بیگم مولانا عزیز گل (انگلستان)
مولانا عزیر گل شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے ساتھ مالٹا میں اسیر تھے۔ ایک انگریزعورت نے مولانا حسین احمد مدنی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ پھر انہی کے مشورے اور خواہش سے مولانا عزیر گل سے شادی کر لی۔ یہ آپ بیتی اس نیک بخت مومنہ کی ہے۔
…٭…
میں اپنے والد چارلس ایڈورڈ اسٹیفورڈ اسٹیل کی ساتویں لڑکی ہوں۔ میں 1885ء میں حیدراباد سندھ میں پیدا ہوئی۔ میرے والد صاحب انصاف پسند اور بات کے پکے انسان تھے۔ انہیں ہندوستان اور ہندوستانی لوگوں سے بڑا لگائو تھا۔ کبھی کبھی تو وہ خود کو سندھی کہہ دیا کرتے تھے۔ ہماری خاندانی نسبتیں بڑی عظیم تھیں مگر ہمارے والد کا کہنا تھا کہ شرافت کا معیار کردار ہے نہ کہ خون‘ بہرحال میں چھ سال کی ہی ہوں گی کہ مجھے تعلیم کے لیے انگلستان بھیج دیا گیا۔ مجھے سچی بات سے ہمیشہ پیار رہا۔ میں ہر بات کا سبب کھوجنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔
میں ایک عیسائی کنبے میں پیدا ہوئی مگر عیسائی کسی ایک عقیدے میں بھی متفق نہیں ہیں۔ عیسائیوں کے بہت سے فرقے ہیں جو ایک دوسرے کو جہنمی قرار دیتے ہیں‘ اس لیے عیسائی مذہب مجھے گورکھ دھندا سا لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ خدا کے بیٹے کیسے ہو سکتے ہیں۔ مگر مجھے دُعا سے بڑا شغف تھا اور میں اکثر اَن دیکھے مالک سے لو لگا کر دعائیں کرتی تھی۔ جب میں جوان ہو گئی تو میں نے بائبل کو تنقیدی نظر سے پڑھنا شروع کیا۔ مجھے بائبل کے بہت سے بیانات ایک دوسرے سے متضاد محسوس ہوئے۔ مجھے بائبل کے کلامِ خدا ہونے میں شک ہونے لگا۔
کچھ عرصے بعد میری شادی ہو گئی‘ مگر میرے شوہر ایک دنیا دار عیسائی تھے۔وہ میرے فکر و خیال کے ساتھی نہ بن سکے‘ اس لیے میں نے فرصت کے وقت میں فلسفہ کا مطالعہ کرنا شروع کردیا مگر ان خیالی بھول بھلیوں سے مجھے کچھ نہ ملا۔
انہی دنوں میں اپنے والد کے پاس ہندوستان آئی۔ میری 12 سالہ لڑکی اور 10 سالہ لڑکا میرے ساتھ تھے۔ یہاں مجھے ’’ویدانت‘‘ (ویدانت ہندوئوں کے فلسفے اور مذہبیات کا ایک نظام ہے جس میں خدا پر بحث کی گئی ہے۔) پڑھنے کا موقع ملا۔ مجھے اس کے پڑھنے سے بڑی تسکین ملی۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ چیز مل گئی جس کی مجھے تلاش تھی۔ ویدانت کے مطالعے نے مجھے ہندو دھرم کے قریب کردیا‘ میں کچھ عرصے کے لیے ایک ہندو خانقاہ میں مہمان بن کر رہی اور بالآخر ہندو ہو گئی۔ مجھے راما کرشن کے ویدانتی سلسلے میں داخل کر لیا گیا‘ مگر مجھے یہ شرک سا محسوس ہوا‘ چنانچہ میرا یقین ہل گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ حقیقت ابھی اور آگے ہے۔
میں اسی زمانے میں بیمار ہو گئی اور مجھے علاج کے لیے فرانس جانا پڑا۔ وہاں میرے سات آپریشن ہوئے۔ ہر آپریشن پر موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ میں موت کے لیے تیاری کر لوں۔ میں نے سوچا کہ دنیا ترک کر دوں اور آخرت کی تیاری میں لگ جائوں۔ لہٰذا واپس جب ہندوستان آئی تو میں نے سنیاس لے لیا۔ میں نے ایک سو آٹھ اپنشد پڑھے‘ لیکن یہ کیا؟ یہاں بھی بائبل کی طرح کے اَن گنت تضاد تھے۔ ان میں کون سی بات حق ہے اور کون سی غلط ہے‘ یہ کیسے معلوم ہو؟ میں ایک بار پھر الجھ گئی۔ مجھے خوف ہو گیا کہ اسی ذہنی الجھن میں کہیں پاگل نہ ہو جائوں۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ سنیاس سے میری روحانیت نہیں بڑھ رہی ہے‘ بلکہ نفسیاتی کشمکش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی زمانہ میں ہندوستان میں عدمِ تعاون کی تحریک چل پڑی۔ ہندوستانی ہندوستانیوں سے لڑ پڑے۔ الموڑہ بھی فسادات سے بچا نہ رہا۔ اس وقت میرے دل نے کہا یہ خانقاہ میں بیٹھ کر دھیان گیان کا وقت نہیں ہے بلکہ باہر نکل کر زخمیوں اور دکھیوں کی مدد کرنے کا وقت ہے۔ میں نے اپنے گرو جی سے یہ بات کہی مگر انہوں نے کہا کہ ہم لوگ دنیاداری نہیں ہیں۔ تم جن باتوں کے کرنے کو کہہ رہی ہو وہ سیاست کی باتیں ہیں۔ ہم ان باتوں میں نہیں پڑتے۔
مجھے ان کے سوچنے کے اس انداز پر حیرت ہوئی۔ میں انہیں تو خانقاہ چھوڑ کر زخمیوں کی مدد پر آمادہ نہ کرسکی‘ مگر خود خانقاہ سے نکل آئی۔ میں نے زخمیوں‘ مریضوں اور دکھیوں کی امداد کی اس سے دل کو چین ملا اور میں نے طے کیا کہ روحانی ترقی انسانیت کی خدمت کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے‘ خانقاہوں کی زندگی سے نہیں۔ چنانچہ میں نے ایک آشرم کھولنے کا فیصلہ کیا‘ جس میں نوجوان لڑکوںکی اخلاقی تربیت کی جائے۔ اس آشرم میں‘ میں نے ہندو مسلمان کی قید نہیں رکھی۔ وہاں ایک مسلمان لڑکا داخلے کے لیے لایا گیا۔ یہ لڑکا اپنے والدین کے لیے ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ میں نے سوچا جب تک میں مسلمانوں کے نظامِ حیات کے بارے میں معلومات حاصل نہ کروں‘ میں اس لڑکے کی تربیت کا حق ادا نہ کرسکوں گی۔ اس نیت سے میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا۔
اب تک میں مسلمانوں سے ڈرتی تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ مسلمان ایک قسم کے ’’ڈاکو‘‘ ہوتے ہیں جو ہر قسم کا ظلم کر سکتے ہیں‘ لیکن اس کتاب نے میری آنکھیں کھل دیں۔ یہ تو سراسر حق تھا اور دل میں اترتا چلا جاتا تھا۔ یہ عملی دیدانت تھا۔ آہ! میں اب تک کن اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ افسوس کہ یورپی مستشرقوں نے اسلام کی کتنی غلط تصور پیش کی ہے۔ وہ مذہب جسے میں خون خوار بھیڑیوں کا مذہب سمجھتی تھی‘ مکمل سچائی کا دین تھا۔
’’میرے خدا میں اب کیا کروں‘میں نے تو ساری زندگی اکارت کر دی۔‘‘ میں نے سوچا میں ہندو رہوں ہی رہوں یا ہندو مت کو چھوڑ دوں۔ میں نے راہبانہ زندگی اختیار کر لی تھی۔ یہ ایک طرح کی موت تھی۔ قرآن مجھے زندگی کی طرف بلا رہا تھا۔ ایسی زندگی کی طرف جو آخرت کی زندگی کی بنیاد بنتی ہے‘ مگر مشکل یہ تھی کہ میں ایک مقدس خانقاہ کی راہبہ تھی۔ لوگ مجھے پیار سے ماں کہتے تھے۔ میں مسلمان ہو جائوں گی تو دنیا کیا کہے گی؟ مگر مجھے اپنی روح کو خلجان سے بچانا تھا۔ میں نے لوگوں کے کہنے کی پروا نہ کی۔ میں نے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
میرے گرو بھائی بڑے دہشت زدہ ہوئے‘ مگر میں نے انہیں خلوص سے بتایا کہ اصل دیدانت یہ ہے جو میں قبول کررہی ہوں۔ میرے گرو بھائیوں نے کہا کہ یہ کام مسلمان ہوئے بغیر بھی جاری رہ سکتا ہے۔ ویدانتی رہ کر بھی تم قرآن کی راہ اختیار کر سکتی ہو۔ یہ بھی ویدانت کا ہی ایک سلسلہ ہوگا‘ لیکن یہ بات میرے دل میں نہ اتر سکی‘ میں سمجھ رہی تھی راما کشن نے حقیقت کا راستہ نہیں اختیار کیا تھا بلکہ وہ خود ان کے ذہن کی اپج اور ایک بھرم تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نام نہاد صوفی نے انہیں یہ بھرم دلا دیا ہو۔ میرے ہندو دوستوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے آپ کو مسلمان نہ کہوں تو وہ مجھے آگرہ میں راما کرشن مشن کا مہنت بنا دیں گے‘ مگر مجھے دنیاوی لالچ نہ تھا‘ مجھے روح کے آرام کی ضرورت تھی‘ اس لیے میں نے ان کی بات کو رد کردیا۔
ایک اور مشکل پیش آئی۔ مسلمانوں نے مجھے مسلمان ماننے سے انکار کردیا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ ہمیں ہندو بنانے کے لیے نیا روپ دھارن کر رہی ہے‘ میں خود شبہے میں پڑ گئی۔ میں قرآن کو اپنا ہادی اور راہنما مان رہی تھی‘ تو کیا یہ بات مسلمان ہونے کے لیے کافی نہ تھے۔ اپنے دل کی بے قراری کو دور کرنے کے لیے میں دیو بند گئی۔ میری بیٹی میرے ساتھ تھی۔ ہم دنوں بے پردہ تھیں۔ ہم نے مولانا حسین احمد مدنی سے ملاقات کی۔ اپنی بات ان کے سامنے رکھی اور پوچھا ’’کیا ہم مسلمان نہیں؟‘‘
’’تم حقیقتاً مسلمان ہو‘‘۔ مولانا نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر کہا ’’تمہیں اس میں شک کیوں ہے؟‘‘
مولانا حسین احمد صاحب کی عظمت ہم دونوں کے دل میں بیٹھ گئی۔ انہوں نے ہماری بہت خاطر کی۔ بعد کو وہ ایک بار مجھ سے ملنے بنگلور بھی آئے تھے۔ ان کے ساتھ مولوی عزیر گل بھی تھے۔ مولانا حسین احمد انہیں بہت چاہتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ دو دوست لڑکے ہوں۔ وہ ایک دوسرے سے معصوم مذاق کرتے‘ ایک دوسرے کی ہنسی اڑاتے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کو چڑاتے بھی تھے۔ مجھے ان کی محبت پر رشک محسوس ہوتا۔
وہ دن بھر ہمارے پاس رہے۔ جب وہ چلنے لگے تو میں نے مولانا حسین احمد صاحب سے کہا کہ وہ پھر تشریف لائیں۔ اس پر انہوں نے کہا میں تو زیادہ نہ آسکوں گا مگر عزیر گل کبھی کبھی آیا کریں گے۔ چنانچہ مولوی عزیر گل صاحب آتے رہے۔ میں ان سے پردہ اور دوسرے مسائل پر بلاجھجک بات چیت کرتی رہی۔ شروع میںیہ سمجھتی تھی کہ یہ مولوی بڑے تنگ نظر ہوتے ہیں‘ مگر بعد کو پردے کی حقیقت مجھ پرکھلی تو میں ان کی وسعتِ نظر کی قائل ہو گئی۔
یہاں میں اسلام کے مطالعے میں لگی ہوئی تھی کہ اچانک میرے شوہر کا خط آیا کہ اگر میں فوراً انگلستان نہ لوٹی تو وہ مجھے خرچ دینا بند کر دیں گے۔ بچوں کی تعلیم کا خرچ مجھ سے وصول کریں گے اور مجھ سے تعلق توڑ لیں گے۔ اس پر مجھے تعجب ہوا نہ افسوس۔ میں مسلمان ہو چکی تھی‘ اب میں کسی عیسائی شوہر کی بیوی کیسے رہ سکتی تھی۔ رہا رزق تو یہ اللہ کی دین ہے‘ کم یا زیادہ ملے گا ہی۔
عزیر گل صاحب کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ تھامنے کی پیشکش کو قبول کر لیا۔ میں جانتی تھی کہ ان کے یہاں غربت ہے‘ افلاس ہے‘ پردہ ہے مگرمیرے لیے تو یہی اللہ کی پسندید جگہ تھی۔ عزیر گل کے گھر میں مجھے زندگی کی حقیقی راحت ملی۔ وہ نہایت شریف اور مہربان شوہر ثابت ہوئے۔
یوں بھی وہ سید ہیں اور انہوں نے سیادت کی لاج رکھی ہے۔ ان کے اجداد عرب سے افغانستان اور افغانستان سے ہندوستان آئے تھے اور راہِ حق کی مسافرت میں مشرق و مغرب کے لیے ہماری راہ یک تھی۔ ہماری منزل ایک تھی۔ ہماری روحیں ہم آہنگ تھیں۔ ہم دونوں اللہ کے پیارے نبیؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا رادہ لے کر اٹھے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس راہ میں میری بیٹی‘ میرا بیٹا اور میرا بھائی سب مجھ سے ہمدردی کرتے رہے۔ انہوں نے مجھے حق کی راہ میں قدم بڑھانے سے روکا نہیں۔ میری زندگی کا ایک سفر ہے وہ ’’برسوں کی محرابوں‘‘ سے گزر کر اسلام کی حسین وادی میں ختم ہو رہا ہے۔