آنسو ایسا لفظ ہے جسے سنتے یا لکھتے انسان کانپ جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوںکہ لکھتے ہوئے یہ لفظ بھیگ جاتا ہے تو بھی غلط نہ ہوگا۔ انسانی فطرت میں خوشی اور غم کا وجود ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا لہٰذا کسی بھی حال میں انسان ان سے باہر نہیں نکل سکتا۔
کہا جاتا ہے کہ خوشی کی نسبت غم اور پریشانی کا وجود خوشی سے دگنا ہوتا ہے لیکن میں رب تعالیٰ کے نظام پر حیران ہوں کہ آنسوؤں کو کسی ایک حالت کے تحت پابند نہیں کیا بلکہ دونوں حالت میں‘ چاہے خوشی ہو یا غم‘ ان کا وجود برابر اہمیت اور پہچان رکھتا ہے۔ دکھ‘ درد اور پریشانی میں آنسوؤں کا نکلنا معمول ہے لیکن خوشی اور فرطِ جذبات میں بھی انسان ان کے ضبط میں بے اختیار ہو جاتا ہے۔ جس کی بدولت انسان اپنے احساس اور جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ بقول شاعر
میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو تھا تو ٹپکا کیوں
بچے کی پیدائش پر اس کے آنسوؤں کا تحفہ ایک ماں کے لیے پُر مسرت موقع ہے۔ جس کا استقبال بھی بعض دفعہ ماں انہی آنسوؤں سے کر رہی ہوتی ہے یعنی ایک طرف جہاں بچہ دنیا میں اپنے وجود پر رو رہا ہوتا ہے۔ تو بالکل اسی لمحے اس کی ماں ایک زندہ بچے کی ماں بننے پر خوشی سے رو رہی ہوتی ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ بچے کا آنسو نکلنا اس بات کا استعارہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان نے آنسو بہانے ہیں۔
آنسوؤں کا نکالنا ہر آنکھ کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ان کے وجود کی گہرائی ہر آنکھ سمجھ سکتی ہے۔ یہ تو بس ایک فطری جذبات یا احساس ہیں۔ جو پہلے ایک آنکھ کو نم کرتے ہیں اور پھر بعد میں نہ صرف وہ دوسری آنکھ بلکہ عقل سلیم کوبھی اس پہلی آنکھ میں موجود درد کی گہرائی کو محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ آنسوؤں کی قدر ہمیشہ اسے ہوتی ہے جس نے آنسوؤں بہائے ہوں۔ میں سائنسی نقطہ نظر سے آنسوؤں کے نکلنے کے پراسیس کو بیان نہیں کر سکتا کہ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کیسے نکلتے یا جذب ہوتے ہیں۔لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ جب انسان اچھے سے رولیتا ہے تو اس کا من ہلکا ضرور ہو جاتا ہے۔ وہ خود کو پہلے کی نسبت ریلیکس محسوس کرتا ہے۔ اس کا درد اور غم پریشانی مصیبت ختم تو نہیں ہوتے۔ لیکن آنسو بہانے کے بعد اس پر پریشانی کا دباؤ کافی حد تک ختم ہو جاتا ہے۔ آنسوؤں کے اسباب میں بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ان میں نمایاں مقام محبت کا ہے۔ چاہے وہ انسان سے ہو یا متاع زندگی کیساز و سامان سے انسان کو آنسوؤں پر مجبور کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت کو انسان کے آنسو بہت پسند ہیں۔ کیونکہ وہ چاہتا ہی یہی ہے کہ آنسو میری محبت یا میری رضا کی خاطر نکالے جائیں۔
زندگی میں ہر چیز کا کوئی نہ کوئی معیار اور قیمت ہوتی ہے۔ آنسوؤں ایسے نایاب ہوتے ہیں۔ کہ ان کے لیے نہ تو معیار کا مقام مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی ان کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا حقیقی مقام تو یہ ہے کہ یہ اللہ کی محبت اور چاہت میں بہائے جائیں۔ اور ان کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو قطرے ہیں جو جہنم کی آگ کو بجھا دیتے ہیں ایک شہید کے خون کا قطرہ دوسرا آنسوؤں کا وہ قطرہ جو اللہ کی محبت اور اس کے خوف میں بہایا جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آخرت کے دن یوم حساب میں روتی آنکھ کے لیے عرش کے نیچے سائے میں جگہ دینے کا بھی وعدہ فرمایا۔
کہا جاتا ہے کہ بزرگ اور بڑے بڑے اولیا گوشہ نشینی کرتے تھے اور وہاں جا کے تنہائی میں روتے تھے تاکہ دنیا کے مصائب و آلام کو ختم کر سکیں اور پھر بعد میں ان آنسوؤں کی وجہ سے نئی خوشیوں اور ہنسنے کی جگہ بن سکے۔ فطرت انسانی بھی عجیب مزاج کی حامل ہے۔ اگر سمجھنے پر آئے تو چہرے کے تیور سمجھ لیتی ہے اور اگر نظر انداز کر نے پہ آئے تو آنسوؤں تک دکھائی نہیں دیتے۔ بقول شاعر
کسی کے ایک آنسو سے ہزاروں دل تڑپتے ہیں
کسی کا عمر بھر رونا یونہی بیکار جاتا ہے
کسی بھی انسان کی بے بسی بے کسی کے اظہار کے لیے الفاظ کی نہیں بلکہ آنسوؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آنسوؤں محبت کے اظہار کی آخری نشانی ہیں۔ بجا صحیح عورتیں آنسوؤں بہانے میں بہت مشہور ہوتی ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کی بے بسی اور بے کسی کی یہ آخری حد ہوتے ہے۔ آج کل ہم اپنی زندگی میں لوگوں کے دو گروہ دیکھتے ہیں ایک رونے والے اور دوسرا رلانے والے۔
میرے خیال میں دنیا کے بدبخت لوگ ہیں وہ جو کسی کے آنسو کی وجہ ہوتے ہیں کیوں کہ یہ حقوق العباد ہے اور اس کے بارے میں ضرور اللہ تبارک و تعالیٰ سوال کریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آنسوؤں سے مزین دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ البتہ ان کی قبولیت کے اوقات آگے پیچھے ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انسان کو امید کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔
ایسے میں کم از کم انسان ہونے کا تو خیال کریں۔ کسی کو اگر خوشیاں نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں لیکن کم از کم اتنا تو ضرور سوچیں کہ وہ انسان ہے۔ اس کے آنسوؤں کی وجہ آپ نہ بنیں۔ ایسے وقت میں انسان کی وہ حالت ہوتی ہے جس میں اسے موت زندگی سے آسان لگ رہی ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے زندگی اس پر بوجھ ہو۔ جبکہ زندگی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے تو خدارا لوگوں سے جیتے جی یہ نعمت نہ چھینیں۔
یاد رکھیں جس نے آپ کی وجہ سے آنسو بہائے حالات میں ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب آپ ان آنسوؤں کے بدلے میں نہ صرف آنسو بہائیں گے بلکہ اس شخص کو کھونے کے ساتھ اپنے کیے گئے عمل کا ردعمل دیکھ کر خود اس وقت کو یاد کریں گے جس وقت آپ نے کسی کو رلایا تھا اور اپنے اس عمل پر ضرور پچھتائیں گے کہ کاش اس وقت میں اگر یہ نہ کرتا تو آج میری بھی یہ حالت نہ ہوتی۔ یہ بات بھی عموماً ان لوگوں کو سمجھ آتی ہے جن کی حالات معاملات اور اپنے ماضی کے نشیب و فراز کے اوپر مکمل گرفت ہوتی ہے۔ آنسو ہمیشہ آنسو ہی رہتے ہیں چاہے وہ ماں باپ کے ہوں یا بہن بھائیوں کے بیوی بچوں کے ہوں یا دوست احباب کے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا کہ کسی شخصیت کے بدلنے سے آنسوؤں کی قیمت یا اس کے معیارات میں اونچ نیچ آجائے۔ ہاں البتہ ان میں شدت اور کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ یعنی کہ کوئی شخص معمولی سی بات پر بہت زیادہ آبدیدہ ہو جائے گا جبکہ کسی شخص کا صبر کا پیمانہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مسائل کا سامنا کرنے پر بھی اس کے آنسو نہیں نکلتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو آپ جب تک رلائیں نا آپ کو سکون نہ آئے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب بھی کوئی شخص اس حال تک جائے کہ اس کے آنسو وہاں سے نکلنا شروع ہوں تو آپ خود کو سدھار لیں بقول شاعر
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لا دوا
ایسا نہ ہو تو اس کا مداوا نہ کر سکو
لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا، میں رب سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔