حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ اقدس میں ایک چارپائی تھی، اس پر سیاہ رنگ کی ایک چادر بچھی تھی۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے کہ ان کے پاس رحمتِ عالمؐ کے تبرکات میں سے ایک چارپائی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ، ایک تکیہ جو کھجور کے پتّوں سے بھرا ہوا تھا، ایک چادر اور کجاوہ تھا۔ جب قریش کے کچھ لوگ حضرت عمرؓ سے ملنے آتے تو آپؓ اُن چیزوں کی طرف اشارہ کرکے فرماتے: ’’یہ اس عظیم المرتبت ہستی کی میراث ہے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے قریش کو مکرم و محترم کیا ہے، اور جس کے صدقے تمہیں ان عزتوں سے نوازا ہے۔‘‘
اس گھریلو میراث میں درج ذیل سامان تھا:
-1 ایک چارپائی، جو کھردرے پٹھے سے بنی ہوئی تھی۔
-2 چمڑے کا تکیہ، جو کھجور کے پتّوں سے بھرا ہوا تھا۔
-3 ایک بڑا پیالہ، جس کے چار کنڈے تھے۔ ایک لکڑی کا پیالہ جس پر لوہے کا پترا چڑھایا گیا تھا۔
-4 ایک گلاس
-5 چکی
-6 ترکش، جس میں تیر تھے۔
-7 اون کا ایک کپڑا، اس کپڑے میں آپؐ کے سرِ مبارک کے پسینے کے نشانات تھے۔ ایک آدمی بیمار ہوگیا۔ اُس نے خلیفہ سے درخواست کی کہ اس پسینہ کو دھوکر مریض کے لیے دے دیں تاکہ اس کی ناک میں ٹپکایا جائے۔ یہ درخواست حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے قبول کرلی۔ اس دھوون کو مریض کی ناک میں ٹپکایا گیا اور وہ شفایاب ہوگیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی کو حضرت عبداللہ بن اسحاق الاشجانی نے چار ہزار درہم قیمت ادا کرکے خریدا تھا۔
-8 حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی، جو رات کو لپیٹ دی جاتی تھی۔ اس چٹائی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرتے۔ دن کے وقت آپؐ کے لیے بچھا دی جاتی جس پر آپؐ آرام فرماتے تھے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ وہ کجاوہ جس پر آپؐ نے حج ادا کیا، پرانا تھا، اور ایسی لکڑی کا بنا ہوا تھا جس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی۔ آپؐ جب اس پر سوار ہوئے تو اللہ کے حضور دُعا فرمائی: ’’اے اللہ اس حج کو ایسا حج بنا جس میں کوئی ریا، کوئی شہوت کی طلب نہ ہو، محض تیری رضا کے لیے ہو۔‘‘
ایک روز حضرت عمر فاروقؓ نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ سب سے نرم اور ملائم بستر کون سا تھا جو آپ نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچھایا؟ انہوں نے عرض کیا: ’’ہمارے پاس ایک چادر تھی جو ہمیں خیبر کے مالِِ غنیمت میں ملی تھی، میں ہر شب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر وہ چادر بچھا دیتی تھی اور اس پر آپؐ آرام فرماتے تھے۔ ایک رات میں نے اس چادر کو دہرا کرکے بچھا دیا، جب صبح ہوئی تو سرکار دوعالمؐ نے مجھ سے پوچھا: ’’آج میری چارپائی پر کیسا بستر تم نے بچھایا۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ وہی بسترجو روزانہ آپؐ کے لیے بچھاتی ہوں، آج صرف اس کو دہرا کرکے بچھایا تھا۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس طرح پہلے بچھاتی تھیں اسی طرح بچھایا کرو، یہ دہری چادر میری شب بیداری میں مخل ہوئی ہے۔‘‘
حضرت عمر فاروقؓ یہ سن کر بے اختیار رو پڑے۔