ترکی: وفورِ شوق

قسط نمبر 3
سفر کی تاریخ اور فلائٹ کے وقت سے کم از کم 48 گھنٹے پہلے کا کورونا ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جو ٹور آپریٹر کی ہدایت کے تحت بالکل آخری دو دن پہلے کروایا جائے۔ زرِ مبادلہ کے طور پر دو‘ تین سو ڈالر فی کس کافی ہوں گے۔ اگر آپ کے پیکج میں کھانا‘ ٹرانسپورٹ‘ ٹکٹس (ترکی میں) اور ہوٹل کا کرایہ شامل ہے اور آپ کوئی بھاری بھرکم شاپنگ کا ارادہ بھی نہیں رکھتے تو یہ رقم بھی بہت کافی ہے۔ اپنی ضروریات کے حساب سے ان میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ بہتر ہے کچھ اضافی رقم ساتھ لے لیں‘ ترکی میں ڈالر‘ یورو اور لیرا تینوں استعمال اور تبدیل کرائے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی مناسب ہوگا کہ روانگی سے قبل اپنے کریڈٹ کارڈز کو انٹرنیشنل کروالیا جائے اور واپس آکر اسے تبدیل کر لیا جائے۔
لگے ہاتھوں موضوع کی مناسبت سے یہ بھی ذکر ہو جائے کہ ترکی پاکستان کی نسبت مہنگا ہے‘ چیزیں اعلیٰ معیار کی ضرور ہیں مگر امکان ہے کہ برانڈڈ چیزیں نقل ہوں۔ یہ بھی دل چسپ بات ہے کہ نقل بعض اوقات اصل سے زیادہ بہتر معیار کی ملتی ہیں۔ اتنی دور جا کر شاپنگ میں وقت ضائع کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا‘ لہٰذا اس سے احتراز کرنا ہی دانش مندی ہوگا۔
ترکی کے سفر کے لیے لگژری پیکج لینا بھی ضروری نہیں‘ وہاں کی ٹرانسپورٹ اور ہوٹلز اعلیٰ معیار کے ہیں‘ جہاں با آسانی مسافرت کے دن گزارے جا سکتے ہیں اور کھانے تو لاجواب ہیں ہی۔ انہیں حسب طلب ضرور کھایئے‘ لطف اٹھایئے مگر وہ بھی مجھ جیسے شخص کے لیے بہت زیادہ مقدار اور انواع و اقسام میں فراہم کیے جاتے ہیں۔
جہاز یقینا ترکش ائر لائن کا مناسب‘ مانوس اور معقول حد تک مناسب ہے۔ پانچ گھنٹے کا سفر ترکی اور ترکوں سے محبت‘ انصاری و رومی اور الطغرل اور آیا صوفیہ اور مساجد قدیمہ و جدیدہ دیکھنے کی آرزو‘ امید اور تڑپ میں با آسانی گزر جائیں گے۔ پھر لاہور‘ کراچی یا اسلام آباد سے آپ کو ترکی زبان کا ’’لطفِ سماعت‘‘ آنے لگے گا اور آپ پاکستان کی فضائوں میں ہی خود کو ترکی میں پائیں گے۔ پھر نشستوں کے سامنے نصب اسکرینوں پر آپ ترکی کے مقامات و مناظر سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔ یا جہاز کو مختلف ممالک کی فضائی حدود میں سفر کرتے دیکھ سکیں گے۔ اپنی بلندی اور 35 ہزار فٹ پر باہر کے موسم کے بارے میں جان سکیں گے یا پھر حسب طلب Movie سے دل بہلا سکیں گے۔

خوابوں خیالوں میں ترکی

آغازِ سفر سے پہلے بہتر ہوگا اگر آپ یو ٹیوب پر موجود ان تمام مقامات‘ شہروں اور دیگر حالات و معلومات کی مختصر وڈیوز کا مشاہدہ کرکے خود کو ذہنی طور پر تیار کرلیں۔ سلطنت عثمانیہ سے متعلق تاریخی کتب اور ترکی کے سفر نامے کا مطالعہ کیجیے۔ انٹرنیٹ سے ہر وہ بات‘ ہر وہ سوال جو آپ کو جاننا مطلوب ہے حتیٰ کہ موسم‘ سب معلوم کیجیے۔ یہ نہ لگے کہ آپ اس ’’پینڈو‘‘ ملک سے آئے ہیں‘ جہاں جدید وسائل و ذرائع ابلاغ کو تحصیل علم و آگاہی کے لیے نہیں‘ محض کھیل تماشے اور بے ہودگیوں کے لیے استعمال کیا جاتا اور اظہار تفاخر کے لیے ہاتھ میں سجایا جاتا ہے۔

اُٹھ کہ سامانِ سفر تازہ کریں

اللہ اللہ کرکے ویزا آیا‘ ہم نے 13 اکتوبر کو پرانے شیڈول کے مطابق روانہ ہونا تھا‘ مگر گروپ کے بعض لوگوں کے ویزے ابھی تک نہیں آئے تھے۔ ہمارا ویزا بھی غیر معمولی تاخیر سے موصول ہوا۔ شاید کرونائی آفت نے اس پراسیس کو متاثر کیا تا متاخر‘ بلکہ زیادہ امکان اور باعثم تاخیر آذر بائیجان میں جاری فوری مہمات اور ازمیر کے زلزلی کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ترکی کے معمولاتِ زندگی میں ان دونوں واقعات کا کوئی ایسا گہرا اثر نہیں پڑا کہ ہمارے ملک کی طرح سارا نظامِ زندگی معطل ہو جاتا۔ یہاں تو دُھند پڑے یا بارش کے چند قطرے‘ موسم بدلے یا سیاسی ہل چل ہو یا کوئی گٹر کھل جائے یا پل ٹوٹ جائے یا پھر کوئی عوامی نمائندے‘ عوامی پیسے پر پلنے والے افسر اعلیٰ‘ کسی سیاسی شادی یا فوتگی یا پارٹی کی مصروفیت میں شریک کے لیے آجائیں تو سارا نظامِ زندگی معطل ہو کر قوم کو اپنی حیثیت اور قیمت بتانے کے لیے وقتاً فوقتاً بلکہ اکثر قوم کی بے چارگی اور حکمرانوں کی بے حسی میں اضافے کا ہی سبب بنتا ہے۔ پھر اس طرح کے قومی تعطلات میں طرح طرح کی افواہیں‘ اندازے جو ہر کسی کی خواہشاتِ دیرینہ و خفتہ کیی عکاس ہوتی ہیں‘ پھیل کر قوم کی زندگی اور شعور و تحرک کا احساس دلاتی ہیں۔ انور مسعود نے انگریزی مضمون کے بارے میں ہمارے تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا طور پر کہا کہ ’’فیل ہونیکو بھی کوئی مضمون ہونا چاہیے۔‘‘
جس ملک میں مسافروں سے بھرا جہاز یرغمال بنا لیا جائے‘ پیرا شوت سے حکمران نازل ہو جائیں‘ مساجد گرا دی جائیں‘ مندر آباد اور گردوارے 90 فیصد مسلمانوں کے ٹیکس سے اور بیت المال سے تعمیر کرائے جائیں‘ جہاں آئین و وطن سے وفادار کا سرعام حلف اٹھانے والا‘ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا ہر عوامی نمائندہ اربوں کھربوں کا ڈکیت بن جائے‘ اس ملک میں یہ سب قوم کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے اور موجوں میں اضطراب پیدا کرکے ’’زندہ قوم ہیں‘ پائندہ قوم ہیں‘‘ کے نعرے کو عملی طور پر متشکل کرنے کا ہی ذریعہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم ترکی سے کہیں آگے بلکہ بہت باشعور ہیں کہ ہر بڑے سے بڑے حادثے‘ طوفان‘ سانحے میں ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں خواہ قومی سلامتی خطرے میں پڑے یا غیرتِ قومی نیلام ہو یا عقل‘ شعور‘ تہذیب‘ انسانیت و اسلامیت کا جنازہ ہی نکل کیوں نہ جائے۔ خیر یہ تو نوحۂ غم ہے یا شعار وطن و قوم ’’ہم نہ بدلیں گے نہ یہ طرزِ وفا بدلے گی‘‘۔
ترکی کا ویزا ملتے ہی ہم نے وہ سارے اندیشے‘ خدیشے اور پاکستانی رویّے جو ترکوں کے بارے میں غیر محسوس انداز سے پروان چڑھ چکے تھے‘ جھتک دیے اور نعرہ لگایا ’’آتھ کہ سامانِ سفر تازہ کریں۔‘‘ بچے ’’جیفریز‘‘ کا برانڈڈ ایک خوب صورت سفری بیگ لے آئے‘ گلے میں لٹکانے اور ضروری دستاویزات اور ہنگامی ادویہ و اشیا کے لیے۔ رنگ گہرا سفید میری پسند تھا‘ مزید یہ چمڑے کے اس بیگ پر میرا نام بھی انگریو یعنی کھدا ہوا تھا‘ لہٰذا اتنے قیمتی بیگ کو بصد صبر و شکر قبول کر لیا۔
زرمبادلہ آسانی سے مل گیا‘ اس کے دو پیکٹ بنا کر دو جگہ محفوظ کر لیے‘ دو علیحدہ علیحدہ حسب ضرورت زیادہ گنجائش پیدا کرنے والے سوٹ کیسوں کو بھرنے کا عمل شروع ہوگیا۔ جتنے دن کا سفر کم از کم اتنے یا ایک دو زیادہ سوٹ‘ ٹھنڈے موسم و مقام کی مناسبت سے کچھ جیکٹس‘ سوئیٹرز‘ دستانے‘ جرابیں اور اچانک بارش سے بچائو کے لیے چھتری اور چھوٹی موٹی ہر وہ چیز جس کی ضرورت ہوتی ہے اس خدشے سے کہ وہاں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے اور ’’دماغِ یار‘‘ تک اپنا مدعا و مطلوب مو مقصود کیسے پہنچائیں گے۔ پھر روز مرہ کی دوائیاں‘ ڈاکٹری نسخہ۔ اگرچہ اس کی ضرورت نہیں پڑی۔

تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط

بیگ میں سب کچھ تھا سوائے ’’تصویر بُتاں اور حسینوں کے خطوط‘‘ کے۔ اس لیے کہ ہم مرنے تو جا نہیں رہے تھے اور پھر اپنی ذاتی ’’حسینہ‘‘ بھی ساتھ تھی اور اب اس کے خطوط سے زیادہ ’’لہجے‘‘ اور ’’نظریں‘‘ مؤثر اور قابل توجہ تھیں اور تقریباً 38 سال کی طویل رفاقت نے ساری تصاویر بُتاں بھی دھندلا دی تھیں۔ حُسنِ اتفاق سے ان تصاویر ’’بُتاں‘‘ میں سے ایک تصویر کو تشکیل و تجسیم نکاح کا روپ دے کر ہم اپنے گھر اور زندگی میں لے آئے تھے۔ البتہ اس سے پہلے یہ واضح اعلان کرنا پڑتا تھا:۔

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی

ہم دلّی ’’پھینکنے‘‘ کی طبعی عمر میں بھی دلِ سوختہ ہی رہے۔ اصل میں کچھ تو حالات کا شکار رہے کہ زمانے میں اور کام بھی تھے بشمولِ غم روزگار‘ محبت کے سوا۔ پھر ہم اسلامی جمعیت طلبہ کے مضبوط حصار میں رہے۔ دل کی ساری توجہات اسی کی جانب ملتفت رہیں۔ اس نے ہمیں اور ہمارے دل کو کہیں اور متوجہ ہی نہیں ہونے دیا۔ البتہ جب پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں داخل لیا تو چاروں طرف ’’حسینائیں۔‘‘ غالب کے اس مصرع نے مخمصے میں ڈالے رکھا کہ حسینائوں کے خطوط سے کیا مراد ہے۔ کاغذ پر لکھے گئے خطوط نہیں مکتوبات یا خطوط… اور اس نے کسی پر ’’مرنے‘‘ کی بات کی تھی۔

رائل سلطانی کے سنگ

مشورہ ہے کہ بیرون ملک کا سیاحتی سفر ہمیشہ کسی قابل اعتماد اور تجربہ کار ٹور آپریٹر کے ساتھ کیجیے۔ وہ آپ کے سفر کے تمام ضروری انتظامات‘ ائر ٹکٹ‘ ہیلتھ انشورنس‘ ہوٹل بکنگ‘ مقامی ٹرانسپورٹ‘ گائیڈ اور ٹور شیڈول سب پہلے سے ہی طے کرکے آپ کو دیارِ غیر کی اجنبیت اور عدم واقفیت کے نتائج اور اندیشوں سے بے نیاز کر دیں گے۔
سفر ترکی کا ارادہ کرتے ہی میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو اکہ ترکی کو کسی مخصوص فکری نظر سے دیکھنے کے بجائے ایک عام شخص کی حیثیت سے کھلے ذہن‘ کھلے ماحول اور کھلے دل کے ساتھ دیکھا جائے۔ لہٰذا تلاش ہوئی کسی ایسے گروپ و ٹور آرگنائزر کی جو کسی سیاسی یا فکری وابستگی کے بغیر اس سفر کو ترتیب دے۔ یہ کام لاہور کے ٹور آپریٹر ارسلان اور آصف خان کی متحرک‘ نوجوان اور تجربہ کار قیادت نے سر انجام دیا۔ ’’رائل سلطان‘‘ کے زیر اہتمام اس سفر کا حتمی فیصلہ ہوا۔ گرچہ قدرے مہنگا‘ مگر بہترین اور ہر اعتبار سے قابلِ قدر و تعریف پیکج اور اہتمام نے لطف سفر دوبالا کر دیا۔ بہترین رہائش‘ ٹرانسپورٹ‘ عمدہ کھانے سب یادگار ہو گئے۔ پھر ساٹھ سے زائد ہر طبقۂ فکر اور عمر کے خواتین و حضرات کی رفاقت اور باہمی تعارف نے اس سفر کو مزید دل کش و دلآویز بنا دیا۔
(جاری ہے)