امید کی کرن

347

احمد بس سے اترا اور اینٹوں سے بنی چھوٹی سی سڑک پر چلتے ہوئے اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ آج مختلف اداروں میں انٹرویو دیتے ہوئے بہت دن گزر گئے تھے، مگر اسے ہر بار کامیابی کے بجائے ناکامی کا تحفہ ملتا۔ اس کے چہرے پر ناامیدی کے آثار واضح طور پر نمایاں ہورہے تھے۔ وہ ایک گھنٹے سے مسلسل اپنے ہاتھوں میں تعلیمی اسناد لیے سڑک پر چہل قدمی کررہا تھا۔ مایوسی اور ناامیدی کے زیر سایہ وہ اپنی منزل کا تعین کرنا بھی بھول چکا تھا۔ اس کے ذہن میں سوچوں کا مسلسل شور تھا۔ اچانک اس کی نظر سڑک کی دوسری جانب ہاتھوں میں اخبار لیے بینچ پر براجمان اپنی مطلوبہ ہستی پر پڑی۔ خوشی کی لہر احمد کے دل میں اٹھنے لگی۔ وہ بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا، اور دونوں ہاتھ بینچ پر ٹکا کر پیروں کو گھورنے لگا۔ وہ اس کی پریشانی سمجھ گئے اور پوچھنے لگے ’’کیا ہوا بیٹا؟‘‘ احمد ان کو اپنی پریشانی بتانے کے لیے الفاظ جوڑنے لگا۔
ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر وہ بنا اِک پل رکے اپنی پریشانی بتانے لگا۔ وہ بِنا ٹوکے بڑے غور سے تمام باتیں سن رہے تھے۔ وہ احمد کا مسئلہ سمجھ گئے، اخبار کو ہاتھ سے لپیٹ کر کچھ دیر خلا میں دیکھا، پھر بولے ’’بیٹا ایک نظر آسمان پر ڈالو، اور کچھ دیر کے لیے غوروفکر کرو‘‘۔ اس نے گردن اٹھاکر ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ’’قدرت کے ابدی اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔ انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی ہی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’بیٹا! سورج غروب ہوتے ہی آسمان پر شفق نمودار ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چاند نکل آتا ہے، اور اس کے بعد تارے… چاند اور تاروں سے روشنی قائم رہتی ہے۔ چاند کی روشنی سورج جتنی تو نہیں ہوتی، مگر بہرحال روشنی تو ہے۔ اس پورے منظر میں قدرت کا ایک اہم سبق ہے کہ: امید کبھی ختم نہیں ہوتی۔‘‘
احمد تجسس اور نہ سمجھنے والے انداز میں ان کی جانب دیکھتا رہا۔ ’’احمد بیٹا! اِس دنیا میں امید اور امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ انسان کے اندر بے پناہ فطری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ کسی ایک محاذ پر ناکام ہوجانے سے انسان ہمیشہ کے لیے ناکام نہیں ہوجاتا۔ اس کے لیے کامیابی کے دوسرے مواقع اور امید کی نئی کرن ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ مگر انسان اپنی اس ایک ناکامی سے اتنا مایوس ہوجاتا ہے کہ اسے امید کے دوسرے کھلے دروازے نظر ہی نہیں آتے۔ اگر وہ ان پر گہری نظر ڈالے تو احساس ہوگا کہ امید اور امکان کے گہرے سمندر میں مواقع باقی ہیں، اور جو کچھ کھویا ہے وہ صرف اس سمندر کے ایک قطرہ پانی کے برابر تھا۔ ہر ناکامی میں کامیابی چھپی ہوتی ہے۔ یہ قدرت کا ابدی اصول ہے۔ رات کتنی بھی اندھیری اور طویل ہو، اس کی صبح ہوکر رہتی ہے۔ رات کی سیاہی صبح کی، اور خزاں موسمِ بہار کی تمہید ہے۔
گرمی کی شدت میں سرسبزی اور شادابی کی خبر پوشیدہ ہوتی ہے۔ مگر انسان کا معاملہ بھی کتنا عجیب ہے۔ اُسے اندھیرے تو صاف نظر آتے ہیں، مگر روشن اجالے نظر نہیں آتے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ امید کا دامن کسی بھی حالت میں نہ چھوڑے، کسی بھی حال میں مایوس نہ ہو۔ اسے چاہیے کہ ناامیدی میں امید کے پہلو پر نظر رکھے، اور حال کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر کی منصوبہ بندی کرے۔‘‘
اٹھ کر جانے سے پہلے انہوں نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شفقت سے کہا ’’اس دنیا میں امکانات اور امیدوں کی کوئی حد نہیں۔ ہر بار جب ایک امکان ختم ہوتا ہے، اور ایک بار جب امید ختم ہوتی نظر آتی ہے، اُسی وقت امید کی نئی کرن نمودار ہوتی ہے۔ مگر یہ صرف اُن ہی لوگوں کو نظر آتی ہے جو امید کی ڈور اور حوصلے کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ کر امکانات کے راستوں پر مستقل مزاجی سے گامزن ہوتے ہیں‘‘۔ ایک لمحے کے لیے مکمل طور پر خاموشی چھا گئی۔ ان کی باتوں سے احمد کے دل میں امید کا سورج طلوع ہوتے ہی ناامیدی اور مایوسی کے اندھیرے غائب ہونے لگے۔

حصہ