گھڑی کی سوئیاں آگے نہیں بڑھ رہی تھیں، لگتا تھا سیل ختم ہوگئے ہیں۔ لیکن وہ توسیل والی گھڑی نہیں تھی، بلکہ ایک قدیم نمونہ اور ٹیکنالوجی کا شاہکار تھی۔ اُس کا جھکا سر اس گھڑی کے تجزیے میں پچھلے کئی منٹ سے مصروف اور گرد و پیش سے بے نیاز سا تھا۔
وہ گھڑی ساز بھی تھا اور سُر ساز بھی۔ سُر کی دنیا اس کے عقائد سے اختلاف رکھتی تھی، سو وہ باوجود سریلی بانسری جاننے کے، ہاتھ اس سے جدا ہی رکھتا۔ ہاں پھر وہ گھڑی تھام لیتا جو وقت کے ساز بناتی تھی… مدھر بھی اور طربیہ بھی۔
وہ ہابیل تھا، نام کا اثر تھا یا روح ہی بھلی تھی کہ وہ قابیل نہ بن سکا… نہ اپنے حق میں ظالم، نہ دوسرے کے لیے کینہ پرور۔
زندگی نے کئی ایسے در کھولے جن سے فائدہ اٹھانا چاہتا تو گھڑی ساز کے بجائے کرشمہ ساز بن کر ابھرتا اور دنیا اسے سلام کرتی، لیکن ہابیل نے ایسا کوئی نفع نہ لیا جس کی تہہ میں اس کا اور اس کے خاندان کا حق نہ ہو۔
پرانی گھڑیوں کا تھیلا کوئی ڈال گیا، اس میں ایک گھڑی کے ڈائل پر سونے کے ہندسے تھے۔ وہ گھڑی برسوں رکھی رہی، ہابیل مالک کا انتظار ہی کرتا رہا۔
نفس سے مغلوب چاہ نے بانسری تھامی۔ سننے والے دم بخود تھے۔ سحر ٹوٹا تو فن شناس جلد ہی کسی غنی کو لایا تاکہ وہ مول لگائے، مدھ بھرا جادو جادوگر سے خریدے، لیکن ہابیل کی رضا نہ مل سکی، یوں کالج کے طالب علم بیٹے کو دو پہیوں کی سواری نہ مل سکی۔
موبائل چھن گیا تو کام رکنے لگے۔ کسی نے اُڑی سی رنگت اور تکلیف دیتے پرانے سیٹ کو استعمال کرتے دیکھ کر سرگوشی کی ’’میں جانتا ہوں جو چوری کے موبائل بیچتا ہے، پونی قیمت میں‘‘۔ ہابیل کی نگاہ نے اپنے نقصان کے منظر کو دیکھا، اپنے گلک پر نظر ڈالی اور سر کو نفی میں ہلادیا۔ مہینے بھر نیم خراب فون نے دماغ جھنجھنایا، کئی بار پونی قیمت یاد آئی، لیکن ایک ماہ بعد اس کے مخصوص پیٹرول پمپ کے لکی ڈرا سے اُس کے شناختی کارڈ نمبر پر جدید موبائل نکل آیا۔
ہابیل نے نیلے آسمان کو دیکھتے ہوئے رب کو دل میں بہت قریب محسوس کیا۔ آج صبح ہی مالک مکان کرایہ بڑھا چکا تھا، دل پر بوجھ تھا، لیکن رب جیسے ہابیل کے پاس تھا۔
’’تنگی، آسانی، تنگی، آسانی… بندے یہی ہے زندگانی‘‘
گو ہابیل کہنا چاہتا تھا: رب! کسی کی آسانی کی مقدار زیادہ لگتی ہے، تنگی کی کم… لیکن وہ کہہ نہ سکا کہ کہیں رب دل سے نکل نہ جانے۔ پَر رب جانتا ہے بندہ کیا سوچتا ہے، اور وہی ناز بھی اٹھاتا ہے۔
پھر یوں ہوا کہ پورے تین کروڑ کا انعام اس پندرہ ہزار کے پرائز بانڈ پر نکل آیا جو بزرگ پڑوسی نے ہابیل کو تین ماہ قبل دیا تھا کہ قرعہ اندازی پر نمبر چیک کرنا ان کے بس کا نہیں۔ پردیسی بیٹا بانڈ باپ کے پاس چھوڑ گیا تھا کہ بوقتِ ضرورت کیش کروا لیں۔ اور اب اسی بانڈ پر تین کروڑ کا انعام نکلا تھا۔ ہابیل نے گہری خاموشی کے بعد گہری سانس لی اور رب سے دل میں خوب خوب شکوہ کیا:
’’کیا ہوتا اگر ایسا کچھ کرشمہ میرے ساتھ بھی ہوجاتا، میں بھی آسانی پا لیتا میرے رب۔‘‘
اس نے گزشتہ رات لاڈلی بیٹی کی بات کو یاد کیا جو باپ کے سر میں تیل کا مساج کرتے ہوئے کہہ رہی تھی: ’’بابا آپ تو اپنی شادی کے فوٹو میں ہیرو لگ رہے ہیں، امی! ذرا میرے بابا کا خیال رکھا کریں، کتنا بدل گئے ہیں۔‘‘
اس بات پر وہ ہنس پڑا، اس کی بیوی نے محبت سے بیٹی کو گھورتے ایک ہاتھ بھی ٹکا دیا۔سخت محنت اور ذمہ داریوں نے واقعی اس کو بہت تبدیل کردیا تھا، رنگ روپ جو کبھی نظر کھینچتا تھا وہ چوالیس برس میں بھس بنا لگتا تھا۔ اور اب یہ تین کروڑ! ہابیل کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ چاروں بچے جان گئے تھے کہ باپ کو دفینہ ملا ہے، لیکن زمین ان کی نہیں، سو دفینہ بھی ان کے ہاتھوں میں نہ آئے گا۔ بیوی بالکل چپ تھی، نہ بدی پر ابھارا، نہ اس نیکی پر ہمت دی۔
آزمائش تھی اور وہ انسان تھا، لڑکھڑا رہا تھا۔ تین دن ہوچکے تھے، رقم کے مالک کو اطلاع بھی نہیں تھی کہ ہزاروں کی رقم کروڑوں میں بدل چکی ہے۔
دکان پر گھڑیوں کے درمیان بیٹھا وہ سوچ میں غرق مجسمہ لگ رہا تھا۔ یکایک موبائل بجا۔ فون سن کر پھر وہ مجسمہ بن گیا۔ گھر سے اس کی بیوی کا فون تھا، کہہ رہی تھی ’’آتے ہوئے مٹھائی لیتے آنا، زیادہ لانا، پڑوس میں بھی دوںگی۔‘‘
شام کو گھر پہنچا تو سب غیر معمولی طور پر خوش تھے، اشتہا انگیز بریانی سے گھر مہک رہا تھا، بیوی اس کی پسند کے لباس میں تھی۔ وہ حیران تھا، انتظار میں تھا کہ کیا خاص موقع ہے جو اسے یاد نہیں!
’’آج پتا ہے کیا ہوا؟ ہمارے بچے کو اللہ نے نئی زندگی دی۔‘‘ کھانے سے قبل بیوی بولی تو ہابیل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
بیوی اس کو بتاتی گئی اور اس کا دل اور آنکھیں رب کی عطا پر نرم اور راضی ہوتی گئیں۔
’’کیا ہوتا اگر ہمارا بیٹا اس رواں سڑک پر…‘‘ وہ کہتے کہتے آبدیدہ ہوگئی۔ ’’سڑک پار کرتے ہوئے اس کا پاؤں پھسلا، قریب تھا کہ سواری کچل دیتی، وہ لڑھکتا چلا گیا…‘‘ کیسے، کس طرح؟ عقل ششدر تھی، لیکن دل تھا کہ اسرارِ حیات پر پُرسکون تھا۔ تین کروڑ میں جان کا فدیہ لپٹ چکا تھا۔ ہابیل کا سر نگوں تھا، روشنی کی کرنیں اسے پھیلتی لگ رہی تھیں۔