سدپارہ سے سینیٹر زکی

332

خرید و فروخت تک سوشل میڈیا پر شور

کورونا کی وجہ سے 2020 کے ’پاکستان سپر لیگ‘ مطلب پی ایس ایل کے میچز نومبر میں کھینچ تان کر مکمل کیے گئے۔ اس کے بعد فروری2021 میں اگلے یعنی 2021 کے PSL کی تیاریاں مکمل کرکے نئے گانے کے ساتھ لانچ کیا گیا۔ ایسی مہمات و ایونٹس کی لانچنگ کے لیے سوشل میڈیا کا الگ بجٹ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسا ہوتا ہے کہ ناظرین اُس پروڈکٹ کو فیل کر سکتے ہیں۔ پی ایس ایل کے 2021 کے تھیم سانگ کے ساتھ یہی ہوا۔ پاکستان ساؤتھ افریقہ سیریز بھی کرکٹ کے شائقین کے لیے سماجی میڈیا پر مستقل جگہ گھیرے رہی۔ اور ٹی ٹونٹی میں پاکستان کی کامیابی کے بعد یہ سیریز سوشل میڈیا پر اورموضوع بحث بنی رہی ۔
اس ہفتہ 8611 میٹر بلند پاکستان کی ایک معروف اور دنیا کی دوسری بڑی پہاڑی چوٹی K2 کو موسم سرما میں سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ و ان کی ٹیم کی واپسی پر اچانک گمشدگی بھی سوشل میڈیا پر اہم موضوع بنی رہی۔ سرد ترین موسم میں اہل پاکستان نے پہلے چوٹی سر کرنے پر شکر، خوشی و نیک تمناؤں کا اظہار کیا پھر کوہ پیماؤں کی گمشدگی کی اطلاع آنے پر سب نے دعائیہ پوسٹوں کی بھرمار کی۔ اس دوران علی سد پارہ کی کئی تصاویر اور وڈیوز وائرل رہیں۔ سد پارہ اس سے قبل پاکستان کی8 بلند چوٹیوں پر پاکستانی پرچم لہرا چکے ہیں۔ اسکردو سے تعلق رکھنے والا بچپن ہی سے پہاڑوں کو اور بلند چوٹیوں تک پہنچنے کا جنون رکھتا تھا۔ 5 سال قبل ہی نانگا پربت پر پاکستان کا پرچم لہرایا تھا۔ اسی موسم کی کوہ پیمائی مہم میں نیپال کی ایک ٹیم بخیر و عافیت کے ٹو پہنچ کر ان سے دو ہفتہ قبل ہی واپس آئی تھی۔
اپوزیشن جماعتیں اتحاد اور انفرادی صورتوں میں ملک کے مختلف شہروں میں جلوس، ریلی، مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سب کے باوجود حکومتی پالیسیوں سے تنگ آکر سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد بھی دارالحکومت کو تختہ مشق بنا بیٹھی۔ مہنگائی کی بدترین لہر مستقل عام آدمی اور تنخواہ دار طبقات کی کمر توڑ رہی ہے کیونکہ اُن کے اخراجات بڑھ رہے ہیں لیکن آمد ن نہیں بڑھتی جب کہ کاروبار، صنعت کار، تاجر و دیگر تو پیچھے سے مہنگی آنے والی ہر چیز کو اپنے منافع کے تناسب کے ساتھ ہی بڑھا دیتا ہے یوں اُس کی آمدن پر کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا جس سے وہ بھی بلبلائے۔ اپنی تنخواہوں و مراعات میں اضافے کا مطالبہ لیے وہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج پر بیٹھ گئے جنہیں وہاں سے ہٹانے اور ان کے بڑھتے اقدامات کو روکنے کے لیے حکومت نے طاقت کا استعمال کیا۔ اسلام آباد میں دفعہ 144 کے باوجود کئی روز سے دھرنا جاری تھا جب حکومت کی خاموشی مظاہرین سے برداشت نہ ہوئی تو انہوں نے راستے بلاک کرنا شروع کیے جس سے صورت حال خراب ہوئی اور انتظامیہ کو ایکشن لینا پڑا۔ شاید مظاہرین توجہ پانے کے لیے یہی چاہتے تھے۔ چوں کہ صورت حال کا فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے سرکاری ملازمین کی حمایت کا اعلان کردیا تھا اس لیے ملازمین کو ان کا حق دو، اسلام آباد پروٹسٹ، تنخواہ میں اضافہ کرو، ملک کے سوداگر حکمران سمیت کئی ٹرینڈ چلتے رہے۔ سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد نے اسلام آباد میں ریڈ زون کے مختلف چوک، سڑکوں اور سبزہ زاروں پر رات گزاری، جب کہ ان میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی شامل تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق کم و بیش تیس لاکھ سرکاری ملازمین ہیں جن کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے حکومت کو سالانہ ایک سو ارب روپے درکار ہیں جو وزارت خزانہ آئی ایم ایف کی جانب سے بجٹ کے خسارے سے متعلق عائد شرائط کی وجہ سے مہیا نہیں کر سکتی۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے افراطِ زر، مہنگائی اور گزشتہ سالانہ بجٹ میں معمولی اضافے کے باوجود 21۔2020 کے بجٹ میں بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی تھی۔ مظاہرین سے جان چھڑانے کے لیے تادمِ تحریر ایک معاہدہ سامنے آیا جس کے تحت مالی سال 22۔2021 بجٹ آنے تک ایک سے 22 گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد عبوری اضافہ کیا جائے گا۔ میرے اندازے کے مطابق 8-10 دن مزید سرکاری ملازمین کو مصروف رکھ لیتی تو اچھا ہوتا کیوں کہ دارالحکومت میں 16 فروری کے بعد اگلا دھرنا منتظر ہے۔
منہاج القرآن کی جانب سے ٹوئٹر پر نظام المدارس کا ٹرینڈ ایک ایسی خوشی کے ساتھ نظر آیا جس کے پیچھے امت کی مزید تقسیم کا ’شرّی ایجنڈا‘ محسوس ہوا۔ پاکستان میں اس وقت بلکہ اس کی تاریخ کو انگریز کے دور سے شروع کریں تو ہمیشہ سے انگریزوں اور استعماری قوتوں نے اسلام کے بنیادی مرکز یعنی مدارس کو ہر صورت نشانہ بنایا۔ جو لوگ اس وقت ارتغرل سیریز سے چلتے ہوئے عثمان کی تازہ اقساط تک پہنچ چکے ہیں وہ ضرور اس بات کو سمجھ سکیں گے کہ اقامت دین کے لیے مدارس کے نظام کی اہمیت تلوار جتنی ہی رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ارتغرل کا عالم دین کو بچانے والا کلپ بہت وائرل رہا جو یہی بات سمجھا رہا تھا کہ ہمارے دین کی ترویج اور فروغ میں علما ئے کرام، مشائخ عزام، صوفیا و بزرگان دین کا بھی کلیدی کردار ہے۔ انگریزوں نے برصغیر میں ہر سطح پر ’تقسیم‘ فارمولا اپنایا اور اپنے انگریزی نظام تعلیم کو نافذ کروا کر حکومت کی جسے قیام پاکستان کے چند عشروں بعد مسلط ہونے والے حکمرانوں نے بھی اپنایا۔ پاکستان میں اس وقت وفاق المدارس کے تحت 5 بورڈ کام کر رہے ہیں جن کے نام وفاق المدارس العربیہ (دیوبند مکتب فکر)، وفاق المدارس (شیعہ مکتب فکر)، تنظیم المدارس (بریلوی مکتب فکر)، وفاق المدارس السلفیہ کے بعد رابطتہ المدارس العالمیہ شامل ہیں۔ اب یوں سمجھ لیں کہ حکومت کو کوئی بھی مسلکی یا مذہبی معاملہ ہو تو اُسے حل کروانے کے لیے یا بات کرنے کے لیے صرف ۵ مذکورہ بورڈز کے نمائندے ہی کافی ہوتے تھے۔ اب حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مزید 5ب ورڈز کی منظوری دے کر درج بالا مکتب فکر کے نمائندہ بورڈز کو مزید تقسیم کر دیا۔ منظور کیے جانے والوں میں اتحاد المدارس العربیہ (دیوبند)، اتحادالمدارس الاسلامیہ پاکستان (اہل حدیث)، مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ (اہل تشیع)، نظام المدارس پاکستان (منہاج القرآن)، وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ (بریلوی) کے علاوہ جامعہ الرشید کو الگ ادارے کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس عمل سے مکاتب فکر کے سربراہان میں رائے کی مزید تقسیم ہوگی جیسا کہ بریلوی مکتب فکر کے لیے اب منہاج القرآن کو الگ سے بورڈ دے دیا گیا اور وہ سوشل میڈیا پر اس کا جشن مناتے نظر آئے ویسے منہاج القرآن کا سوشل میڈیا ونگ بہرحال خاصا متحرک رہتا ہے اور وہ کوئی چھوٹا بڑا موقع جانے نہیں دیتے۔ سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں یہی بات کہی جا رہی ہے کہ مدارس کے نصاب پر حکومتی مرضی و ایجنڈے کو مسلط کرنے کے لیے یہ راہ نکالی گئی ہے۔ تادم تحریر کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ماضی گواہ ہے کہ مدارس پر نصابی و دیگر کنٹرول کے لیے حکومتیں کیا کچھ دباؤ ڈالتی رہی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ اس وقت اپوزیشن پارٹی میں سے مولانا فضل الرحمٰن کے وفاق المدارس العربیہ پر سے اثرات کم کرنے کے لیے یہ کام کیا گیا۔
اس ہفتے سینیٹرز کی خرید و فروخت کے لیے ہمیشہ کی طرح لگائے جانے والے الزامات کی وڈیوز بھی لیک ہوئیں۔ اتفاق سے وڈیو صرف تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے فروخت ہونے کی تھیں مگر ووٹ کے لیے نوٹوں کی گڈیوں کو بانٹنے والی شرم ناک وڈیوز نے حکومت و اپوزیشن دونوں کو یوں گندا کیا کہ جس طریقہ کار کا ہمیشہ ذکر کیا جاتا وہ سب کے سامنے آگیا، مطلب سب اسی طرح خریدتے رہے ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے ایک رکن اسمبلی محمد علی کی اسی طرح کروڑوں روپے کی آفر ٹھکرا دینے کی یادداشت بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی یہاں تک کہ انصار عباسی کی وڈیو جماعت اسلامی کے شفاف کردار کی حمایت کرتی ہوئی آئی اور وائرل ہوئی۔ اس میں غالب رُخ یہی پیش کیا گیا کہ یہ وڈیو اگلے سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کی خاطر لیک کی گئی ہے، بہرحال جمہوری نظام کو سرمایہ دارانہ نظام قرار اس لیے بھی دیا جاتا ہے کہ اس میں سرمایہ انسان کی روح تک کو گندا کر دیتا ہے اور سرمائے کی خاطر حلال، حرام، اصول، نظریہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتا۔

حصہ