۔’’نہ جانے کہاں سے بال کی کھال نکالنے کی عادت پڑ گئی ہے تجھے! بڑا فلسفی بنا پھرتا ہے۔ آئے دن نئے سے نئے فلسفے پیش کرتا رہتا ہے۔ اپنی عمر نہیں دیکھتا، دودھ کے دانت ابھی ٹوٹے نہیں، اور چلا ہے بڑی بڑی باتیں کرنے…! ہر بات میں کوئی نہ کوئی نئی منطق لے آتا ہے۔ سوچتا ہوں تجھے تیری خالہ کے گھر پنڈی بھیج دوں، ماں باپ سے دور رہے گا تو ہی عقل ٹھکانے آئے گی۔ میرے بس میں ہو تو صبح کی پہلی گاڑی سے ہی روانہ کردوں، لیکن کیا کروں تیری ماں درمیان میں آجاتی ہے، بڑا لاڈلا بنا رکھا ہے۔ بڑی تخریبی سوچ ہے تیری، کبھی بھی تعمیری خیال تیرے ذہن میں نہیں آتا۔ ان حرکتوں سے لگتا ہے کہ بڑا ہوکر سیاست دان بنے گا، وہ بھی کرپٹ… اور ہماری طرح کے لوگوں کے کان کاٹے گا۔ نہ جانے اسکول والے بھی کیا پڑھاتے ہیں! دن بھر گھر میں پڑا چارپائی توڑتا رہتا ہے۔ دیکھنے میں بڑا لاٹ صاحب لگتا ہے۔ سارا دن محنت مزدوری کرکے گھر آئو تو شکایتوں کے انبار لگے ہوتے ہیں، ایک لمبی چوڑی فہرست سننے کو ملتی ہے۔ اللہ بخشے ابا حضور کو، بڑے ہی نیک انسان تھے، پنج وقتہ نمازی… کبھی کسی کا حق مارا اور نہ غلط بات کی۔ بڑی عزت تھی ان کی۔ محلے والے انہی سے اپنے بچوں کے کان میں اذان دلوایا کرتے تھے، اور تجھے تو گھٹی بھی خود انہوں نے ہی دی تھی۔ اگر زندہ ہوتے تو ضرور تیری حرکتیں دیکھ کر مر جاتے۔ نام خراب کرکے رکھ دیا ہے خاندان کا۔ گھر کا سکون برباد کردیا ہے۔ جارہا ہوں، جب تک تُو نہیں سدھرتا تب تک واپس گھر نہیں آئوں گا۔‘‘
شکور بھائی کے گھر سے جب بھی شور شرابا سنائی دے، تو سمجھ لیجیے کہ ضرور خالد نے کوئی نہ کوئی فنکاری دکھائی ہوگی۔ خالد کی عمر ابھی فقط 13 سال ہے، لیکن باتوں سے وہ ساٹھ سال سے بھی زیادہ کا لگتا ہے۔ پوری بلڈ پریشر بڑھانے کی مشین ہے۔ کب کوئی ایسی بات کردے جس سے شکور بھائی کا بی پی ہائی ہوجائے، کوئی نہیں جانتا۔ ہاں اس کی ہوشیاری اور نکتہ چینی سے محلے کا ہر فرد ضرور واقف ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ لوگ دوسروں کے گھروں میں ہونے والی پنچایتوں اورآپسی جھگڑوں سے کچھ نہ کچھ نکالنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ میں بھی انسان ہوں، لہٰذا مجھ میں بھی اس قسم کی کچھ کمزوریاں ہوسکتی ہیں، لیکن میری کوشش ہمیشہ یہی رہتی ہے کہ معاملات کو سلجھانے کے لیے جو کرسکتا ہوں، کر گزروں۔ اس لیے ضروری تھا کہ میں شکور بھائی کے گھر ہونے والے اس ’’ڈرامے‘‘ کے مرکزی کردار سے وہ ساری کہانی سنوں جس پر شکور بھائی گھر چھوڑنے کی دھمکی دینے پر مجبور ہوئے۔ ویسے تو اُن کا اس طرح ناراض ہوکر گھر سے نکلنا کوئی نئی بات نہیں، وہ غصہ ٹھنڈا ہوتے ہی گھر واپس آجایا کرتے ہیں، اور دیکھا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام والدین اپنی اولادوں پرغصہ کرتے رہتے ہیں، لیکن یہاں فرق صرف خالد کی باتوں کا ہے جسے گھر سے باہر نکلتے ہی میں نے اپنے پاس بٹھا لیا اور پوچھا:۔
’’کیا ہوا، خیریت تو ہے؟ ابو گھر سے غصے میں ناراض ہوکر کیوں گئے ہیں؟‘‘
’’ایسا توکچھ نہیں ہوا انکل، بس ذرا سی بات پر چلے گئے۔ فکر کی کوئی بات نہیں، ابھی آجائیں گے۔‘‘ خالد نے بڑے بے فکرے انداز میں جواب دیا۔
’’پھر بھی کچھ تو ایسا ہوا ہوگا جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی؟‘‘
میرے پوچھنے پر وہ بولا: ’’بات اتنی بڑی نہیں… گھر میں باتیں چل رہی تھیں، بھائی کے پوچھنے پر میں نے کہا کہ بڑا ہوکر فلموں میں ولن کے کردار کیا کروں گا، اس پر بھائی نے کہا ہیرو کا کردار کیوں نہیں کرو گے؟ انہیں جواب دیتے ہوئے میں نے بس اتنا ہی کہا کہ ہیرو کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے! فلم کے شروع میں دس سے پندرہ منٹ، اور گمشدہ ہیروئن کے ملنے کی خوشی میں آخری پانچ منٹ… بس قصہ تمام۔ جبکہ ولن فلم کی ساری کہانی میں دادا گیری کرتا ہے۔ مجھے رعب ودبدبے والے کام پسند ہیں۔ بس اتنی سی بات پر ابا نے سارا گھر سر پہ اٹھالیا۔‘‘
خالد کی بات سن کر میں نے اُس کے والد کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے سمجھایا کہ تمھاری سوچ بالکل غلط ہے، پہلے پڑھو، اپنی تعلیم مکمل کرو اور پھر کسی اچھی نوکری کے بارے میں سوچنا۔ میرا مطلب ہے کسی اچھے ادارے میں افسر لگنے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن خالد بھی نہ جانے کون سی مٹی سے بنا ہوا ہے! میرے اتنا سمجھانے کے باوجود کہنے لگا: ’’پولیس کا محکمہ کیسا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’اچھا ہے… کیوں؟‘‘
’’تو بس ٹھیک ہے، میں بڑا ہوکر پولیس میں ہی جائوں گا، اور اِن کائونٹر اسپیشلسٹ بنوں گا۔‘‘
خالد کے اس جواب پر مجھے خاصی حیرت ہوئی، اس لیے ایک مرتبہ پھر میں نے اُس کے دماغ میں آنے والے شیطانی خیالات کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی: ’’کسی ایک کردار کی مثال چھوڑو، اتنا بڑا محکمہ ہے، پولیس افسران اور بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ پہلے پڑھائی مکمل کرو، جب وقت آئے گا تو کسی بھی اچھی پوسٹ کے لیے درخواست دے دینا۔ ابھی سے اس پر دماغ کھپانے کی کوشش نہ کرو‘‘۔ یوں میں نے اُس کے ذہن کو صاف کرنے کے لیے بات گھمائی۔
لیکن وہ واقعی بال کی کھال نکالنے کا ماہر تھا، اپنی نئی منطق جھاڑتے ہوئے بولا: ’’بندہ پولیس جیسے محکمے میں ہو، اور اس کے پاس جدید اسلحہ بھی ہو تو ایسے میں اپنے ہی اسٹائل میں افسری کرنے کا حق تو بنتا ہے۔ وہ نوکری ہی کیا جس میں چار پیسے نہ کمائے جاسکیں! نوکری وہی اچھی جس میں مال ملے۔ ابا کی طرح تھوڑی کہ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح جُت کر برسوں بعد بھی مکان نہ بنا سکے… مکان تو دور کی بات، ایک پلاٹ تک نہ لے سکے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ میں بھی کسمپرسی کی زندگی گزاروں۔ گاڑی، بنگلہ اور بینک بیلنس میرا بھی حق ہے۔ دنیا میں آئے ہیں تو ہاتھ پیر مار کر پیسے کمانے ہی ہوں گے۔ اور پھر اس میں قباحت ہی کیا ہے! ایسا کرنے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ میری عمر کے لڑکوں کے پاس بہترین موبائل فون اور مہنگی ترین گاڑیاں ہیں۔ غربت نصیب میں نہیں بلکہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس کے اپنے فیصلے ہی اسے عروج و زوال دلاتے ہیں، ورنہ دو وقت کی روٹی ملنا بھی مشکل ہے۔‘‘
’’خالد! ایسی باتیں نہیں کرتے۔ تمہارے والد محنت کرکے حق حلال روزی کماتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ پیسہ ہماری ضرورت ہے، اس کے بغیر زندگی کا پہیہ نہیں چلتا۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، موبائل، گاڑی، بجلی، گیس… غرضیکہ سب کچھ پیسے سے ہی خریدنا پڑتا ہے، اور اس کے لیے پیسہ کمانا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ پیسہ ناجائزسوچ یا ذرائع سے ہی کمایا جائے۔‘‘
’’بھئی میرا تو یہی ارادہ ہے۔ میں مفلسی کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اپنی ضروریات کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائوں گا۔ غربت کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے پیسہ کما کر عیاشی کی زندگی گزاری جائے، چاہے اس کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔‘‘
کسی بھی ملک میں معاشی عدم مساوات طبقاتی تقسیم کو جنم ی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کا ایک طبقہ امیر تر، جبکہ دوسرا طبقہ غریب تر ہوتا جاتا ہے، اور یہی غربت زدہ طبقہ خود کو انسانی سطح سے نیچے کی مخلوق سمجھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب لوگوں کی ضروریاتِ زندگی پوری نہ ہوں تو اُن میں سے کچھ خودکشی کے مرتکب ہوجاتے ہیں، جبکہ کئی جرائم کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ یہی منفی رویہ نہ صرف فرد بلکہ خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بھی بنتا ہے۔ پیسہ کمانے کی سوچ کسی ایک خالد کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہماری ساری نوجوان نسل کا المیہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اوّل تو مواقع دستیاب نہیں، اگر ہیں تو صلاحیتوں کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا۔ جن کے پاس تعلیم ہے انہیں نوکری نہیں ملتی، اگر نوکری ہے تو اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ تنخواہیں انتہائی کم ہونے کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی پوری نہیں ہوتیں، اس لیے ہر کوئی ناجائز ذرائع اور شارٹ کٹ سے پیسہ کمانے کے چکر میں ہے جو انہیں جرائم کی دنیا تک لے جاتا ہے، جس کی کئی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ اس صورتِ حال میں جہاں ایک طرف جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، وہیں دوسری جانب نفسیاتی اور سماجی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ حکومت، سیاسی و مذہبی رہنمائوں، سول سوسائٹی، این جی اوز، دانشوروں… سب کو بیٹھ کر ایک ایسی مؤثر پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں ابھرتے منفی رجحانات کے بجائے مثبت سوچ کو اجاگر کیا جا سکے، بلکہ ملک میں رائج طبقاتی نظام کا خاتمہ بھی ہوسکے۔