آمنہ عثمانی اپنی بچپن کی یادوں میں محفوظ خوبصورت اور محبت سے گندھی معصومیت بھری ساعتوں میں سے اپنی پڑوسن رشیدہ باجی کی محبتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں” رشیدہ باجی کو گزرے آج ایک سال ہوگیا، لگتا ہے کہ وہ آج بھی میرے آس پاس ہیں۔رشیدہ باجی بہت ملن سار اور ہنس مکھ خاتون تھیں ہر کسی سے خوش ہوکر ملتی تھیں جب وہ ہمارے محلے میں آئیں تو ان کے بچے چھوٹے تھے میری عمر بھی ان کی بڑی بیٹی کے برابر تھی اسی لیے ہم دونوں میں جلد ہی دوستی ہوگئ۔ رشیدہ باجی ماشا اللہ کثیر الاولاد تھیں۔ وہ اپنے سب بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی تھیں پھر آہستہ آہستہ ہم سب عمر کی منزلیں طے کرتے چلے گئے اور اب شادی کی عمر کو پہنچ گئے۔رشیدہ باجی کے دو بیٹے اپنی تعلیم مکمل کرنے انگلینڈ چلے گئے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی شادیاں کردیں۔ میری تعلیم مکمل ہوتے ہی اماں نے بھی میری شادی کردی میں اماں ابا کی اکلوتی اولادتھی میری شادی کے کچھ عرصے بعد میرے والد فوت ہو گئے اور میری اماں اکیلی رہ گئیں والد کی وفات کے بعد میں اماں کے گھر شفٹ ہو گئی تاکہ انکی تنہائی ختم ہو سکے۔ رشیدہ باجی کے سب بچے اپنی زندگی میں مگن تھے ان کی بیٹیاں اپنے سسرالوں میں خوش اور مگن تھیں ۔انگلینڈ والے بیٹے وہیں کے ہو رہے پہلے تو ہرسال آتے تھے پھر آہستہ آہستہ انہوں نے آنا بند کردیا اور اب صرف فون پہ ہی رابطہ رہتا تھا اور جو بیٹے اسی ملک میں رہتے تھے وہ بھی کبھی کبھار ہی ملنے آتے تھے رشیدہ باجی ابھی بھی اپنے شوہر کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہی تھیں ان کے شوہر بہت بیمار رہتے تھے ان کے بچے پیسے بھیجتے لیکن خبر گیری کم ہی کرتے تھے , ایک دن اچانک رشیدہ باجی کے شوہر بھی اللہ کے گھر چلے گئے اور رشیدہ باجی اکیلی رہ گئیں۔ اب وہ بھی بہت بیمار رہنے لگی تھیں ویسے تو انھیں کوئی ایک بیماری نہیں تھی بہت سی بیماریوں کا مجموعہ بن چکی تھیں۔ ایک بیماری جو انھیں اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا رہی تھی وہ تھی اکیلے پن کی بیماری۔اور یہ ہی اکیلا پن انھیں گھلا رہا تھا ۔ رشیدہ باجی میری اماں کی خوش قسمتی پہ رشک کرتیں تھیں کہ میں ان کے ساتھ رہتی ہوں وہ کہتیں کہ تمہاری اماں کو تمہاری محبت کا لمس حاصل ہے یہ لمس انسان میں زندہ رہنے کی گرمی پیدا کرتا ہے۔ یہ لمس انسان میں نئی آرزو جگاتا ہے، ہر انسان کو اس لمس کی ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان ری چارج ہوتا ہے۔ جیسے بچہ اپنی ماں کی گرمی کو پہچانتا ہے اور اس کے پیار بھرے لمس کا منتظر رہتا ہے اسی طرح جب وہ بوڑھا ہوجاتا ہے اسے اپنے بچوں کے لمس کی ضرورت ہوتی ہے اور بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ اب بہت مضبوط ہوگئے ہیں انھیں کیا ضرورت جبکہ اسوقت انھیں پیسوں کی نہیں بلکہ اس پیار بھرے لمس کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ جادو کی جھپی کی صورت میں ہو یا پیار بھری باتوں کی صورت میں۔ رشیدہ باجی کہتیں کہ جب میرے بچے پیار سے میرا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اس پیار کی گرمی کی وجہ سے مجھ میں دوبارہ جینے کی امنگ پیدا ہوتی ہے اور جب بچے صرف پیسے وغیرہ دے کر چلے جاتے ہیں تو یہ امنگ ختم ہوجاتی ہے۔ میرے بچے بھی اب بڑے ہو رہے ہیں جب وہ میرے گلے لگتے ہیں تو مجھ میں بھی ایک توانائی سی آجاتی ہے اور رشیدہ باجی کی باتیں یاد آنے لگتی ہیں کہ واقعی انسان کو ایک ری چارج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک پیار بھرے لمس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاندان کسی بھی معاشرے کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہے۔ ایک خاندان جو مرد اور عورت کے درمیان رشتہ ازدواج سے وجود میں آتا ہے۔ صحت مند معاشروں کی ترقی اورنشوونما کا انحصار اس خاندان پر ہے اورمعاشرے کی تنزلی وانتشار کا انحصار بھی- اسی سےتمام معاشرے وجود میں آتے ہیں ۔جس خاندان کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہو گی اس معاشرے کی اقدار روایات مستحکم ہوں گی۔ خاندان کی اہمیت کا اندازہ ا س سے ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ جو اسلام کے عائلی نظام سے موسوم ہے اس مقصد کے لئے وجود میں لایا گیا ۔ قرآنی تعلیمات اور اسوہ رسولﷺنے خاندان کو انتشار سے بچانے کے لئے اور اسے مستحکم کرنے کے لئے باہمی حقوق وفرائض کا ایک سلسلہ قائم کررکھا ہے۔ جس پر عمل پیرا ہو کر انفرادیت پسندی ،عدم اعتماد، پریشانی اور منتشرالمز اجی جیسے معاشرتی امراض کا مقابلہ باآسانی کیا جا سکتا ہے ۔اسلام فرد اور جماعت کے تعلق میں جس توازن واعتدال کا علمبردار ہے اس کا تقاضا ہے کہ خاندان کی حیثیت ایک مرکز کے طور پر قائم رہے تاکہ اجتماعی تربیت کا ابتدائی مرکز وسیع تر اجتماعی شعور اور فلاح کے لیے موثر کام کرے۔ اس کے لیے مرد اور عورت دونوں کو اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح مرد کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے بالکل اسی طرح نسلوں کی آبیاری اور بچوں کی بہترین تربیت کے لیے ماں بچے کی پہلی سب سے منظم ٹھوس درس گاہ ہے۔ جس درس گاہ کا سبق بچہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک نہیں بھولتا۔ بہترین اسلامی ذمہ دار عورت بہترین نسلوں کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی وہ واحد تنظیم ہے جو منظم انداز میں کام کرتی ہے۔ ملک پر جب کبھی کوئی نازک وقت آیا جماعت اسلامی نے اس مملکت خداداد کا ساتھ دیا ہے۔حب الوطنی سے سرشار اس جماعت کا اس مہم میں واحد مقصد لوگوں کو اللہ سے جوڑنا اورن معاشرے کو بے راہ روی سے بچانا ہے۔ اسی مقصد کے لئے اسلامی شعائر سے مزین پاکستانی عورت اور مرد کو تیار کرنا اس جماعت کا مقصد ہے۔10 فروری تا 10 مارچ مستحکم خاندان مضبوط عورت کے عنوان سے جماعت اسلامی مہم چلائے گی۔ مسلمان خواتین کی دینی وعلمی تعلیم و تربیت وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ جس طر ح اولین دور میں بہترین معاشرے کی تشکیل اور تعمیر و ترقی میں نمایاں کردارادا کیا موجودہ دورمیں بھی اس کی اہمیت و ضرورت مسلمہ ہے۔ دنیاوی ودینی تعلیم سے آراستہ ہوکرہی اپنے گھر،معاشرے اورآئندہ آنے والی نسلوں کو سنوارا جاسکتا ہے۔دور حاضر میں خواتین کو وہ شعوروآگہی حاصل نہیں جو دور جدید کے تقاضوں کو پورا کر تے ہوئے انہیں دینی اقدار روایات کا پاسدار بناکروہ صحیح عملی رہنمائی فراہم کرے جو امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی نوید ثابت ہو۔ اس کمی کو دورکرنے کے لیے جماعت اسلامی پاکستان نے ملک بھر میں قرآن انسٹی ٹیوٹس کی بنیاد رکھی یہ ادارے خواتین کو قرآن، حدیث، تجوید اور فقہی علوم سے آراستہ کررہے ہیں۔ قرآن انسٹی ٹیوٹ کا مشن ہے کہ:” امت مسلمہ کی خواتین کوقرآن وسنت کی تعلیم دے کر ایسی باعمل مومنات کی تیاری جن کے گھر اسلام اور نشاۃِ ثانیہ کے لیے تربیت گاہ ہوں اور جو اللہ کے نظام کو قائم کر نے میں عملی طور پر شریک ہوں“۔اسی مشن کی تکمیل کے لیے قرآن انسٹی ٹیوٹ پاکستان بھر کے ۲۲ شہروں میں ۸۳ مقامات پر قرآن وسنت کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہے۔
اغراض و مقاصد
٭خواتین کوقرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانے اوردینی علوم کی ترویج کے لیے مختلف کورسز کااجرا۔
٭قرآن وسنت کی روشنی میں مقصدِحیات کا تعین،عورت کو اس مقام و مرتبہ کی آگاہی اور اسلامی اوصاف سے مزین زندگی کا شعور دینا۔
٭نئے دور کی چیلنجز کے لئے مثبت فکری رہنمائی دینا۔
٭خواتین کو تصور اقامت دین کا شعور دیتے ہوئے عملی جدوجہد پر آمادہ کرناجماعت اسلامی کی اس مہم میں بھی قرآن انسٹی ٹیوٹ پاکستان جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ اپنے پروگرامات، سیمینار، مذاکرے اور آن لائن لیکچر ترتیب دے رہا ہے۔ اسی مقصد کے تحت جماعت اسلامی کراچی کا آن لائن لیکچر بعنوان “مستحکم خاندان مستحکم معاشرہ” ہوا جس میں ڈائریکٹر قرآن انسٹی ٹیوٹ کراچی نے اس میں آن لائن شرکاء سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ انسان زمین پر اللہ کانائب اور خلیفہ ہے۔ اللہ تعالی نےانسانوں میں سب سے پہلا رشتہ ہی میاں بیوی کا بنایا ہے۔ اگر آج کی ماں اپنے بچوں کی تربیت زمین پر اللہ کے نائب و خلیفہ کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے کرےتو یہ معاشرہ پھر سے اسلام کی بہاروں سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ انسان فطری طور پر مل جل کر رہنے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ نکاح کا پہلا نکتہ ہی اللہ کا تقوی اختیار کرنا اور اسی کے تناظر میں سچی اور صاف بات کرنا ہے ۔بہترین اسلامی معاشرے کی اساس بہترین اسلامی خاندان ہے۔ اسی لیے شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں بیوی کے تعلقات ختم کرنے سے ملتی ہے۔ ایسی عورت جو شوہر بچوں کے مال کی امین ہے پنج وقتہ نمازی اور رمضان کے روزے رکھتی ہے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں اپنی مرضی کے دروازے سے داخل ہونے کی خوش خبری دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مادیت پرستی کے اس دورمیں بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین انہیں حقیقی فلاح و کامیابی سے روشناس کروائیں۔ رشتوں میں باہم محبت و مودت پیدا کرنے کے لیے بیٹیوں کو بھائیوں کا احترام اور بیٹوں کو بہنوں سے شفقت و رحمت سے رہنے کا گر سکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ماوں کو اپنے بیٹوں کی تربیت ایسی کرنی چاہیے کہ وہ خاندان و معاشرے میں قوام کامنصب بہ خوبی نباہ سکیں۔ اور اس کے لیے ماوں کو اپنے بچوں کی شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دجالی دور کے فتنوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے خاندان کے حصار کواسلامی شعائر سے مضبوط کریں تاکہ دور حاضر کی فتنہ پرادزیوں سے ہماری نسل محفوظ رہ سکے اور اسلام کی درست خدمت سرانجام دے سکے۔ ایک اور پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے جماعت اسلامی ویمن ونگ پاکستان کی سیکرٹری جنرل دردانہ صدیقی نے کہا ہے کہ مضبوط خاندان میں عورت محفوظ ہونے سے مستحکم معاشرہ تشکیل پاتا ہے، اس وقت خاندان، عورت اور مسلمان امت بحیثیت مجموعی ایک بڑی تبدیلی کی زد میں ہے،خصوصاً خاندانی نظام بری طرح سے شکست و ریخت کا شکار ہو رہا ہے۔دردانہ صدیقی نے اپنے خطاب میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سال2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں کراچی میں طلاق و خلع کے 14943کیسز رجسٹرڈ ہوئی. ایک ڈیٹا رپورٹ کے مطابق ، کراچی کے ہر ضلع میں روزانہ طلاق و خلع کے چالیس کیسز رجسٹرڈ ہو رہے ہیں اس سے ملتی جلتی صورتحال پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی ہے جو کہ پریشان کن ہے۔اسی لئےجماعت اسلامی پاکستان اس سال خاندان کے استحکام پر خصوصی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔اس مہم کے تحت پاکستان کے تمام اضلاع میں سیمینار،کانفرنسز اور مشاورتی فورمز ودیگر سرگرمیاں رکھی جائیں گے جن میں اسلام کے نظام عفت و عصمت اورخاندانی نظام کو واضح کیا جائے گا۔عائشہ سید صدر پبلک ریلیشن جماعت اسلامی ویمن ونگ وسابق رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی یعنی خاندان کا بنایا۔ میاں بیوی کا رشتہ اللہ کے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جتنا ان کے درمیان محبت اور اللہ کا خوف ہوگا نسلیں اتنا ہی درست ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسان کو دو خاندان دیے ہیں۔ایک وہ جہاں وہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرا وہ جہاں اس کا نکاح ہوتا ہے۔ یورپ میں خاتون خاندان سے آزاد اور تنہا ہے جبکہ اسلام میں خاتون رشتوں میں بندھی ہوئی ہے،وہ جہاں جاتی ہے اسے محرم کی چھتری حاصل ہوتی ہے۔اسی سلسلے میں لاہور میں فلاح خاندان سینٹر کے زیراہتمام استحکام خاندان میں“مرد کاکردار”کے حوالے خصوصی سیمینار، ڈاکٹر حافظ زبیر اسسٹنٹ پروفیسر کومسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے فلاح خاندان سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ خاندان کے استحکام میں مرد اپنا عملی کردار ادا کرے۔مرد کو اسی لیے قوام بنایا گیا ہے۔وہ صرف خاندان کا سربراہ ہی نہیں بلکہ اس کا محافظ،منتظم اور کفیل بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج مغرب میں عورت کو گھر واپس لانے کے لیے مختلف سہولیات دی جارہی ہیں۔اللہ تعالی مستحکم معاشرہ میں جماعت اسلامی کی تمام سعی و جدوجہد کو بارآوری عطا فرمائے۔ آمین