میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اسلام اور تاریخ کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں۔ برادرم جمیل الدین عالی کا کہنا ہے کہ اتنا کچھ کہنے کے باوجود بات کچھ تشنہ رہ گئی اور یہ پتا نہیں چلا کہ مسلمان کی موجودہ حالت ایسی کیوں ہے اور اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے‘ لیکن دراصل یہ میرا موضوع نہ تھا۔ اس میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تاریخ کے بارے میں صحیح روّیہ کیا ہے۔ بہرحال پہلے نہ سہی‘ آیئے اب اس سوال پر غور کرتے ہیں۔
لیکن قبل اس کے کہ میں عالی صاحب کے سوال پر غور کروں‘ یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور اس کی تاریخ کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ایک بار پھر وضاحت سے بیان کر دوں۔ اتنی بات تو میں گزشتہ صفحات میں بھی کہہ چکا ہوں کہ تاریخ مسلمانوں کے اعمال اور خیالات کا مجموعہ ہے جو ضروری نہیں کہ بعینہ اسلام کے مطابق ہو۔ مسلمانوں کے بہت سے اعمال اور بہت سے خیالات غیر اسلامی رہے ہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے درمیان ایک خطِ فاصل کھینچا جائے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے کاٹ کر رکھ دیا جائے کیوں کہ اس طرح اسلام کا تصور ہی منقطع ہو جائے گا اور ہم خلا میں معلق ہو کر رہ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کے سفر میں حقیقی اسلام کے سفر کو بھی متعین کرنا پڑے گا اور چودہ سو سال کی تاریخ میں اس سلسلۂ جاریہ کو دیکھنا پڑے گا جسے ہم حقیقی اسلام سمجھتے ہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ حقیقی اسلام کی تلاش ان لوگوں کو بھی رہی ہے جن پر میں نے پچھلے صفحات پر تنقید کی تھی۔ اُن میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو حقیقی اسلام کی تلاش تاریخ میں اس کے تسلسل کو دیکھے بغیر کرتے ہیں۔ ہمیں حقیقی اسلام کو بھی دیکھنا ہے اور تسلسل کو بھی۔ دوسرے لفظوں میں میرے نزدیک اسلام مسلمانوں کی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہا ہے اور اپنے تسلسل کو ایک لمحے کے لیے بھی منقطع کیے بغیر ہم تک پہنچا ہے۔ اس بات کی وضاحت میں نے اس لیے کی ہے تاکہ جب میں اسلام کہوں تو اس کی ٹھوس تاریخی شکل ہمارے سامنے موجود رہے اور اسے ان لوگوں کے اسلام سے خلط ملط نہ کیا جائے جو اس کے تاریخی تسلسل سے انکار کرتے ہیں اور حقیقی اسلام کے نام پر ایک ایسا اسلام پیش کرتے ہیں جو ان کے ذہنوں کے سوا اور کہیں وجود نہیں رکھتا۔
آیئے! اس وضاحت کے بعد اب جمیل الدین عالی صاحب کے سوال پر غور کریں۔
مسلمانوں کی موجودہ حالت کا سوال جب کبھی اٹھایا جاتا ہے اس کے جواب میں مسلمانِ اہلِ فکر ہمیشہ ایک بات کہتے ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ بعض خیالات میں صحیح اور غلط‘ حق اور باطل اتنا قریب ہوتا ہے کہ بڑے بڑے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات سے کیا مراد ہے۔ اگر اس سے مراد مسلمانوں کی روحانی اور واخلاقی پستی ہے تو یہ جواب درست ہے‘ لیکن ’’موجودہ حالت‘‘ کے الفاظ عام طور پر مادّی حالات کے معنوں میں استعمال کیے جاتے ہیں اور اس سے مراد ہوتی ہے مسلمانوں کی سیاسی اور معاشی پسماندگی۔ افلاس‘ بدحالی‘ باالفاظ دیگر دنیاوی پستی‘ چناں چہ اس خیال کا تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو اس کے پیچھے سے ایک اور تصور برآمد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام اور دنیاوی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ مسلمان مسلمان ہوں گے تو لازمی طور پر دنیاوی ترقی کریں گے۔ اسلام انہیں حکومت دے گا‘ غلبہ دے گا‘ دولت اور ثروت دے گا‘ وہ دوسری قوموں سے مادّی ترقی میںآگے وغیرہ وغیرہ۔ اب چوں کہ مسلمان حالتِ زوال میں ہیں‘ اس لیے اس سے لازمی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسلام پر عمل نہیں کر رہے ہیں یا جس اسلام پر عمل کر رہے ہیں وہ اسلام نہیں ہے۔ اس تصور کا ایک رُخ اور بھی ہے۔ اگر دنیاوی ترقی اسلام کا نتیجہ ہوتی ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ جو قومیں دنیا میں ترقی کر رہی ہیں یا اس سے پہلے ترقی یافتہ گزری ہیں وہ اسلام پر عمل پیرا تھیں۔ مزید صاف لفظوں میں اس خیال کا ترجمہ یہ ہے: مسلمانوں کے دنیاوی زوال سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان صرف برائے نام مسلمان ہیں اور ان کا اسلام صرف برائے نام اسلام ہے۔ جب کہ وہ قوتیں جو ترقی کر رہی ہیں وہ معنوی طور پر مسلمان ہیں اور جس چیز پر عمل کر رہی ہیں وہی حقیقی اسلام ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تصور نہ صرف غلط بلکہ سرے سے مہمل ہے۔ اسلام اور دنیاوی ترقی لازم و ملزوم نہیں ہیں اور غلبہ و اقتدار دولت و ثروت لازمی طور پر نہ اسلام کا نتیجہ ہیں اور نہ اسلام سے کوئی لازمی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں مسلمانوں کو دنیاوی کامیابی حاصل ہوئی‘ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اسلام کا نتیجہ تاریخ کے ہر دور میں غلبہ اور ترقی ہوگا‘ کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بات کو ذرا تفصیل سے بیان کر دوں۔ جو لوگ غلبہ و اقتدار اور دنیاوی ترقی کو اسلام کا لازمی نتیجہ قرار دیتے ہیں‘ وہ قرآنِ حکیم کی چند آیات سے استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً سورۃ الانبیا میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔‘‘ اس آیت سے کچھ لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی وراثت نیک بندوں کے لیے مقرر فرما دی ہے‘ اس لیے جو زمین کا وارث ہے وہ نیک ہے اور جو زمین کی وراثت سے محروم ہے وہ نیک نہیں ہے۔ اسی طرح سورۃ النور کی ایک آیت ہے۔ (ترجمہ) ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں وہ اُن کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔‘‘ یہ لوگ اس آیت سے بھی یہی استدلال کرتے ہیں کہ زمین کی خلافت کا وعدہ مومنوں سے کیا گیا ہے اور اس لیے ثابت ہوتا ہے کہ جسے زمین کی خلافت حاصل ہے وہی لائق ہے اور جسے یہ خلافت حاصل نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے۔ چوں کہ یہ خیالات ایک زمانے میں بہت عام تھے اور ان کے بچے کچھے اثرات اب بھی باقی ہیں‘ اس لیے میں جانتا ہوں کہ ان خیالات میں جو بگاڑ ہے اسے واضح طور پر پیش کروں۔ سورہ الانبیا کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ ’’تفہیم القرآن‘‘ کی جلد سوم صفحہ 189 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
’’اس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن کی تردید اور پورے نظامِ دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے۔ وہ آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت و فرماں روائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قاعدے یا کلیے سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثتِ زمین ہے جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر اُن قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو دنیا میں پہلے وارثِ زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر و مشرک‘ دہریے‘ فاسق و فاجر‘ سب ہی کہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں‘ جن کو قرآن صاف الفاظ میں کفر‘ فسق‘ فجور‘ معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے‘ وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں۔ کچھ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جارہی ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کردہ قاعدہ کلیہ تو غلط ہو نہیں سکتا۔ اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ صالح کے اس مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصور تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں ’’صالح‘‘ قرار پاسکیں۔‘‘
آگے چل کر مولانا مودودیؒ کہتے ہیں ’’اس نئی تفسیر کی رُو سے آیتِ زیرِ بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرے اور ان پر زور و قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو‘ وہی خدا کا ’’صالح‘‘ بندہ ہے اور اس کا یہ فعل تمام ’’عابد‘‘ انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ’’عبادت‘‘ اس خیر کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے۔ اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجے میں وراثت زمین سے محروم رہ جاتے ہو‘ تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بندہ کہا جاسکتا ہے۔‘‘
جیسا کہ مولانا مودودیؒ نے بیان کیا ہے کہ یہ تصورات اتنے واضح طور پر غلط ہیں کہ ہر مسلمان ان کی غلطی کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ نعوذ باللہ اگر صحیح ہوں تو پوری قرآنی تعلیمات بے کار ہو جائیں اور ایمان بااللہ اور ایمان بالیوم الآخر‘ ایمان بالرُسل اور ایمان بالقلب کے کوئی معنی نہ رہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ’’وارثتِ زمین‘‘ کے تصور کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے۔ مولانا مودودیؒ اس لیے وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں ’’تفسیر کے اصل اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا ہے۔ زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظامِ زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے۔ زمین کی وارثت کیا چیز ہے اس کا بیان سورۂ زمر کے خاتمے پر واضح اور صریح الفاظ میں ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
۔ (ترجمہ) ’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا‘ وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ لے جائے جائیں گے‘ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اُن کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے منتظم ان سے کہیں گے کہ سلام ہے تم کو۔ تم بہت اچھے رہے‘ آئو اب اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہو جائو اور وہ کہیں گے کہ حمد ہے اُس خدا کی جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین کا وارث کر دیا۔ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ یہی بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔‘‘ مولانا مودودیؒ ارشاد فرماتے ہیں ’’دیکھیے یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں اور دونوں جگہ وراثتِ زمین کا تعلق عالمِ آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے۔‘‘
میں نے یہ لمبے چوڑے حوالے اس لیے نقل کیے ہیں تاکہ یہ بات ظاہر ہو جائے کہ دنیاوی غلبہ و اقتدار اور مادّی ترقی کا اسلام سے کوئی لازمی تعلق نہیں ہے اور قرآن کی آیات سے جن لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے۔ انہوں نے بہ قول مودودیؒ ’’پوری جسارت کے ساتھ ایمان‘ اسلام‘ توحید‘ آخرت‘ رسالت‘ ہر چیز کے معنی بدل ڈالے ہیں اور قرآن کی ساری تعلیمات کو الٹ پلٹ کر ڈالا ہے۔‘‘ اور بقول مولانا مرحوم کے ’’یہ دراصل مادّی ترقی کی خواہش کا وہ ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس بری طرح لاحق ہو گیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔‘‘
اس بحث سے مختصر طور پر یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ دنیاوی غلبہ و اقتدار اور مادّی ترقی حاصل کرنے یا نہ کرنے کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔