاس ختم ہوگیا۔ اس کے بعد یہ سفارشات کبھی کابینہ میں پیش نہ کی گئیں، بلکہ یہ بھی سننے میں آیا کہ کسی ضرورت کے تحت جب ان سفارشات کو ایک بار تلاش کیا گیا تو متعلقہ دفتر میں دستیاب بھی نہ ہوئیں اور مقتدرہ کے دفتر سے منگوائی گئیں!
قومی زبان کے نفاذ کے معاملے میں آئین کی خلاف ورزی کی ذمے داری تمام تر وفاقی حکومت کی ہے کہ جو اگر خود آئین کی پاس داری کرتی اور قانون پر عمل درآمد کرتی اور اسے صوبوں کے لیے بھی لازم قرار دیتی تو صوبائی حکومتوںکی مجال نہ ہوتی کہ وہ اس سے روگردانی کرسکتیں۔
قومی زبان کا نفاذ نہ ہونے ہی کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام بھی بے ثمر ہوکر رہ گیا ہے۔ اسی کی وجہ سے ہماری شرح خواندگی بھی منجمد سی ہے۔ ہم تعلیمی ترقی کے معاملے میں دیگر تمام قوموں کے مقابلے میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں، اور تعلیم سے ہمارے معاشرے کو جو فوائد حاصل ہونے چاہیے تھے ان سے ہماری قوم محروم ہے۔آج ہمارے ذرائع ابلاغ… چاہے طباعتی ہوں یا برقی… قومی زبان سے جو بے اعتنائی برت رہے ہیں، اس کی وجہ سے نہ ہم درست املا لکھ سکتے ہیں، نہ ہمارے بچے اب اردو ہندسوں سے واقف ہیں۔ پیمرا جیسا ذمے دار ادارہ موجود ہے لیکن وہ دیکھتا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ہم کیسی کیسی غلط زبان لکھ رہے ہیں، بول رہے ہیں اور کسی ایک زبان میں بھی اظہار کے قابل نہ رہے، لیکن نہ وہ کوئی پابندی لگاتا ہے نہ کوئی ہدایت دیتا ہے! جب کہ اس طرح ہمارا قومی وقار مجروح ہورہا ہے اور ہم غیرشائستگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ زبان کے استعمال میں غلط تلفظ، غلط املا اور غیر ضروری انگریزی الفاظ قومی شائستگی، تہذیب اور اخلاقیات کے منافی ہیں اور یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے، اس لیے پیمرا کے دائرے سے باہر نہیں۔ چناں چہ پیمرا کو اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور ایک ضابطہ ٔ زبان و بیان بھی جاری کرکے اس کی پابندی کرانی چاہیے۔ ان سب معائب، کمزوریوں اور خامیوں کی ذمے دار وفاقی حکومت ہی ہے، جو اپنا قبلہ اگر درست کرلے تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتاہے، لیکن اس کے لیے قومی احساس، جذبہ اور شعور و شوق ضروری ہیں۔ لیکن یہ سب کیوں کر ہوں؟ جب ہمارے قائدین اور رہنما ہی اہل، دیانت دار، باشعور اور قومی جذبے سے سرشار نہ ہوں تو وہ کیا کرسکتے ہیں! قوم کو اس طرح بگاڑ ہی سکتے ہیں، اس کا سدباب نہیں کرسکتے، بگاڑ کو روک نہیں سکتے۔
عدالت ِ عظمیٰ نے جو یہ اقدام کیا ہے، اور یہ بازپرس کی ہے کہ اردو کا نفاذ کیوں نہ ہوسکا؟کون اس کا ذمے دار ہے؟ یہ سوال ان سب سوالوں سے جڑا ہوا ہے کہ گویا کون ہے جس نے آئین کے نفاذ کی طرف توجہ ہی نہ دی، اور قومی زبان کے نفاذ کی آخری حد بھی 1988ء میں گزرگئی۔ آئین کی اس شق کی پائمالی کس نے کی؟ پھر بعد کے تمام ادوار اور سیاسی حکومتوں نے اس شق کو نافذ کرنے کے لیے کوئی اقدام کیوں نہ کیا؟ اس طرح 1988ء کے بعد کی ہر حکومت اور ہر وزیراعظم اس آئینی روگردانی کا ذمے دار اور اسی طرح سزاوار بھی ہے۔ باشعور اور دردمند عوام تو اس کا جواب جانتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن بتائے کہ جن سیاسی جماعتوں نے 1988ء کے بعد اپنے کُل دورِ اقتدار میں اردو کو نافذ نہ کرکے آئین سے روگردانی (یا بغاوت)کی، کیا وہ سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے اور حکومت کرنے کی اہل ہیں؟ کیا ان افسروں اور حکمرانوں سے آئین کی شق 251 (1) کا نفاذ ممکن ہے کہ جن کی کوئی زبان ہی نہیں، نہ وہ انگریزی پر پوری طرح قادر ہیں، نہ انھیں اردو ہی آتی ہے، اور اپنی مادری زبان سے بھی ان کا رشتہ واجبی ہی رہ گیا ہے! جب زبان سے ان کی دل چسپی کا یہ عالم ہے توقومی زبان کی اہمیت اور قوم کو اس سے حاصل ہونے یا حاصل نہ ہونے والے فوائد سے وہ کیوں کر واقف ہوسکتے ہیں؟ اس صورت میں قوم کو یہ ڈر ہے کہ قومی زبان کے عدم ِنفاذ کے بارے میں عدالت ِ عظمیٰ کا یہ مخلصانہ اور دردمندانہ اقدام کیا لاحاصل نہ رہے گا؟ کہ جس نوکر شاہی نے صدارتی حکم بلکہ عہد ِ ضیاالحق کے بار بار کے احکامات کے باوجود نفاذِ اردو کی شقوں کو کابینہ کے اجلاسوں میں ایجنڈے ہی پر آنے نہ دیا اور وہ بعد کے ہر دور میں بھی اس جانب سے بے نیاز رہی، وہ اِس بار عدالت ِ عظمیٰ کے روبرو حیلے بہانے کرنے سے کیا نہیں چوکے گی؟ اس لیے اب قوم کے دردمند عوام کی یہی درخواست ہوگی کہ اس طرح کی بازپرس کے بجائے راست وزیراعظم پر اور1988ء کے بعد کے ہر وزیراعظم پر فرد ِ جرم عاید کی جائے کہ ان ہی کی غفلت کی وجہ سے قومی زبان نافذ نہ ہوسکی اور قوم اس کے نفاذ کی نعمتوں سے محروم رہی۔ جب تک وزیراعظم پر آئین کی دفعہ 251 (1) کو نافذ نہ کرنے پر فرد ِ جرم عائد نہ ہوگی حکومت قومی زبان کو نافذ کرنے میں سنجیدہ نہ ہوگی۔
اسی طرح جب تک سول سروس کے امتحانات اردو میں نہیں ہوں گے اُس وقت تک کالے انگریز ہی حکومت کا انتظام جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے سہارے سنبھالے رہیں گے اور درمیانہ طبقہ اقتدار میں کبھی نہ آسکے گا۔ حکومت کی اردو کے نفاذ میں غیر سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ اس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے جو اردو کے نفاذ کے ذمے دار ہیں ایک معاصر صحافی سے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے رونا رویا کہ اردو میں اچھی لغت موجود نہیں۔ اس بدنصیب افسر کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اردو میں ہر علمی، فنی، اور سائنسی ضرورت کے مطابق عمدہ لغات کی کمی نہیں۔ ہر علم اور ہر شعبے کی اصطلاحات تک کے ترجمے اردو میں موجود ہیں، اور تازہ تر اصطلاحات کے ترجمے کروانا کچھ مشکل نہیں۔ اب نہیں ستّر اسّی سال سے ایم بی بی ایس، انجینئرنگ اور تمام مضامین کی اعلیٰ سطحی تعلیم کامیابی سے اردو میں دی جاتی رہی ہے، اور اردو میں ڈاکٹری اور انجینئری کرنے والوں نے دنیا بھر میں اپنا نام بھی پیدا کیاہے اور ملک اور قوم کی خدمت بھی بے مثال کی ہے۔ مشکل سے ایسی ایک آدھ فیصد اصطلاحات ہوں گی جن کے ترجموں کی ضرورت ہوگی، جب کہ ان ترجموں کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے، رکتا نہیں۔ اس طرح کے افسروں کی موجودگی میں یہ بعید نہیں کہ عدالت ِ عظمیٰ کی گرفت کے باوجود حکومت اردو کے نفاذ کو ٹالتی رہے اور بالآخر ماضی کی طرح یہ معاملہ رفت گزشت ہوجائے جیسا کہ 1982ء سے اب تک ہوتا آیا ہے۔
اس لیے سپریم کورٹ کو بھی حکومت کے ان وعدوں کی پاسداری و عمل درآمد پر وقتاً فوقتاً نظر ڈالتے رہنا چاہیے تھا جو نہ ہوسکا۔ بلکہ اپنی نگرانی میں ایک مجلس اس مقصد سے قائم کرنا چاہیے تھی کہ وہ یہ دیکھتی رہے کہ حکومت اپنے وعدوں پر کس طرح عمل کرتی ہے یا نہیں کرتی۔
ایسی صورت ِ حال میں اگر اقوامِ متحدہ نے آج اردو کو ایک عالمی زبان تسلیم بھی کرلیا ہے، یا آج اگر ’’یومِ اردو‘‘بھی منا لیا گیا تو پاکستان میں سرکاری طور پر اس کے بارے میں رویّے میں کیا تبدیلی آسکے گی؟ اورملک میں کیا اردو کو واقعتاً قومی زبان کا درجہ و حیثیت حاصل ہوسکے گی؟