’’یار انجینئر صاحب!یہ معاشرہ، یہ قوم، یہ لوگ، یہ ہجوم!ہم اسی کا حصہ ہیں … اور مزے کی بات…‘‘وکیل بھائی نے بات میں تجسس پیدا کرنے کو ذرا وقفہ دے کر میرے قریب ہوئے اور پھر بولے’’ ہم سارے ’’دوغلے‘‘ ہیں۔‘‘
’’مطلب وکیل بھائی … سادہ زبان میں منافق!جو کہتے کچھ …اور کرتے کچھ ہیں !‘‘
’’ارے نہیں … انجینئر صاحب! کہتے ’’کچھ‘‘ ہیں … کرتے ’’کچھ‘‘ سے یکسر مختلف ہیں۔‘‘وکیل بھائی نے میری بات کو اپنے طور درست فرمایا۔
وکیل صاحب ہمارے پڑوسی ہیں … اور گلی کی نکڑ پر کریانے کی دوکان کرتے ہیں۔ اللہ نے انہیں دین کے فہم اور عقل سمجھ سے نوازا ہے، معاشرے کی اصلاح پر بہت عمدہ تجاویز کہتے ہیں اور اصلاحی پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔
اکثر و بیشتر ہم گلی کی نکڑ پر آکر وکیل بھائی کی دوکان میں ہی محفل کا مزہ لیا کرتے ہیں۔آج بھی ہم وقت گزاری کیلئے کچھ گپ شپ کرنے ان کے فریزر پر بیٹھے تھے۔ ہم چونکہ ملازمت ایک انجینئرنگ فرم میں کرتے ہیں تو وکیل بھائی ہمیں ازراہِ تفنن انجینئر صاحب کہا کرتے ہیں۔
’’لیکن وکیل بھائی …! ہم اگر اقبال ؒ کا نظریہ دیکھیں تو ان کا تو کہنا تھا کہ: دورنگی چھوڑ دے، یک رنگ ہوگا۔‘‘
’’دیکھا … غلط بات۔‘‘ وکیل بھائی نے بات ٹوکی۔’’انجینئر صاحب ایک تو حوالہ غلط اوپر سے اکیلا مصرع۔ بری بات۔پہلی بات … یہ شعر سراج اورنگ آبادی صاحب کا ہے۔ دوسرا اس موضوع پر بالکل بھی مناسب نہیں۔ شعر ہے:۔
دو رنگی خوب نہیں، یک رنگ ہو جا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا
انجینئر صاحب البتہ یوں ہے کہ اس قوم کو سیدھا کرنے میں ہر اِک فرد کو کام کرنا ہوگا۔ اپنی ذمے داری نبھانا ہوگا۔حضور ہر فرد کو انفرادی کام کرنا ہے مگر اجتماعی، قومی، ملی و ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے۔
فردِ قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، بیرونِ دریا کچھ نہیں‘‘
’’مطلب … ربط ملت بنانا ہے، دھارا بنانا ہے۔ قطرہ قطرہ قلزم ہونا ہے ہمیں۔‘‘وکیل بھائی کی بات کاٹتے ہوئے میں نے وضاحت کی۔ ’’کیا بات ہے انجینئر صاحب!‘‘
’’مطلب کیا جوشِ خطابت ہے اور اس مرتبہ شعر ہی کیا مناسبت اور درست حوالے سے مارا ہے۔‘‘وکیل بھائی نے ستائش سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’انجینئر صاحب ہمیں ہی اک دوسرے کی درستی واصلاح کرنی ہے، ہمیں ذاتی مفاد بھلاکر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینی ہوگی، ہمیں چھوٹے فائدے چھوڑ کر بڑے نقصان سے بچنا ہے، لیکن ہمیں نسلِ تو کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر زور دینا ہے۔‘‘ وکیل بھائی کاؤنٹر پر سامان ٹھیک کرتے ہوئے بولے۔
’’لیکن وکیل بھائی! تربیت تو عملی مثال بن کر ترغیب و توجہ دلاکر سکھانے اور عادات و خصائل کو ڈھالنے کا نام ہے۔ ہمیں نسل ِ نو کی تعمیر کے لیے چوری، دھوکا، فراڈ، گراں فروشی چھوڑنا ہوگی، ہمیں اپنے کردار کو عملی نمونہ بنانا ہوگا جو نسلِ نو کی تربیت کے لیے بہترین ماحول پیدا کرسکے۔ اِک اور چیز بھی ہے جسے چھوڑنا سب سے اہم ہے، ہمیں اپنا آپ اپنے بچوں کو دھوکا، گراں فروشی، جھوٹ اس سب سے پاک دکھانا نہیں ہے بلکہ ایسا کردار بنانا ہے… ہمیں منافقت چھوڑنی ہوگی۔‘‘
’’انکل !ایک سگریٹ دے دیں۔‘‘ایک بارہ سال کے بچے کی آواز نے وکیل بھائی کی بات اور میری محویت دونوں کو ٹوک دیا۔
’’کون سی …؟‘‘
’’جو ہے دے دیں …!‘‘
’’ارے بیٹا ! ہمارے پاس تو بہت سی برانڈ کی سگریٹ ہیں۔ تم کون سا لینے آئے ہو؟‘‘وکیل بھائی نے بچے کو سمجھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے بیٹا کس نے منگوائی ہے؟‘‘میں نے دخل درِ معقولات کرتے ہوئے بچے سے پوچھا۔
’’انکل کوئی سی بھی دے دیں۔‘‘بچے نے میری بات کو توجہ دینا تو دور میری موجودگی کو بھی یکسر نظر انداز کرتے ہوئے وکیل بھائی سے کہا۔
’’پانچ روپے۔‘‘ وکیل بھائی نے ایک سگریٹ بچے کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
بچے نے سگریٹ پکڑ کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک طرف پڑی ماچس بڑی بے نیازی سے اُٹھائی، سگریٹ کو منہ میں دباکر ماچس جلاکر سگریٹ سلگائی۔ جلدی جلدی دوکش لگاکر سگریٹ کے گل پر دھواں پھینکتے ہوئے پکے اسموکر کی طرح اس کے دہکتے ہوئے حصے کو مزید سلگایا۔
میں اس سارے منظر کو حیرت و استعجاب سے دیکھ رہا تھا ۔ اور وہ بچہ سگریٹ منہ میں دابے کش لگاتا دوکان سے باہر نکل گیا۔
’’ارے انجینئر صاحب کہاں گھوگئے …؟‘‘ وکیل بھائی کی آواز نے مجھے چونکا یا۔
’’وکیل بھائی! یہ بچہ … وہ … آپ نے … سگریٹ۔‘‘مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ میں لفظوں کا کیا ربط بناؤں؟
’’ارے کیا ہوگیا …؟وکیل بھائی اپنے تئیں حیریت سے بولے۔‘‘
’’وکیل بھائی ! آپ نے بچے کو سگریٹ …؟ بلکہ آپ نے روکا بھی نہیں؟‘‘
’’انجینئر صاحب !دکان داری ہے … اس کو چھوڑیں۔‘‘وہ شاید کچھ اور بھی کہہ رہے تھے لیکن … میں فریزر پر بیٹھا کچھ نہیں سن رہا تھا۔