سود

321

قسط (19)۔

تجدید کے لیے چند ضروری شرطیں

پس اسلام میں اس امر کی پوری وسعت رکھی گئی ہے کہ تغیر احوال اور خصوصیات حوادث کے لحاظ سے احکام میں اصول شرع کے تحت تغیر کیا جاسکے اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی جائیں ان کو پورا کرنے کے لیے قوانین مرتب کیے جا سکیں۔ اس معاملے میں ہر زمانے اور ہر ملک کے مجتہدین کو اپنے زمانی اور مکانی حالات کے لحاظ سے استنباطِ احکام اور تخریج مسائل کے پورے اختیارات حاصل ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی خاص دورکے اہل علم کو تمام زمانوں اور قوموں کے لیے وضع قانون کے چارٹر دے کر دوسروں کے اختیارات کو سلب کر لیا گیا ہو۔ لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ ہر شخص کو اپنے منشا اور اپنی اہواء کے مطابق احکام کو بدل ڈالنے اور اصول کو توڑ موڑ کر ان کی الٹی سیدھی تاویلیں کرنے اور قوانین کو شارع کے اصل مقصد سے پھیر دینے کی آزادی حاصل ہو۔ اس کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے اور وہ چند شرائط پر مشتمل ہے۔

پہلی شرط

فروعی قوانین مدوّن کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مزاج شریعت کو اچھی طرح سمجھ یا جائے۔ یہ بات صرف قرآن مجید کی تعلیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں تدبّر کرنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ ان دونوں چیزوں پر جس شخص کی نظر وسیع اور عمیق ہوگی وہ شریعت کا مزاج شناس ہو جائے گا اور ہر موقع پر اس کی بصیرت اس کو بتا دے گی کہ مختلف طریقوں میں سے کون سا طریقہ اس شریعت کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے اور کس طریقہ کو اختیار کرنے سے اس کے مزاج میں بے اعتدالی پیدا ہو جائے گی۔ اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جو تغیر و تبدل کیا جائے گا وہ نہ صرف مناسب اور معتدل ہو گا بلکہ اپنے محلِ خاص میں شارع کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ اتنا ہی بجا ہوگا جتنا خود شارع کا حکم ہوتا۔ اس کی مثال میں بہت سے واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمرؓ کا یہ حکم کہ دورانِ جنگ میں کسی مسلمان پر حد نہ جاری کی جائے اور جنگ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص کا ابو حجن ثقفی کو شربِ خمر پر معاف کر دینا اور حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ کہ قحط کے زمانے میں کسی سارق کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ یہ امور اگرچہ بظاہر شارع کے صریح احکام کے خلاف معلوم ہوتے ہیں لیکن جو شخص شریعت کا مزاج داں ہے وہ جانتا ہے کہ ایسے حالات میں حکمِ عام کے امتثال کو چھوڑ دینا مقصودِ شارع کے عین مطابق ہے۔ اسی قبیل سے وہ واقعہ ہے جو حاطب بن ابی بلتعہ کے غلاموں کے ساتھ پیش آیا۔ قبیلہ مُزَیند کے ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ حاطب کے غلاموں نے اس کا اونٹ چرا لیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پہلے تو ان کے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دے دیا۔ پھر فوراً ہی آپ کو تنبہ ہوا اور آپ نے فرمایا کہ تم ان غریبوں سے کام لیا مگر ان کو بھوکا مار دیا اور اس حال کو پہنچایا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص حرام چیز کھا لی تو اس کے لیے جائز ہو جائے۔ یہ کہہ کر آپ نے ان غلاموں کو معاف کر دیا اور ان کے مالک سے اونٹ والے کو تاوان دلوایا۔ اسی طرح تعلقات ثلاثہ کے مسئلے میں حضرت عمرؓ نے جو حکم صادر فرمایا وہ بھی عہدِ رسالت کے عمل درآمد سے مختلف تھا۔ مگر چونکہ احکام میں یہ تمام تغیرات شریعت کے مزاج کو سمجھ کر کیے گئے تھے اس لیے ان کو کوئی نا مناسب نہیں کہہ سکتا۔ بخلاف اس کے جو تغیر اس فہم اور بصیرت کے بغیر کیا جاتا ہے وہ مزاج شرع میں بے اعتدالی پیدا کر دیتا ہے اور باعث فساد ہو جاتا ہے۔

دوسری شرط

مزاج شریعت کو سمجھنے کے بعد دوسری اہم شرط یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں قانون بنانے کی ضرورت ہو اس کے متعلق شارع کے جملہ احکام پر نظر ڈالی جائے اور ان میں غور و فکر کر کے یہ معلوم کیا جائے کہ ان سے شارع کا مقصد کیا ہے‘ شارع کس نقشہ پر اس شعبہ کی تنظیم کرنا چاہتا ہے‘ اسلامی زندگی کی وسیع تر اسکیم میں اس شعبۂ خاص کا کیا مقام ہے اور اس مقام کی مناسبت سے اس شعبہ میں شارع نے کیا حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔ اس چیز کو سمجھے بغیر جو قانون بنایا جائے گا یا پچھلے قانون میں جو حذف و اضافہ کیا جائے گا وہ مقصودِ شارع کے مطابق نہ ہوگا اور اس سے قانون کا رخ اپنی مرکز سے منحرف ہو جائے گا۔ قانون اسلامی میں ظواہر احکام کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی مقاصد احکام کی ہے۔ فقیہ کا اصل کام یہی ہے کہ شارع کے مقصود اور اس کی حکمت و مصلحت پر نظر رکھے۔ بعض خاص مواقع ایسے آتے ہیں جن میں اگر ظواہر احکام پر ( جو عام حالات کو مدِ نظر کر دیے گئے تھے) عمل کیا جائے تو اصل مقصد فوت ہو جائے۔ ایسے وقت میں ظاہر کو چھوڑ کر اس طریق پر عمل کرنا ضروری ہے جس سے شارع کا مقصد پورا ہوتا ہو۔ قرآن مجید میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کی جیسی کچھ تاکید کی گئی ہے معلوم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود آپؐ نے ظالم و جابر امرا کے مقابلے میں خروج سے منع فرما دیا کیوں کہ شارع کا اصل مقصد تو فساد کو صلاح سے بدلنا ہے۔ جب کسی فعل سے اور زیادہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور صلاح کی امید نہ ہو تو اس سے احتراز بہتر ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ فتنہ ٔ تاتار کے زمانے میں ایک گروہ پر ان کا گزر ہوا جو شراب و کباب میں مشغول تھا۔ علامہ کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو شراب سے منع کرنا چاہا مگر علامہ نے ان کو روک دیا اور فرمایا کہ اللہ نے شراب کو فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لیے حرام کیا ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ شراب ان ظالموں کو ایک بڑے فتنے یعنی قتل نفوس اور نہب اموال سے روکے ہوئے ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں ان کو شراب سے روکنا مقصود شارع کے خلاف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حوادث کی خصوصیات کے لحاظ سے احکام میں تغیر کیا جاسکتا ہے‘ مگر تغیر ایسا ہونا چاہیے جس سے شارع کا اصل مقصد پورا ہو نہ کہ الٹا فوت ہو جائے۰
اسی طرح بعض احکام ایسے ہیں جو خاص حالات کی رعایت سے خاص الفاظ میں دیے گئے تھے۔ اب فقیہ کا کام یہ نہیں ہے کہ تغیر احوال کے باوجود انہی الفاظ کی پابندی کرے‘ بلکہ اس کو ان الفاظ سے شارع کے اصل مقصد کو سمجھنا چاہیے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے حالات کے لحاظ سے مناسب احکام وضع کرنے چاہیے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ ٔفطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو‘ یا ایک صاع کشمش دینے کا حکم فرمایا تھا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس وقت مدینے میں جو صاع رائج تھا اور یہ اجناس جن کا حضورؐ نے ذکر فرِمایا۔ یہی بعینہ منصوص ہیں۔ شارع کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عید کے روز ہر مستطیع شخص اتنا صدقہ دے کہ اس کا یک غیر مستطیع بھائی اس صدقہ میں اپنے بال بچوں کے ساتھ کم از کم عید کا زمانہ خوشی کےساتھ گزار سکے۔ اس مقصد کو کسی دوسری صورت سے بھی پورا کیا جاسکتا ہے جو شارع کی تجویز کردہ صورت سے اقرب ہو۔

تیسری شرط

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شارع کے اصول تشریع اور طرزِ قانون سازی کو خوب سمجھ لیا جائے تاکہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام وضع کرنے میں انہی اصولوں کی پیروی اور اسی طرز کی تقلید کی جاسکے۔ یہ چیز اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان مجموعی طور پر شریعت کی ساخت اور پھر فرداً فرداً اس کے احکام کی خصوصیات پر غور نہ کرے۔ شارع نے کس طرح احکام میں عدل اور توازن قائم کیا ہے‘ کس کس طرح اس نے انسانی فطرت کی رعایت کی ہے۔ دفع مفاسد اور جلب مصالح کے لیے اس نے کیا طریقے اختیار کیے ہیں‘ کس ڈھنگ پر وہ انسانی معاملات کی تنظیم اور ان میں انضباط پیدا کرتا ہے‘ کس طریقہ سے وہ انسان کو اپنے بلند مقاصد کی طرف لے جاتا ہے اور پھر ساتھ ساتھ اس کی فطری کمزوریوں کو ملحوظ رکھ کر اس کے راستے میں مناسب سہولتیں بھی پیدا کرتا ہے، یہ سب امور تفکر و تدبیر کے محتاج ہیں اور ان کے لیے نصوص کی لفظی و معنوی دلالتوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کی حکمتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ جو شخص اس علم اور تفقہ سے بہرہ ور ہو وہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام میں جزوی تغیر و تبدل بھی کر سکتا ہے اور جن معاملات کے حق میں نصوص موجود نہیں ان کے لیے نئے احکام بھی وضع کر سکتا ہے کیوں کہ ایسا شخص اجتہاد میں جو طریقہ اختیار کرے گا وہ اسلام کے اصول تشریع سے منحرف نہ ہوگا۔ مثال کے طر پر قرآن مجید میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے مگر اجتہاد سے کام لے کر صحابہؓ نے اس حکم کو عجم کے مجوسیوں‘ ہندوستان کے بت پرستوں اور افریقہ کے بربری باشندوں پر بھی وسیع کر دیا۔ اسی طرح خلفائے راشدین کے عہد میں جب ممالک فتح ہوئے تو غیر قوموں کے ساتھ بہ کثرت ایسے معاملات پیش آئے جن کے متعلق کتاب و سنت میں صریح احکام موجود نہ تھے۔ صحابہ کرامؓ نے ان کے لیے خود ہی قوانین مدوّن کیے اور وہ اسلامی شریعت کی اسپرٹ اور اس کے اصول سے پوری مطابقت رکھتے تھے۔

چوتھی شرط

احول اور حوادث کے جو تغیرات‘ احکام میں تغیر یا جدید احکام وضع کرنے کے لیے مقضنی ہوں‘ ان کو دو حیثیتوں سے جانچنا ضروری ہے۔ ایک یہ حیثیت کہ وہ حالات کے بجائے خود کس قسم کے ہیں‘ ان کی خصوصیات کیا ہیں اور انکے اندر کون سی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ دوسری حیثیت یہ کہ اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے ان میں کس کس نوع کے تغیرات ہوئے ہیں اور ہر نوع کا تغیر احکام میں کس طرح کا تغیر چاہتا ہے۔
مثال کے طور پر اسی سود کے مسئلے کو لیجیے جو اس وقت زیر بحث ہے۔ معاشی قوانین کی تدوین جدید کے لیے ہم کو سب سے پہلے زمانۂ حال کی معاشی دنیا کاجائزہ لینا ہوگا ہم گہری نظر سے معاشیات‘ مالیات اور لین دین کے جدید طریقوں کا مطالعہ کریں گے‘ معاشی زندگی کے باطن میں جو قوتیں کام کر رہی ہیں ان کو سمجھیں گے‘ ان کے نظریات اور اصول سے واقفیت حاصل کریں گے۔اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ زمانۂ سابق کی نہ نسبت ان معاملات میں جو تغیرات ہوئے ہیں ان کو اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے کن اقسام پر منقسم کیا جاسکتا ہے اور ہر قسم پر شریعت کے مزاج اور اس کے مقاصد اور اصول تشریع کی مناسبت سے کس طرح احکام جاری ہونے چاہئیں۔
جزئیات سے قطع نظر کرکے‘ اصولاً ان تغیرات کو ہم دو قسموں پر منقسم کر سکتے ہیں۔
-1 وہ تغیرات جو درحقیقت تمدنی احوال کے بدل جانے سے رونما ہوئے ہیں اور جو دراصل انسان کے علمی و عقلی نشووارتقاء اور خزائن الٰہی کے مزید اکتثافات اور مادّی اسباب و وسائل کی ترقی اور حمل و نقل اور مخابرات (Communications) کی سہولتوں اور ذرائع پیداوار کی تبدیلی اور بین الاقوامی تعلقات کی وسعتوں کے طبعی نتائج ہیں ایسے تغیرات اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے طبعی اور حقیقی تغیرات ہیں ان کو نہ تو مٹایا جاسکتا ہے اور نہ مٹانا مطلوب ہے‘ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اثر سے معاشی احوال اور مالی معاملات اور تجارتی لین دین کی جو نئی صورتیں پیدا ہوگئی ہیں‘ ان کے لیے اصولِ شریعت کے تحت نئے احکام وضع کیے جائیں تاکہ ان کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمان اپنے عمل کو ٹھیک ٹھیک اسلامی طرز پر ڈھال سکیں۔
-2 وہ تغیرات جو دراصل تمدنی ترقی کے فطری نتائج نہیں ہیں‘ بلکہ دنیا کے معاشی نظام اور مالی معاملات پر ظالم سرمایہ داروں کے حاوی ہو جانے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ وہی ظالمانہ سرمایہ داری جو عہدِ جاہلیت میں پائی جاتی تھی اور جس کو اسلام نے صدیوں تک مغلوب کیے رکھا تھا‘ اب دوبارہ معاشی دنیا پر غالب آگئی ہے اور تمدن کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے کام لے کر اس نے اپنے ان ہی پرانے نظریات کو نت نئی صورتوں سے معاشی زندگی کے مختلف معاملات میں پھیلادیا ہے۔ سرمایہ داری کے اس غلبہ سے جو تغیرات واقع ہوئے ہیں وہ اسلامی قانون کی نگاہ میں حقیقی اور طبعی تغیرات نہیں ہیں بلکہ جعلی تغیرات ہیں جنہیں قوت سے مٹایا جاسکتا ہے اور جن کا مٹا دیا جانا نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ مسلمان کا اصلی فرض یہ ہے کہ اپنی پوری قوت ان کے مٹانے میں صرف کر دے اور معاشی نظام کو اسلامی اصول پر ڈھالنے کی کوشش کرے۔ سرمایہ داری کے خلاف جنگ کرنے کا فرض کمیونسٹ سے بڑھ کر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ کمیونسٹ کے سامنے محض روٹی کا سوال ہے اور مسلمان کے سامنے دین و اخلاق کا سوال کمیونسٹ محض صعالیک (Proletareates) کی خاطر جنگ کرنا چاہتا ہے اور مسلمان تمام نوع بشری کے حقیقی فائدے کے لیے جنگ کرتا ہے جس میں خود سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔ کمیونسٹ کی جنگ خود غرضی پر مبنی ہے اور مسلمان کی جنگ للہیت پر۔ لہٰذا مسلمان تو موجودہ ظالمانہ سرمایہ داری نظام سے کبھی مصالحت کر ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ مسلم ہے اور اسلام کا پابند ہے تو اس کے خدا کی طرف سے اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو مٹانے کی کوشش کرے اور اس جنگ میں جو ممکن نقصان اس کو پہنچ سکتا ہو اسے مردانہ وار برداشت کرے۔ معاشی زندگی کے اس شعبے میں اسلام جو قانون بھی بنائے گا اس کی غرض یہ ہرگز نہ ہوگی کہ مسلمانوں کے لیے سرمایہ داری نظام میں جذب ہونے اور اس کے ادارت میں حصہ لینے اور اس کی کامیابی کے اسباب فراہم کرنے میں سہولتیں پیدا کی جائیں‘ بلکہ اس کی واحد غرض یہ ہوگی کہ مسلمانوں کو اور تمام دنیا کو اس گندگی سے محفوظ رکھا جائے اور ان تمام دروازوں کو بند کیا جائے جو ظالمانہ اورناجائز سرمایہ داری کو فروغ دیتے ہیں۔
(جاری ہے)