’’مس قا نتہ کل آپ کے ہاں بجلی نہیں تھی کیا…؟“ اسٹاف روم میں چھائی خاموشی کو میرے سوال نے توڑا۔
’’ہمارے ہاں بجلی…!!!“ قا نتہ کچھ سوچنے لگی، ”کل لائٹ تو تھی، بلکہ کل تو معمول کی لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہوئی۔ کیوں خیریت…!‘‘
’’اچھا… تو شاید آپ کے علاقے کی کیبل لائٹ نہیں ہو گی…؟“
’’نہیں، ٹی وی بھی چل رہا تھا۔‘‘
”آپ ڈرامے ٹی وی پر دیکھتی ہیں؟“ میں نے اگلا سوال کیا۔
’’موبائل نیٹ پر… مسئلہ کیا ہے…؟“ مس قا نتہ نے حیران ہوتے ہوئے میرے سوالات کی وجہ جاننا چاہی۔
”اوہ… تو پھر آپ کا پیکیج ختم ہوگا۔“ میں نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے کہا۔
”نہیں مس زلفی… میرا پیکیج کبھی ختم نہیں ہوتا، اب براہِ مہربانی آپ بتائیں گی کہ اصل بات کیا ہے…؟“
قا نتہ نے میرے سوالوں سے تنگ آکر منہ بنایا۔
’’وہ آج پورا دن گزر گیا، مگر… آپ کا اُلفت نامہ… سماعت سے نہیں گزرا“۔ میں نے وجہ بتائی۔
”آہ…کورونا کی دوبارہ آمد اور اسکولوں کی چھٹی کا اعلان کیا ہوا، دو ہفتوں سے ہمارا ’’اپنا نامہ‘‘ تیار ہو گیا ہے۔“ مس قا نتہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
کورونا کی دوسری لہر کے آتے ہی سندھ حکومت کی جانب سے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلامیہ جاری ہوا۔ پچھلی بار سب کچھ بڑا ہنگامی تھا سو بیشتر ادارے کوئی حکمتِ عملی مرتب نہ کرسکے۔ اِس بار لائحہ عمل پہلے سے طے کرلیا گیا تھا۔
ہفتہ وار ہوم ورک لکھنا، نصاب ترتیب دینا، ہر ہفتے اس کی جانچ کرنا، بچوں کو کہیں کوئی مشکل درپیش ہو تو بذریعہ فون یا اسکول بلا کر انہیں مطمئن کرنا۔ یہ سب کچھ ٹیچرز کے لیے جان جوکھوں کا کام تھا۔ لیکن!
لگا دی جان کی بازی، سمجھ کر کھیل قسمت کا
سو اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔
دراصل ہمارے اسٹاف میں مس قا نتہ ہر بدھ نشر ہونے والے ڈرامے کی کہانی اگلے دن بڑے زور شور سے بیان کرتی ہیں جس کی عادت سی ہوگئی ہے۔ اس ہفتے اُن کی خاموشی کھلنے لگی تو وجہ پوچھ بیٹھے۔
رات بچے جلدی سوگئے تو سوچا کیوں ناں مس قا نتہ کے شوق کو دیکھا جائے۔ لنک پہ جاکر ’’جا محبت تجھے الوداع‘‘ ٹیکسٹ کیا تو اب تک نشر ہونے والی تمام اقساط موجود تھیں۔ سرسری طور پر تمام اقساط دیکھنے لگے، ایک گھنٹے میں جو کچھ ان اقساط میں دیکھا اُس نے مجھے دکھ، حیرت اور خوف میں مبتلا کردیا۔
ہمارا میڈیا ڈراموں کے نام پر جو کچھ دکھا رہا ہے وہ کسی طور بھی ہمارے معاشرے کے حالات یا گھروں اور خاندانوں میں گزرنے والی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ نہ ہی معاشرے میں رائج برائیوں کو اس حقیقت کے ساتھ دکھا رہا ہے جس طرح وہ برائیاں ہماری زندگی میں موجود ہیں۔ مذکورہ بالا ڈرامے میں جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ دراصل اُس برائی کی ترغیب ہے جو نہ تو معاشرے میں رائج ہے اور نہ ہی اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ ایک تیر سے دو شکار کے مصداق حصولِ دولت کی ایک نئی بلکہ انوکھی راہ سُجھائی گئی ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہر ڈرامے کی طرح اس میں بھی عورت ہی کا استحصال کیا گیا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بیوی جیسے مقدس رشتے کی ناقدری کی گئی ہے۔ میاں بیوی کے رشتے میںٔ اعتماد و اعتبار کو بے وقعت کرکے بیوی کی وفا، تابعداری، ذمہ داری، محبت، خلوص اور قدردانی کو پامال کیا گیا ہے۔
خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے ایک عورت کو اس کے سوا اور کیا چاہیے کہ اپنا گھر، اولاد، محبت اور قدر کرنے والا ذمہ دار شوہر ہو جو بیوی کے جذبات اور اس کی جائز خواہشات کا احترام کرے، خیال رکھے۔ جس عورت کی زندگی میں یہ سب ہو وہ کبھی شوہر کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتی۔ ہاں کچھ ایسی نادان ہوتی ہیں جنہیں زیادہ سے زیادہ، خوب سے خوب تر کی خواہش ہوتی ہے۔ اوروں جیسا، ان سے اچھا، ان سے بڑھ کر… ایسی سوچ رکھنے والی عورت شوہر کی زندگی مشکل بنادیتی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود عورت اتنی کم ظرف اور اخلاقی گراوٹ کا شکار نہیں ہوتی کہ اپنے شوہر کا سودا کرکے اس کے اعتبار، یقین، مان اور محبت کا خون کردے۔ اپر کلاس کی بے باک خواتین کے بارے میں اس حوالے سے کوئی گمان نہیں کیا جا سکتا، لیکن مڈل کلاس خواتین کے لیے یہ سب کرنا آسان بنادیا ہے ڈرامہ نویس نے۔ کیونکہ اس طبقے کی خواتین کے اذہان عموماً جلد متاثر یا مرعوب ہوجاتے ہیں، اور وہ اپنی زندگی کا موازنہ ڈراموں میں دکھائی جانے والی زندگیوں سے فوراً کرنے لگتی ہیں۔ یوں انہیں ڈراموں میں اور اپنی زندگیوں میں مطابقت نظر آنے لگتی ہے۔ یہ دراصل وہ ذہنیت ہوتی ہے جو ’’جا محبت تجھے الوداع‘‘ جیسے ڈراموں کے ذریعے بنادی جاتی ہے۔ ڈرامے سے کیا سبق ملتا ہے، اس میں کیا نصیحت ہے… یہ سب تو آخری قسط میں دکھایا جاتا ہے۔ اُس وقت تک ذہنی سطح پندرہ، بیس اقساط میں دکھائی جانے والی برائی کو اس حد تک قبول کرچکی ہوتی ہے کہ آخر کا سبق یا نصیحت سمجھ ہی نہیں آتی۔
بیوی کی عزت و آبرو شوہر کی امانت ہے۔ لیکن جس معاشرے میں عورت سے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگوایا جا سکتا ہے، وہاں اس طرح کے ڈراموں کے ذریعے عورت کی ذہن سازی کرکے شوہر کی بولی لگانے اور اس کا سودا کرنے کا راستہ دکھایا گیا ہے… گویا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ واہ رے میڈیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کئی بار نظروں سے گزری۔
حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے جہنم دکھائی گئی، تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی۔ وہ نافرمان ہوتی ہیں“۔ سوال کیا گیا… ”وہ اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”وہ اپنے شوہروں کی نافرمانی اور ان کی احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بھر حُسنِ سلوک کرو، لیکن وہ تمہاری طرف سے اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات دیکھے تو فوراً کہہ دیتی ہے کہ تم نے آج تک میرے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ نہیں کیا۔“
(صحیح بخاری:5197)
یہ حدیث مبارکہ جب بھی مطالعے میں آئی ہم نے اپنے اردگرد اور خود سے وابستہ خواتین کی زندگیوں کا مشاہدہ کیا۔ جن سے بھی ہمارا قریبی تعلق رہا اُن سب کی زندگی میں کفایت و قناعت کی مثال ایک دوسرے سے بڑھ کر ملی۔ لگتا ہے کہ آئندہ برسوں میں تلاش مشکل نہ ہوگی، کیونکہ ہمارے ڈرامے، ہمارا میڈیا ایسے کردار بآسانی معاشرے کے ہر گھر میں تشکیل دے رہا ہے۔
الغرض ہمارا میڈیا بے لگام سرکش گھوڑا ہے جو سرپٹ دوڑے جارہا ہے سامنے آنے والوں کو روندنے (ناظرین کے اخلاق، اقدار و کردار کو پست کرنے) کے لیے۔ ایسے میں ہمیں اس کی سرکشی سے لطف لینے کے بجائے اس سے خوف کھا کر اپنے آپ کو اس کے چنگل سے بچانا ہے، کیونکہ اسے لگام تو اس کو سرِراہ لانے والا اُس کا مالک ہی ڈال سکتا ہے، اور ایسا فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔ باقی تو اللہ کی امان۔