ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
نظارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا، مدام چلنا
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں نہیں ہے
رہتے ہیں ستم کش سفر سب
نارے، انساں، شجر حجر سب
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا؟
منزل کبھی آئے گی نظر کیا؟
کہنے لگا چاند، ہم نشینو!
اے مزرعۂ شب کے خوشہ چینو!
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے جہاں کی
ہے دوڑتا اشہب زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں